• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ شب مجھے ایم اے پولیٹیکل سائنس کے ہم جماعت جناب نسیم باجوہ پچپن سال بعد ملنے آئے اور پرانی یادوں کا ایک چمن کھِلا گئے۔ وہ اِن دنوں انگلستان میں ہیں اور قانون کی پریکٹس کر رہے ہیں۔ میں نے پوچھا آپ تو ایچی سن کالج میں پڑھاتے تھے ، تو کوچۂ وکالت میں کیسے نکل آئے۔ اُنہوں نے بڑی دلچسپ آپ بیتی سنائی جس میں بڑے بڑے اسرارورموز چھپے تھے۔ کہنے لگے کہ یہ 1964ء کی بات ہے اور صدارتی انتخاب میں ایوب خاں کے مدِ مقابل مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح تھیں۔ اِن دنوں اسکندر جمالی ایچی سن کالج میں پڑھتے تھے۔ اُنہوں نے اپنے گھر پر محترمہ کو مدعو کیا اور مجھے بھی دعوت دی۔ وہاں سی آئی ڈی لگی ہوئی تھی اور ہر آنے والے کا نام نوٹ کیا جا رہا تھا۔ دوسرے دن جب میں کلاس روم میں لیکچر دے رہا تھا ، تو مجھے پولیس کے ذریعے اِس ادارے سے نکل جانے پر مجبور کر دیا گیا۔ اُس زمانے میں ایچی سی کالج کا نظم و نسق انگریز اساتذہ کے ہاتھوں میں تھا۔ اُنہوں نے حکومت کے اِس اقدام کے خلاف ایک ہنگامی اجلاس بلایا اور مجھے انگلستان بھیجنے کا فیصلہ کیا کہ وہاں انگریز طلبہ کو پولیٹیکل سائنس پڑھایا کروں گا۔ میں اِس فیصلے کے مطابق لندن چلا گیا اور ایک معروف گرائمر اسکول میں بطور استاد تعینات ہوا۔ میں دوسرے دن اسکول کی وسیع و عریض لائبریری میں گیا اور خاتون لائبریرین سے پوچھا یہ کس وقت تک کھلی رہتی ہے؟ اُس نے طنزیہ مسکراہٹ سے جواب دیا کہ یہ چوبیس گھنٹے کھلی رہتی ہے۔ میں نے دل ہی دل میں کہا کہ یہ خاتون مجھے بے وقوف بنا رہی ہے۔ میں چلا آیا اور دو تین روز بعد رات ڈھلے لائبریری کی طرف گیا ، تو حیرت زدہ رہ گیا کہ وہاں لڑکے اور لڑکیاں مطالعے میں ہمہ تن مصروف تھے اور بیٹھنے کے لئے کوئی جگہ نہیں تھی۔ تب مجھے برطانیہ کی عظمت کا راز معلوم ہوا اور یہ بھید کھلا کہ وہی قومیں ترقی کرتی ہیں جو علم و تحقیق میںآگے ہوتی ہیں۔
میرے دوست نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے ایک عجب انکشاف کیا کہ مجھے اسکول میں پڑھاتے دس برس ہو چکے تھے ، تو لائبریری میں ایک کتاب میرے ہاتھ لگی۔ اِس میں لکھا تھا کہ دس برس کی ملازمت کے بعد قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے پانچ سال کی چھٹی پوری تنخواہ پر لی جا سکتی ہے۔ میں نے اِس رعایت سے فائدہ اُٹھایا اور ایل ایم ایم کرنے کے ساتھ بیرسٹری بھی کر لی۔ اب میرے پانچوں بیٹے اﷲ کے فضل سے بیرسٹر ہیں اور اُن میں سے ایک ہائی کورٹ کا جج بننے کے مراحل سے گزر رہا ہے۔ یہ سب کچھ اﷲ تعالیٰ کی دین ہے اور پاکستان میری شناخت ہے۔ انگلستان میں رہتے ہوئے میں نے محسوس کیا ہے کہ وہاں کے حکمران اور عوام پڑھتے اور سوچتے ہیں اور اپنے مسائل کا حل وقت سے پہلے تلاش کرتے رہتے ہیں۔ وہاں کی سیاسی جماعتیں بھی تقریباً ہماری جیسی ہیں، مگر اُن کے لئے سوچنے کا اہم کام تھنک ٹینکس اور یونیورسٹیاں سرانجام دیتی ہیں اور میڈیا ناظرین کی ذہنی اور سیاسی تربیت کرتا ہے۔
