• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’مدارس کی رجسٹریشن اور اصلاحات کو یقینی بنایا جائے گا۔‘‘ یہ الفاظ وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کے ہیں جو انہوں نے قوم سے خطاب میں کہے۔ قارئین! جب بھی ’’مدرسہ ریفارم‘‘ کی بات ہوتی ہے تو سب سے زیادہ زور دینی مدارس کے نصاب پر دیا جاتا ہے۔ آج کی تحریر میں مدارس کے نصاب کا ایک سرسری جائزہ پیش کیا جارہا ہے، جس سے مدارس پر انتہا پسندی اور تعصب کا درس دینے کے الزام کی حقیقت سامنے آجاتی ہے۔ مدارس میں پڑھائے جانے والے مختلف علوم و فنون پر ایک نظر ڈالنا مناسب معلوم ہوتاہے۔ قرآن مجید تمام اسلامی علوم کے لیے اصل الاصول کی حیثیت رکھتا ہے، اس لیے قرآن کی تفسیرلکھنے اور بیان کرنے کا کام نہایت ہی حساس اور نازک سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے علماء نے عجمی لوگوں کے لیے قرآن کی تفسیر بیان کرنے اور لکھنے کے لئے 15 ایسے علوم وفنون کی تعلیم لازمی قرار دی ہے جن کے بغیر کوئی عجمی شخص قرآن کی صحیح تفسیر بیان نہیں کرسکتا۔ مدارس میں قرآن کی تفسیر کیلئے سلف صالحین کی تفسیروں کے اتباع کو ضروری سمجھا جاتا ہے، اسکے باوجود دوسرے مکاتب فکر کے اکابر کی تفسیروں کو بھی قطعی نظر انداز نہیں کیا جاتا۔ اس کی واضح مثال یہ ہے تفسیر ’’کشاف‘‘ جو کہ مشہور معتزلی مفسر علامہ زمخشری کی تفسیر ہے، اس سے نہ صرف تفسیر کے درس میں استفادہ کیاجاتا ہے بلکہ قرآن کے اعجاز اور فصاحت وبلاغت کے بیان میں اس کی رائے کو بطور سند پیش کیاجاتا ہے۔ مزیدبرآں حنفی مسلک سے وابستہ مدارس کے نصاب میں شامل تفسیر کی سب سے اونچی کتاب جلالین کے دونوں مؤلفین شافعی مسلک سے تعلق رکھتے تھے، لیکن ارباب مدارس نے محض اس اختلاف نظرکی بنیاد پر اس عظیم تفسیر کو اس کے جائز مقام سے محروم نہیں کیا۔ علم حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک اقوال، اعمال اور تقریرات کے تذکروں پر مشتمل وسیع علم علمِ حدیث قیامت تک آنے والی امت کا مشترکہ سرمایہ ہے۔ اس علم پر تمام اسلامی طبقات کے اکابر نے کام کیا ہے۔ اہلِ سنت کے چاروں فقہی مسالک کے ائمہ نے اس موضوع پر گرانقدر خدمات سرانجام دی ہیں۔ مدارس میں جو کہ اکثر حنفی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں بلاتفریق مسلک، احادیث کی تمام مشہور کتابیں پڑھائی جاتی ہیں جن میں سر فہرست بخاری شریف ہے۔ امام بخاری ؒسے بعض مسائل میں اختلاف کے باوجود انہیں امیر المؤمنین فی الحدیث کہاجاتا ہے، ان کی کتاب کو قرآن کے بعد سب سے عظیم اور مستند کتاب سمجھاجاتا ہے۔ طحاوی شریف کے علاوہ نصاب میں شامل احادیث کی تمام کتابیں غیر حنفی ائمہ کی ہیں۔ ان کتابوں کو حنفی درس نظامی میں اتنی اہمیت حاصل ہے کہ ان کو پڑھے بغیر کسی طالب علم کو فراغت کی سند نہیں مل سکتی۔ اس سے بھی آگے بڑھ کر یہ کہ احادیث پڑھانے والے کئی اساتذہ اور طلبہ احادیث تلاش کرنے کے لئے عیسائی مستشرق ’’بروکلین‘‘ کی کتاب ’’المعجم المفہرس لالفاظ الحدیث‘‘ سے استفادہ کرتے ہوئے کوئی جھجک محسوس نہیں کرتے۔ علاوہ ازیں اس زمانے میں بیروت سے شائع ہونے والی یہودی مستشرقین کی کئی کتابیں مدارس کی لائبریریوں میںتحقیق و استفادے کے لئے رکھی جاتی ہیں۔ علم فقہ میںہرمسلک ومکتب فکر سے وابستہ ادارے میں وہی فقہی کتابیں پڑھائی جاتی ہیں جو اسی مسلک کے علماء نے لکھی ہوں۔ مدارس میں علم فقہ کی سب سے اونچی کتاب ’’ہدایہ‘‘ ہے جس میں اختلافی مسائل میں ائمہ احناف کے نقطہ نظر کی ترجمانی کی گئی ہے، لیکن اسی ہدایہ کے حاشیہ پر مشہور شافعی محدث اور فقیہ علامہ ابن حجر عسقلانی ؒکی کتاب ’’الدرایۃ‘‘ بھی لگائی گئی ہے۔ اس کے علاوہ اصول فقہ میں علامہ تفتازانی کی ’’التوضیح والتلویح‘‘ بھی شامل نصاب ہے۔ اسلامی عقائد کی تعلیم اور عقائد میں اختلافی مسائل پر بحث و مباحثہ کے علم کو ’’علم کلام‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ علم درس نظامی کے مشکل ترین علوم میں سے ہے اور وفاق المدارس کے نصاب میں درجہ عالیہ، جو مساوی بی اے ہے، میں پڑھایا جاتا ہے۔ کلامی ابحاث کے حوالے سے علمائے اہل سنت کے دو مشہور مکاتب فکر ’’ماتریدی‘‘ اور ’’اشعری‘‘ ہیں۔ اکثر ائمہ احناف ماتریدی مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں، لیکن یہ جان کر آپ کو تعجب ہوگا اس اہم اورحساس فن میں پڑھائی جانے والی واحد کتاب ’’شرح عقائد‘‘ اشعری مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے محقق علّامہ سعد الدین تفتازانی کی ہے۔ عقائد کے معاملے میں خصوصیت کے ساتھ اس قدر وسعت ظرفی کا مظاہرہ شاید ہی کسی مکتب فکر نے کیا ہو۔ علمِ لغت میں مدارس میں تاج العروس، مصباح اللغات اور دیگر شاہکار کتابوں کے ہوتے ہوئے عیسائی مرتب لوئس معلوف کی شہرہ آفاق کتاب ’’المنجد‘‘ سے بھی استفادہ کیا جاتا ہے۔ علم ادب میں اپنے زمانے میں نبوت کا دعوی کرنے والے ادیب و شاعر متنبی کی کتاب پڑھائی جاتی ہے جس کی دینی اور اخلاقی حالت تذکرہ نویسوں کے بقول نہایت ہی قابل رحم تھی، مگرچونکہ ان کی کتاب فن ادب کا شاہکار ہے، اس لئے علماء نے اس کے عقائد اور خیالات سے قطع نظر کرکے طلبہ کوان کے ادب سے مستفید ہونے کا موقع دیا ہے۔ جاہلیت کے زمانے کی شاہکار عربی نظموں کا مجموعہ ’’السبع المعلقات‘‘ بھی بہت سے مدارس میں داخل نصاب ہے جس کے مندرجات میں جاہلیت کے عقائد اور نظریات بھی شامل ہیں۔
