• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستانی آئین اور پاکستانی ریاست کے اداروں اور اہلکاروں کا مکالمہ اور مقابلہ جاری ہے، ملک کی تاریخ کے گزرے سارے برس اس مکالمے اور مقابلے کے المناک واقعات ناقابل تلافی نتائج سے بھرے پڑے ہیں، تازہ ترین کردار رائو انوار کی شکل میں اُبھرا ہے، رائو کا تعلق سول ادارے سے ہے، عسکری سے نہیں، تازہ ترین سے مطلب خواجہ اظہار کے موجودہ وقوعہ سے ہے، جو سندھ صوبائی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف ہیں۔ بصورت دیگر رائو انوار اُن ریاستی اہلکاروں سے ہے جو برسوں سے ان قوتوں کا ایک ننھا سا جزو ہے جن کے ساتھ پاکستانی آئین کا مکالمہ اور مقابلہ جاری ہے! رائو انوار نے ان کے ہاتھ باندھ کر انہیں گھر سے گرفتار کیا، ٹی وی فوٹیج میں وہ مردانہ وار بے باکی کے ساتھ انہیں کھینچ کر پولیس وین کی طرف لے جا رہا ہے، قومی اسمبلی کے رکن فاروق ستار اپنی چوٹوں کیبینڈیج کے باوجود، لڑکھڑاہٹ میں مبتلا چال سے اظہار صاحب کا ساتھ دینے اور ایس ایس پی رائو انوار سے کچھ پوچھنے کی کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں، خواجہ اظہار کو بالآخر پولیس وین مقید کر کے لے جانے میں کامیابی ہو جاتی ہے!
دوسرا منظر!
سندھ کے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ بجلی کی سی سرعت کے ساتھ اپنا آئینی اختیار استعمال کرنے میں کسی لاشعوری تحفظ، ہچکچاہٹ یا خوف کا مظاہرہ نہیں کرتے، اخباری تجزیوں کے مطابق ’’چند گھنٹوں کے اندر ’’انہوں نے اپوزیشن لیڈر خواجہ اظہار الحسن کی گرفتاری کا مسئلہ حل کر دیا۔ مراد علی شاہ نے اس طرح ایک مضبوط پیغام دیا، یہ کہ آج 1994ء اور 1996ء نہیں بلکہ 2016ہے۔‘‘ پاکستان کے منتخب وزیراعظم نواز شریف معاملے کا علم ہوتے ہی اپنا بیزار کن ردعمل سامنے لائے، چند لمحوں میں وزیراعظم کا جملہ ٹی وی اسکرینوں کے ٹکر کی شکل میں عوام تک پہنچ رہا تھا، انہوں نے وزیر اعلیٰ سندھ سے کہا ’’جس شخص نے بھی قانون کی خلاف ورزی کی اسے سخت سزا دی جائے۔‘‘ ایس ایس پی رائو انوار نے اس قصے کے ابتدائی چند گھنٹوں کے مدو جزر میں میڈیا سے نڈر ہو کے خطاب کیا، برملا بولا ’’یہ پہلی عوامی حکومت ہے جو فرض شناس سرکاری افسروں کو معطل کر دیتی ہے‘‘، اس سوال کو ریکارڈ پر رکھا جائے جس کا تعلق رائو انوار کا خود کو از خود ’’فرض شناس‘‘ ڈکلیئر کر دینے سے ہے، گویا اس نے اپنے آپ ہی کو ’’عدالت‘‘ قرار دینے کی زحمت بھی دے ڈالی، میڈیا کے سامنے اس کا ایک جملہ پاکستانی آئین سے مکالمے اور تصادم کی قوتوں کے ایک ننھے سے جزو کے طور باٹم لائن کی حیثیت رکھتا ہے، انوار نے اعلان کیا ’’میں ان افسروں میں سے نہیں ہوں جو اپنے اعلیٰ حکام کے سامنے سر جھکاتے ہیں!‘‘
تیسرا منظر!
