وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف نے پاکستان میڈ اسلحہ کی نمائش منعقدہ کراچی آئیڈیاز 2014 کا افتتاح کیا ، غیرملکی مندوبین سے ملاقاتیں کیں اور واہ آرڈیننس فیکٹری کی اسلحہ سازی پر خوشگوار تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا محدود وسائل کے باوجود پاکستان کی دفاعی صنعت نے حیرت انگیز ترقی کی ہے پاکستانی اسلحہ کا معیار ترقی یافتہ ممالک کے برابرمگر قیمت میں کم ہے بوجوہ بر آمدگی کے امکانات روشن ہیں ۔بھارت نے 1974میں ایٹمی دھماکے کا نام ’’مسکراتا ہوا بدھ‘‘ رکھا ۔پاکستان نے کراچی میںمنعقدہ پاکستان ساختہ اسلحہ کی نمائش کا نام اسلحہ برائے امن رکھا جس میں0 4 ممالک کے 80کے قریب مندوبین شریک ہیں ۔پاکستانی عسکری نمائش کاروں اور واہ آرڈیننس فیکٹری کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل احسن محمود کو یقین ہے پاکستان ساختہ بندوق (پوف آئی) جو دشمن کو گھوم کر نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے متذکرہ مندوبین اور 200 کے قریب اسلحہ تاجروں کی خصوصی توجہ کا مرکز ِنگاہ بنے گی ۔ اسرائیل کے بعد پاکستان دوسرا ملک ہے جسے ایسی بندوق بنانے کی صلاحیت حاصل ہے ۔بندوق کی نالی90کے زاوئیے تک گھوم سکتی ہے ،اس پرنْصب کیمرے کی مدد سے بندوق بردارکسی خطرے میں گھرے بغیر کسی بھی جگہ چھپے دشمن کو نہ صرف دیکھ سکتا ہے اسے نشانہ بھی بنا سکتا ہے ۔یہ close compact weapon systemکا حصہ اور عمار توں کے اندر چھپے دشمن کے خلاف کار آمد ہتھیار ہے ،گھومنے والی نالی کی وجہ سے دو بدو جنگ کیلئے کار آمد ترین ہے ۔جنرل احسن کا کہنا ہے پاکستانی فوج جنوبی وزیرستان میںانسداد دہشت گردی کے خلاف جاری آپریشن ضربِ عضب میں پوف آئی کامیابی سے استعمال کر رہی ہے ۔پوف آئی کوغیر تربیت یافتہ افراد نہیں چلا سکتے پاکستانی فوج کے انتہائی تربیت یافتہ کمانڈو ہی ضربِ عضب میں اسے استعمال کر رہے ہیں ۔پاکستان میڈ اسلحہ کی نمائش 4روز تک جاری رہی جس میں حفاظتی جیکٹیں،پستول بندوق سے لیکر ٹینک ہوائی جہازتک موجود تھے مگر پوف آئی بندوق سے نمائش کاروں کی بہت سی امیدیں وابستہ ر ہیں۔
ایسا کیوں ہے،ایسا اس لئے ہے یہ بندوق جیسا میں اوپر لکھ چکا ہوں دہشت گردی کے خلاف ایک کامیاب اور کار آمد ہتھیار ہے ۔دہشت گردی چھاپہ مار جنگ ہے جو روایتی جنگ کے بر عکس دشمن پر حملہ کرو نقصان پہنچائو ،اور چھپ جائو کے گوریلا اصول کے مطابق لڑی جاتی ہے ۔پاکستان افغانستان ایران مشرق وسطیٰ ،افریقی ممالک بھارت خصوصی اور پوری دنیا عمومی طور پراس وقت چھاپہ مار جنگ کے نشانہ پرہے ۔کوئی بھی خود کو اس جنگ سے محفوظ تصور نہیں کرتا ۔دنیا اب ایک گلوبل ویلج بن چکی ہے ،کسی ایک کا زخم کسی نہ کسی انداز میں دوسرے کے درد کا باعث بنتا ہے یہی وجہ ہے پوری دنیا میں محفوظ ہتھیار وں کی طلب بڑھ رہی ہے ۔ عراق شام اور مصر عسکریت پسندوں کی آماجگاہیں بن چکے ہیں ۔29نومبر کو مصر کے دو بریگیڈئر جنرل آرمی موبائل کے دوران عسکریت پسندوں کی فائرنگ کا نشانہ بن گئے ۔فاٹا کی طرح صحرائے سینا بھی عسکریت پسندوں کیلئے محفوظ خطہ بن چکاہے۔جنہوںنے وہاں اسرائیل کیخلاف ٹھکانے بنارکھے ہیں اور اب وہ مصرکی فوجی حکومت کیخلاف بھی کارروائیاں کررہے ہیں ۔شام اور عراق میں روزانہ درجنوں افرادعسکریت پسندوں کا نشانہ بنتے ہیں ۔داعش کے نام پر 35ہزار عسکریت پسند شام اور عراق کے بہت بڑے علاقے پر قابض ہو چکے ہیں ہے ۔بھارت کی ریاست چھتیس گڑھ میں مائو نواز باغیوں نے چھپ کر 13پولیس اہلکاروں کو ہلاک کر دیا ۔نائیجیریا میں ابوبکرشیخو کا گروہ آئے روز قتل اور اغوا کی کارروائیاں کررہا ہے ۔