دسمبر شروع ہوتے ہی 16 دسمبر 1971ءآنکھوں کے سامنے گھوم جاتا ہے۔ پاکستان کے دولخت ہونے کا سانحہ بہت ہی دل خراش یاد ہے۔ اس قسم کے قومی حادثات سے دلبرداشتہ ہوجانے والی قومیں نابود ہوجایا کرتی ہیں لیکن جو لوگ اپنی ناکامیوں سے کامیابیوں کی کرنیں کشید کرلیتے ہیں وہ زندہ رہ جاتے ہیں۔ ہر چند کہ سانحہ مشرقی پاکستان فوجی نہیں سیاسی شکست تھی باوجود اس کے ہماری سیاسی قیادت نے 28مئی 1998ءکو ایٹمی دھماکے کرنے کا فیصلہ کرکے قوموں کی برادری میں خود کو معتبر کرلیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان کا دفاع مضبوط ہاتھوں میں ہے۔ اگر ہمارا دفاعی حصار مضبوط نہ ہوتا تو یہودوہنود پاکستان کو تورا بورا بناچکے ہوتے۔ اگر ہماری فوج مضبوط نہ ہوتی ہم عراق، شام اور مصر جیسے انجام سے دوچار ہوچکے ہوتے۔
1971ء کی جنگ بھی ہمارے جذبوں کی شکست نہیں تھی بلکہ ہماری عددی ہارتھی۔ اکثر کہا جاتا ہے کہ 90ہزار فوجیوں نے ہتھیار ڈالے تھے ایسا بالکل بھی نہیں تھا، 93 ہزار قیدیوں میں پچاس ہزار کے قریب بچے بوڑھے اور خواتین تھیں باقی 43یا 44ہزار فوجیوں میں ڈاکٹرز، بیٹمین، میس اور لنگروں کا عملہ نکال کے قریب قریب 34ہزار لڑاکا فوجی تھے ان 34ہزار پاکستانی فوجیوں کو جنہیں فضائی امداد بھی حاصل نہ تھی کیونکہ ہوائی راستوں پر روس کے پہرے تھے۔ مقابلے میں پانچ لاکھ بھارتی فوج تھی، ایک لاکھ مکتی باہنی تھے تین بریگیڈ مکتی باہنی گوریلا تھے۔ خواتین کا مکتی باہنی دستہ تھا جو غیرملکی میڈیا کو قابو کئے ہوئے تھا۔ دانشور، اساتذہ اسکولوں، کالجوں میں نفرتوں کو ہوا دیکر بنگالی نوجوانوں کو مکتی باہنی ٹریننگ کیلئے اکساتے رہے۔ بہت سے مشرقی پاکستانی جو بظاہر شرفا اور پرامن زندگی گزار رہے تھے وہ خفیہ طور سے مکتی باہنی فورس سے جڑے ہوئے تھے اور پھر جب پاکستانی فوج بھارتی فوجیوں کا تعاقب کرتی تو مکتی باہنی ہمارے فوجیوں کے گھروں پر حملے کرکے ان کے بیوی بچوں کو اذیتیں دیتے، بے حرمتیاں کرتے اور جب فوجیوں کو اپنے گھروں کی پامالی کی اطلاعات ملتیں وہ پلٹ کے دیکھتے تو بھارتی فوج سر چڑھ دوڑتی ۔ مشرقی پاکستان میں لڑی جانے والی جنگ بہت سے محاذوں پر لڑی گئی تھی کہاں تک لڑی جاتی کس کس سے لڑی جاتی۔ مرتے کیا نہ کرتے 34ہزار لوگ کہاں تک چھ سات لاکھ فوج کا مقابلہ کرتے۔ دھیرے دھیرے جوں جوں گرد بیٹھتی گئی کئی چہرے اپنے اصلی روپ میں دکھائی دیتے گئے۔گزشتہ 44برسوں میں بے تحاشہ کتابیں چھپیں۔ بنگلہ دیش میں بھی چھپیں، بھارت اور پاکستان میں ہر کسی نے پاکستانی فوج کے جذبے کی تعریف کی مگر عددی اعتبارسے بھارت اور مکتی باہنی کے مقابلے میں بہت ہی کم فوج تھی۔ بہرحال تاریخ کسی کا لحاظ نہیں کرتی نہ ہی اسے جھٹلایا جاسکتا ہے۔ 1971ءکی جنگ کا ایک چشم دید شخص اس وقت راولپنڈی کی اسکیم تھری میں زندہ سلامت ہیں وہ اگر قوم کا قرض سمجھ کر اپنی یادداشتیں مرتب کریں جو جی ایچ کیو میں ان دنوں جنرل یحییٰ خان کے پرائیویٹ سیکریٹری تھے اور 13اور 14دسمبر 1971ءکی رات مشرقی پاکستان میں جنگ بندی کا سگنل بھیجنے کی اطلاع جس نے ایسٹرن کمان کے کمانڈر جنرل عبداللہ خان نیازی کے اسٹاف افسر بریگیڈئیر باقر صدیقی کو ٹیلیفون پر یہ کہہ کردی تھی کہ انتہائی اہم سگنل آرہا ہے اس پر فوری عملدرآمد کیا جائے اور پھر جنگ بند ہوگئی۔ وہ شخص بریگیڈئیر گلستان جنجوعہ ہے جو ضیاء الحق کے دور حکومت میں پہلے سعودی عرب میں پاکستان کے سفیر اور بعد میں صوبہ سرحد میں گورنر رہے تھے۔ کوئی ان سے جاکر احمد فراز کی زبان میں کہے تو سہی کہ