قومی پریس نے رائو انوار کی پاکستان کے آئین و قانون کے سامنے بے خوف تاریخ کو فی الفور موضوع بنایا، تفصیلات دیں، اپنی آرا کا منظر نامہ بلا کم و کاست پیش کر دیا، ان کے مطابق 1994-96کے پولیس آپریشن میں ماورائے عدالت مقابلوں کے حوالے سے رائو نے ’’انکائونٹر اسپیشلسٹ‘‘ کی شہرت حاصل کی، خواجہ اظہار کے سلسلے میں اس نے اپنے ایس ایس پیسینٹرل تک کو اعتماد میں لینا تو درکنار شاید مطلع تک کرنا ضروری نہیں سمجھا، رائو انوار ماضی کی درجنوں انکوائریوں سے بچ چکا ہے، متعدد معطلی کے احکامات کا بھی اس نے سامنا کیا، سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سے لے کر سابق چیف جسٹس ناصر اسلم زاہد تک کی عدالتی کارروائیوں سے بھی گزرا، ’’دی نیوز‘‘ کا کہنا ہے:’’سب سے پہلا سوال تو یہ ہے کیا رائو انوار کو اس عہدے پر ہونا چاہئے تھا۔ قانون کی عدالت میں اس کے لئے معطلیاں ہی تجویز ہوئیں مگر ایسے ہر موقع پر اس شخص کو بلا جواز اس کے عہدے پر بحال کیا جاتا رہا۔ گزشتہ اپریل میں ہی سندھ ہائیکورٹ نے اس کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا لیکن یہ شخص حسب معمول اس صورتحال کا مضحکہ اڑاتا رہا۔ ہم حیران ہیں، اس کے پاس خواجہ اظہار کے خلاف اپنے دعوئوں کے ثبوت میں کوئی مواد موجود نہیں۔ بعینہٖ ہم ایک بار پھر حیران ہیں، کیا پورے پاکستان میں اس کی طرح کا کوئی دوسرا ایس ایس پی ممکن ہے جو اپنی معطلی کے بعد بھی کسی بھی قسم کی سزا کے خوف کو بالائے طاق رکھتے ہوئے یوں اپنے بیانات جاری کرسکے؟ اب کی بار بھی حسب سابق اسے اگر تیزی اور خاموشی سے اپنے عہدے پر بحال کر دیا جاتا ہے، تو اس کا کیا جواز ہو گا پھر کیا وہ اعلیٰ حکام کی ہدایات کے تحت ایسے کام کر رہا ہے؟ اور پھر سوال یہ ہو گا، وہ کونسے حکام ہیں‘‘،
چوتھا منظر!
خواجہ اظہار کی گرفتاری کے اگلے روز ہی پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے پارٹی کی ہنگامی میٹنگ بلائی، شرکائے اجلاس میں وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ، سینئر وزیر نثار کھوڑو صوبائی مشیر اطلاعات مولا بخش چانڈیو، مرتضیٰ وہاب، سینیٹر تاج حیدر، سینیٹر سعید غنی، چیئرمین کے پولیٹیکل سیکرٹری جمیل سومرو بھی موجود تھے، اجلاس میں چیئرمین نے پولیس کے مسئلے پر پالیسی بیان دیا اور کہا ’’ہم قانون اور جمہوریت کی حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں، کسی شخص کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی پولیس کو بہر صورت غیر سیاسی بنایا جائے گا بصورت دیگر سیاسی آپریشن کے لئے ہماری تمام تر جدوجہد، بحالی امن کی کوششوں اور سماجی ہم آہنگی کو ضعف پہنچے گا۔
اختتامی منظر!
پاکستان کی سالمیت اور بقا کا فیصلہ پرنٹ میڈیا اور ایک دہائی سے زیادہ جاری مدت کے الیکٹرانک میڈیا کو نہیں کرنا، انہوں نے جو کیا وہ تاریخ کا حصہ ہے، جو کر رہے ہیں وہ تاریخ بھی بنتی جا رہی ہے، نہ ہی پاکستان کی سالمیت اور بقا کا فیصلہ غیر آئینی قوتوں اور نان اسٹیٹ ایکٹروں کے ہاتھ میں ہے، ان کے کردار کی تاریخ بھی ریکارڈ پر ہے، ان کے ہاتھوں جو مزید تاریخ رقم ہو رہی ہے، وہ بھی کہیں معدوم نہیں ہو جائے گی۔ وطن کے آئین و قانون سے مکالمہ اور مقابلے کی اس کہانی نے پاکستان میں ’’طاقت ہی آئین اور طاقت ہی قانون کے ’’یقین اور عمل‘‘ کو جنم دیا جس کا فیصلہ کن مظہر حال ہی میں موٹر وے کے اہلکاروں اور فوجی افسران کے مابین رونما شدہ تنازع ہے، یہی وہ بنیادی سوال اور بحران ہے جو ایوب خان کی آمد پر پیدا ہوا، جس کے تسلسل نے پاکستان کی سالمیت اور بقا کے لئے ملکی سماج کو آپریشنوں کا اسیر بنا دیا، ایس ایس پی رائو انوار یا ’’کوئی اور‘‘ 7اکتوبر 1958کو پیدا ہو گئے تھے، یہ اس وقت تک اپنی مرکبات سمیت توانا و بیدار رہیں گے جب تک کم از کم دو بار مزید جمہوری تسلسل سے منتخب اقتدار کا انتقال عمل میں نہیں آ جاتا، یہ وہ بابرکت لمحہ ہو گا جو ہر قسم کی غیر آئینی قوتوں کی ’’طاقت اور عمل پذیری‘‘ پر اپنے آئینی قبضے کی تکمیل کر چکا ہو گا۔

.
تازہ ترین