علم عروض و قوافی وہ علم ہے جس کے ذریعے ہر زبان میں شعر و شاعری کے قواعد اور قوانین بیان کیے جاتے ہیں۔ اس فن میں عالم اسلام کے کئی ائمہ فن نے کئی چھوٹی بڑی کتابیں تصنیف کی ہیں مگر مدارس کی وسعت ظرفی کا اندازہ لگالیجیے اس فن سے متعلق نصاب میں شامل واحد کتاب کسی عربی عالم یا اسلامی ادیب کی نہیں بلکہ امریکا کے شہر نیویارک سے تعلق رکھنے والے برطانوی نژاد عیسائی مصنف ’’ڈاکٹر نیلسس فنڈیک‘‘ کی ہے جو ’’محیط الدائرہ‘‘ کے نام سے وفاق المدارس کے نصابی نقشے میں موجود ہے اور اہتمام کے ساتھ پڑھائی جاتی ہے۔ کیا اس کے بعد بھی یہ کہنے کی گنجائش موجود ہے مدارس میں انتہا پسندانہ رجحانات کا درس دیا جاتا ہے؟ مدارس پر انتہا پسندی کے حوالے سے سب سے زیادہ الزامات فرقہ وارانہ اختلافات کے حوالے سے لگائے جاتے ہیں۔ یہ پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ مدارس میں مخالف فرقے سے نفرت کرنے کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اس پروپیگنڈے کی حقیقت کا اندازہ اس بات سے لگالیجیے مدارس کے نصاب میں ابتدائی درجات کے طلبہ کے لئے علم منطق کی اہم ترین کتابوں میں سے ایک ’’شرح تہذیب‘‘ بھی ہے جو کسی سنی عالم کی نہیں بلکہ ایران سے تعلق رکھنے والے شیعہ مصنف علامہ عبداللہ بن الحسین اصفہانی کی ہے۔ آج تک اس کتاب کے شامل نصاب ہونے پر کسی مدرسے یا کسی عالم نے کوئی احتجاج نہیں کیا ہے بلکہ اس سے خوشدلی کے ساتھ استفادہ کیا جاتا ہے۔ یہ چند مثالیں پیش کی گئیں ہیں، ورنہ نصاب میں شامل تمام کتابوں اور ان کی شروحات و تعلیقات کو سامنے رکھ کر مدارس کے نصاب کا تفصیلی جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت روزروشن کی طرح واضح ہوتی ہے مدارس نے اپنے طرز تعلیم میں کبھی فرقہ وارانہ سوچ نہیں اپنائی اور ان کا دامن ان تمام الزامات سے پاک ہے جو ان پر لگائے جاتے ہیں۔ بڑے ہی افسوس کی بات ہے کہ آج کل اکثر حضرات کا دینی مدارس کے بارے میں وہی تصور ہے جو سالوں پرانا بلکہ سالوں پرانے حقائق کے بھی خلاف ہے اور موجودہ زمینی حقائق تو اس کی نفی کرتے نظر آتے ہیں۔ آج مدارس میں جدید ترین سہولتوں سے لیکر اعلیٰ ترین تعلیم کے ڈپارٹمنٹ موجود ہیں۔ آٹھ سالہ نصاب جو کہ عالم بنانے کیلئے ہے۔
اس میں میٹرک کے بعد تفسیر، اُصول تفسیر، اُصول حدیث، فقہ، اُصول فقہ، علم کلام، منطق، فلسفہ، عربی ادب وانشا، لغت، صرف نحو، بلاغت وبیان، تاریخ سیرت اور فارسی زبان سمیت ایک درجن سے زائد علوم وفنون کی تقریباً پچاس قدیم وجدید کتابیں پڑھائی جاتی ہیں۔ مجموعی طورپر 16مختلف علوم و فنون پڑھائے جاتے ہیں۔ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ اس نصاب میں کہیں بھی ایسا مواد نہیں ہے جس سے فرقہ واریت، انتہا پسندی، مخالف فرقوں کو قتل کرنے کی ترغیب دی جاتی ہو بلکہ جوں جوں اس میں غوروفکر کے غوطے لگاتے جائینگے توں توں یہ بات مترشح ہوتی جائیگی کہ مدارس کے نصاب میں تو اپنائیت، خدمتِ انسانی، اعلیٰ اخلاقی اقدار، آپس میں رحم دلی کاسلوک بلکہ غیرمسلموں کے ساتھ بھی رواداری کا درس دیا جاتا ہے۔
تازہ ترین