ضبط لازم ہے مگر دکھ ہے قیامت کا فراز
ظالم اب کہ بھی نہ روئے گا تو مرجائے گا
جنجوعہ صاحب سے یاد آیا کہ ان کے ایک قریبی عزیز جی ایچ راجہ )غلام حسین راجہ ( وہ بلا کے دست شناس تھے۔ آل پاکستان پامسٹ ایسوسی ایشن کے تاحیات صدر رہے۔ کراچی گلشن اقبال میں قیام پذیر تھے مگر انہیں ہاتھ دکھانے والے کلائنٹ راولپنڈی، اسلام آباد میں زیادہ تھے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ 1995ءمیں اسلام آباد شفٹ ہوگئے تھے پھر راولپنڈی کے قریب ایک حادثہ میں جاں بحق ہوئے۔ میرے ان سے بہت سے دوستانہ مراسم تھے ان کی پیشین گوئیاں تو ویسے ہی ہوتی تھیں مگر وہ انسان دوست تھے۔ انہوں نے میرے بارے میں پیش گوئی کی تھی کہ میں گورنر بنوں گا ابھی تک تو نہیں بنا اور اب کیا بنوں گا وقت ہی کتنا بچا ہے۔ بہرطور جی ایچ راجہ کا مجھ پر احسان ہے جسے میں یاد رکھے ہوئے ہوں وہ یہ کہ نادرا سے پہلے کی بات ہے راولپنڈی میں شناختی کارڈ کے ایک ضلعی آفیسر کو شادیاں کرنے اور طلاق دینے کی عادت تھی ۔ تیسری شادی اس نے میرے محلے سے کی تھی اسے جب طلاق دینے لگا تو وہ ڈسٹرکٹ آفیسر میرے پاس مشورہ کرنے آیا۔ میں ان دنوں اسلام آباد کے روزنامہ مرکز کا ایڈیٹر ہوا کرتا تھا۔ محلے کی بہو بیٹیاں چونکہ سانجھی ہوتی ہیں میں کیسے اسے طلاق کا مشورہ دیتا۔ لہٰذا میں نے اسے کہا کہ کسی طریقے سے پاکستان کے معروف پامسٹ جی ایچ راجہ سے ملاقات کا وقت لیکر ان سے مشورہ کرو۔ راجہ صاحب اکثر ہفتہ دس دن بعد کا وقت دیا کرتے تھے۔ وہ راجہ صاحب کے پاس گیا تو اسی دوران میں نے راجہ صاحب کو فون کرکے صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ راجہ صاحب اس شخص کو اتنا ڈرائو کہ یہ بیوی کو طلاق نہ دے۔ راجہ صاحب نے وعدہ کرلیا، وہاں پہنچ کر اس شخص نے راجہ صاحب کے سیکریٹری سے ملاقات کا وقت مانگا تو راجہ صاحب خود ملاقاتیوں والے کمرے میں آگئے اور اسے دیکھتے ہی کہا میں بیرون ملک جارہا ہوں ایک مہینے بعد آنا وہ پریشان ہوا تو راجہ صاحب اسے اندر لے گئے۔ نام، ماں کا نام اور تاریخ ولادت پوچھنے کے بعد اسے کہا کہ تم آج کل ایک فیصلہ کرنے جارہے ہو۔ ایسا کبھی نہ کرنا اس شخص نے سارا راز اور قصہ کوتا بیان کردیا جس پر راجہ صاحب نے اس کی بیگم کا زائچہ بنایا اور کہا کہ اس عورت کو کبھی نہ چھوڑنا یہ تمہارے لئے سعد ہے اس کی اولاد میں سے ایک بڑا آدمی بنے گا اور پھر اسی شام وہ ڈسٹرکٹ آفیسر میرے پاس آیا بہت خوش تھا۔ وجہ پوچھی تو اس نے صرف اتنا بتایا کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق نہیں دے رہا مزید کریدا تو اس نے کہا کہ کسی روحانی شخصیت نے وجہ بتانے سے منع کردیا ہے۔ خیر وقت گزرتا رہا کچھ عرصے پہلے اسلام آباد کچہری میں ملا تو اس نے مجھ سے ایک نوجوان ملاتے ہوئے کہا کہ یہ تمہاری محلے دار کا بیٹا ہے فوج میں لیفٹننٹ ہے، میں نے کہا میری محلے دار یعنی تمہاری بیگم کیسی ہے؟ اس نے کہا وہ چھ ماہ پہلے فوت ہوگئی تھی چونکہ اسکول ٹیچر تھی اس لئے ہم دونوں باپ بیٹا اس کے بقایا جات لینے آئے ہیں۔ میں نے اسے غور سے دیکھتے ہوئے کہا کہ جی ایچ راجہ کے لئے دعا کرنا انہیں میں نے ہی کہا تھا کہ اس خبیث کو طلاق دینے سے روکو اس پر وہ بولا یار راجہ جھوٹ بھی بولتا تھا… میں نے کہا ایسے جھوٹ بولا کرو۔