متذکرہ پس منظر کے مطابق پوف آئی کے بڑے آرڈر مل سکتے ہیں مگریہ یاد رکھنا چاہئے یہ بندوق عسکریت پسندوںکے ہاتھ بھی لگ سکتی ہے ایسی صورت میں کیا یہ بندوق اسلحہ برائے امن کے آئیڈیا کیلئے تقویت بخش ہو گی ۔سوال جیسا کہ میں اوپر لکھ چکا ہوں بندوق (پوف آئی) جن خصوصیات کی حامل ہے اس طرح کی بندوق پاکستان اور اسرائیل ہی د نیا میں بنا رہے ہیںلہٰذا اسرائیل کے متعلق خبر کوہی کالم کا حصہ بنا رہا ہوں ۔تازہ خبر تو ہے ایک فلسطینی وزیر کو اسرائیلی فوجیوں نے قتل کر دیا ہے مگرحقیقی خبر ہے24نومبرکو اسرائیلی کابینہ نے اسرائیل کو یہودی ریاست قرار دینے کا بل اکثریت رائے سے پاس کر دیا ہے ۔بل کو پارلیمنٹ میں پیش کرنے کی بجائے پارلیمنٹ توڑ دی گئی اور جنوری میں نئے الیکشن کے انعقاد کا اعلان کر دیا ا ور ساتھ وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے کہا بل نئی پارلیمنٹ میں پیش کیا جائیگا اگرپارلیمنٹ نے اسےپاس کر دیا تو یہ قانون بن جائیگا اور دنیا بھر کے یہودی کہیںبھی رہائش پذیر ہوں اسرائیل کے شہری بن جائیںگے ۔اس بل کی اسرائیل کے اندر سے بھی مخالفت ہو رہی ہے اور باہر سے بھی ۔عربی جسے عبرانی کے ساتھ سرکاری زبان کا درجہ حاصل تھا اس بل کے قانون بننے سے اس کی یہ حیثیت ختم ہو جائےگی ۔فلسطینی صدر محمودعباس نے کہا ہے وہ کسی صورت اسرائیل کو یہودی ریاست تسلیم نہیں کرینگے ۔ اس طرح وہ فلسطینی جنھیں 1948سے اسرائیل نے مقبوضہ علاقوں سے بے دخل کر دیا تھا اور وہ کیمپوں میں رہنے پرمجبور ہیں ان کی واپسی کی راہ اب ہمیشہ کیلئے ختم ہو جائے گی۔ ۔ عرب اسرائیلی شہری اپنے جمہوری حقوق سے محروم ہو جائیں گے ۔عربوں کے علاوہ دروسی بھی جنھیں عربوں سے زیادہ مراعات حاصل ہیں وہ بھی احتجاج کرر ہے ہیں کہ اس طرح ہم دوسرے درجے کے شہری بن جائینگے ، اسرائیل ایک جمہوری ریاست ہے اور اسے جمہوری ہی رہنا چاہئے مگر نیتن یاہو نے اپنے وڈیو خطاب میں کہا ہے امن مذاکرات کی کامیابی کیلئے یہ ضروری ہے ۔ ہم فلسطین کو فلسطینی ریاست تسلیم کرنے کو تیار ہیں تو پھر اسرائیل کو یہودی ریاست تسلیم کرنے میں انہیں اعتراض کیوں۔ اقوام متحدہ کے منشور میں 30جگہ لفظ یہودی ریاست لکھا گیا ہے ،یہ اپنی آفرینش سے ہی یہودی ریاست تھی ۔مہاجرین کی واپسی اور عرب شہریوں کے معاملات حل کئے جا سکتے ہیں ۔اسرائیلی ڈیموکریٹک انسٹیٹیوٹ کے صدر کی رائے ہے ہم آئینی اصول تو رکھتے ہیں مگر تحریری آئین نہ ہونے کی وجہ سے ریاست کا بنیادی ڈھانچہ محفوظ نہیں جس کیلئے ضروری ہے اسے یہودی ریاست قرار دیا جائے۔ صدراوباما سمیت امریکہ کے تمام صدور اسے یہودی ریاست تسلیم کرتے ہیں ۔ خبر ہے جان کیری جلد اقوام متحدہ میں ایک بل پیش کرنیوالے ہیں جس کے بعد بہت سے ممالک اسے یہودی ریاست کے طور پرتسلیم کرلیں گے ،فلسطینیوں کو اگر اپنی ریاست کو تسلیم کرانا ہے تو انہیں یہودی ریاست کو بھی تسلیم کرنا ہو گا ۔فلسطینیوں کا کہنا ہے معاملہ اتنا سادہ نہیں جتنا نظر آتا ہے پس پردہ بہت سی گرہیں ہیں جنھیں بعد میں دانتوں سے کھولنا ہوگا۔اس اعتراض پر یہودیت ایک مذہب ہے نیتن یا ہو نے کہا یہ ابھی طے کرنا باقی ہے یہودیت ایک نسل ہے یا مذہب ،چلو مانا جناب مگر اسرائیل کادرجہ ایک جمہوری ریاست کا تو نہیں ہو گا جو مرتبہ اور مراعات یہودیوں کوحاصل ہونگی غیر یہودیوں کو تو نہیںہوں گی ،ممکن ہے کل کلاںیہ بل پاس کر لیں ووٹ کا حق صرف یہودیوں کو ہے،ممکن ہے کہ وہ اسرائیلی بھی اس حق سے محروم کر دیئے جائیں جو پہلے ہی دوسرے درجے کے شہریوں جیسی زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ اسرائیلیت اور یہودیت میں کیا فرق ہے قارئین اس موضوع پر جلد تاریخی حوالوں سے کالم آپکی نذر کروں گا ۔