دس دسمبر کی شام ٹی وی اسکرین پر میں نے سترہ سالہ ملالہ یوسف زئی کو اوسلو میں امن کا نوبیل انعام لیتے دیکھا ، تو خوشی اور فخر کی ایک روح پرور سرشاری محسوس کی۔ ہماری پُرعزم بیٹی نے ایک نہایت جچی تلی تقریر میں کہا کہ میں یہ انعام امن اور تعلیم کی خواہش مند بچوں کے نام کرتی ہوں اور جب تک ہر بچہ اسکول نہیں جاتا ، اپنی جدوجہد جاری رکھوں گی اور میں چھ کروڑ بچیوں کی آواز ہوں۔ اِس بہادر اور ذی شعور لڑکی نے یہ بھی کہا کہ میری آواز جیت گئی اور ظالموں کی گولی شکست کھا گئی۔ میں اپنی عظیم بیٹی ملالہ کو اعلیٰ ترین اعزاز حاصل کرنے پر مبارک باد پیش کرتا ہوں اور امن نوبیل انعام پر پاکستان کو بھی ہدیۂ تبریک پیش کرتا ہوں ، مگر سوچتا ہوں کہ ہم اپنی بیٹی کو تحفظ فراہم کیوں نہ کر سکے ، اپنے بہترین ہسپتالوں میں اِس کا علاج کیوں نہ کرا سکے اور ہمارے اربابِ اختیار تعلیم کو وہ اہمیت دینے کے لئے کیوں تیار نہیں جس کے بغیر معاشرہ ترقی کرتا ہے نہ جمہوریت مستحکم ہوتی ہے نہ معاشی غلامی کی زنجیریں کٹتی ہیں۔ یہ کس قدر دکھ اور شرم کی بات ہے کہ ہم اپنے جی ڈی پی کا صرف ڈیڑھ فی صد تعلیم پر خرچ کرتے ہیں اور اِس کا بھی ایک بڑا حصہ بدانتظامی اور کرپشن کے سبب ضائع ہو جاتا ہے۔ حکومتی دعووں کے برعکس ، وہ تعلیمی ادارے جن میں عام شہریوں کے بچے پڑھتے ہیں ، ان میں سے اکثر بنیادی سہولتوں اور فرض شناس استادوں سے محروم ہیں۔ اِن میں خاک اُڑتی ہے۔ اشرافیہ نے نئے عالیشان تعلیمی اداروں کا ایک جال بچھا دیا ہے جن میں حکومت چلانے کے لئے بیوروکریٹ، پولیس افسر، جرنیل اور اقتصادی ماہرین تیار کیے جاتے ہیں۔ قوم کے تقسیم ہو جانے سے اہم قومی معاملات پر اتفاقِ رائے کا عمل بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ حکمران طبقے میں سوچنے اور دیکھنے کی صلاحیت محدود سے محدود تر ہوتی جا رہی ہے اور فکری اور انتظامی انتشار بڑھتا جا رہا ہے۔
پنجاب جو دس کروڑ شہریوں کا صوبہ ہے ، اِس کی انتظامیہ اور اِس کی پولیس امنِ عامہ کے قیام میں خاطر خواہ دلچسپی نہیں لے رہے۔ جناب وزیراعلیٰ نظام پر اعتبار کرنے اور اِسے مستحکم بنانے کے بجائے شخصی حکمرانی کے لطف اُٹھانا چاہتے ہیں۔ ہر واقعے اور حادثے کا وہ خود نوٹس لیتے اور احکام جاری کرتے ہیں۔ اِس طرزِ حکمرانی کے باعث گزشتہ چھ ماہ میں بڑے بڑے حادثے ہو چکے ہیں جن سے پورے ملک میں ایک ہیجان برپا ہے۔ سانحۂ ماڈل ٹاؤن میں بارہ چودہ شہری موت کی آغوش میں چلے گئے اور خادمِ اعلیٰ کے علاوہ انتظامیہ اور پولیس کا نہایت لرزہ خیز کردار سامنے آیا۔ اِس ہولناک سانحے نے حکومت کی اخلاقی بنیادیں بری طرح ہلا ڈالی تھیں اور اسلام آباد کا محاصرہ ہو چکا تھا۔ مرکزی حکومت کی اعلیٰ حکمتِ عملی نے اِس یلغار کو کئی ماہ روکے رکھا اور کوئی لاش نہیں گرنے دی جبکہ حکمران جماعت کی بے تدبیری اور خودنمائی سے فیصل آباد میں چوبیس سالہ نوجوان حق نواز پستول کی براہِ راست گولی سے جاں بحق ہو گیا اور پورے ملک میں ٹی وی چینلز نے ایک جاں لیوا کہرام مچا دیا۔ ابھی احتجاج کی لہریں شہر در شہر سفر کر رہی تھیں کہ سیالکوٹ میں ایم کیو ایم کے نائب صدر باؤ انور گولی کا نشانہ بنے جس پر الطاف حسین نے کہا ہے کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہا ، تو وزیراعلیٰ پنجاب اور وزیراعظم پاکستان سندھ نہیں آ سکیں گے۔ جناب رانا ثناء اﷲ اور جناب خادمِ اعلیٰ کو اپنی آنکھیں اور اپنے ذہن کھول دینے کے ساتھ ساتھ نوشتۂ دیوار پڑھ لینا چاہئے۔
اﷲ کا شکر ہے کہ عمران خاں اور اربابِ حکومت مذاکرات پر آمادہ ہو گئے ہیں ، مگر اُنہوں نے گزشتہ چار پانچ مہینوں میں جس کوتاہ نظری اور ہٹ دھرمی کا مظاہر کیا ہے ، ملکی مفادات کو نقصان پہنچایا اور ایک نازیبا کلچر کو فروغ دیا ، اِس کا اُنہیں جواب دینا ہو گا۔ تحریکِ انصاف کے پلیٹ فارم سے رشید شیخ جلاؤ گھیراؤ کے لئے اشتعال دلانے اور عمران خاں خود جا کر شہروں اور پورے پاکستان کو بند کرنے کے ’’مژدے‘‘ سناتے رہے اور اہلِ وطن کو خوف کے اندر مبتلا رکھتے رہے۔
اُن کا حالات کی خرابی میں حصہ بہت نمایاں ہے۔ اِس روش کو خیرباد کہے بغیر ایک ایسی فضا پیدا ہو سکے گی جو مذاکرات کی کامیابی کے لئے ضروری سمجھی جاتی ہے۔ ہمارے خیال میں طرفین کو قانونی اور سیاسی موشگافیوں میں پڑنے کے بجائے عدالتِ عظمیٰ پر مشتمل جج صاحبان کا ایک عدالتی کمیشن کی تشکیل میں جو رکاوٹیں موجود ہیں ، اُنہیں دور کرنے کے لئے غیر معمولی تدبر سے کام لینا ہو گا۔ کچھ معاملات بہتر انداز میں طے ہو گئے ہیں۔ چیف الیکشن کمشنر کا تقرر عمل میں آ چکا ہے اور الیکشن ٹریبونل کے ایسے فیصلے بھی آ گئے ہیں جن میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا عمل شروع ہو سکتا ہے۔
ہماری مسلح افواج آپریشن ضربِ عضب کے ذریعے دہشت گردوں کا قلع قمع کر رہی ہیں اور ناقابلِ فراموش قربانیاں دے رہی ہیں۔ اگر ہمارے سیاست دانوں نے مزید وقت ضائع کر دیا ، تو دباؤ کی سیاست میں ہر شے بہہ جائے گی اور کوئی بھی ادارہ آزادی اور فرض شناسی سے کام نہیں کر سکے گا۔ اِس وقت سیاسی بائولوں پر سخت کنٹرول اور خوش آئند لمحات کو تابندہ تر بنانے کی اشد ضرورت ہے۔
تازہ ترین