• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کئی دنوں سے برصغیر ہندو پاک میں دونوں ممالک کے عوام و خواص چاہے میڈیا میں جنگ کی باتیں ہور ہی ہیں۔ خدشات اور انومان کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ ہم دونوں جوکہ غریب ملک ہیں جہاں غربت مفلسی بیروزگاری اور بھوک و بیکاری کے سبب نہ فقط نجم حسین سید کے الفاظ میں دیگیں کھڑک رہی ہیں لیکن جنگی جنون کے دانت بھی کھڑک رہے ہیں- نیوکلیئر دانت۔ دونوں ممالک چار جنگيں لڑ چکے بے شمار لاشیں گریں کیسے کیسے نہ کڑیل لاشے، خون اور آگ کے دریا بہہ نکلے۔ لوگ دربدر ہوئے۔ بلکہ خطہ برصغیر تو اپنی تقسیم کے دنوں سے آجتک خود اپنے آپ سے حالت جنگ میں ہے۔
ہم اپنے ہاتھوں ہوئے تباہ ورنہ
دنیا کو ہماری کیا پڑی تھی
دونوں ملک اپنے ایٹمی اسلحہ جات پر نازاں۔ دنیا پریشاں کہ ہم ایسے فقیر جنکے ہاتھ میں پستول ہے۔
اگر جنگ ہوئی تو وہ دونوں دیسوں کی اجتماعی خودکشی ہوگی۔
ہتھیاروں کے انبار، لائو لشکر نے دونوں ممالک کے عوام کو ابتک کچھ بھی نہیں دیا سوائے مفلوک الحالی کے۔لیکن اب ایک بار پھر جنگ کے بادل برصغیر کے آسمان کےافق پر امڈ تے دکھائی دیتے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان مسائل کتنے بھی گمبھیر کیوں نہ ہوں لیکن جسے ساحر نے کہا تھا جنگ مسئلے کا حل نہیں جنگ تو خود ایک مسئلہ ہے۔
مانا کہ کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال انتہائی سنگین ہے۔کشمیر میں کشمیری بچوں، جوانوں ، بوڑھوں، عورتوں کے بندوق کے چھروں سے چھلنی چہرے اور نابین آنکھیں بھارت کا جو چہرہ پیش کرتی ہیں وہ چہرہ کسی بھی طرح ایک سیکولر اور دنیا کی بڑی جمہوریت والی قومی ریاست کا چہرہ نہیں، نہ ہی وہ چہرہ اس عظیم ہندوستان کا جسکا خواب مہاتما گاندھی نے دیکھا تھا۔ نہ ہی یہ جواہر لال نہرو کے سینچے ہوئے ہندوستان کی تعبیر ہے۔
کیا یہ بھی سیکولر ہندوستان ہے جس میں اقلیتی مسلمانوں کی بریانی چیک کی جاتی ہے۔ جس نے بھی کشمیر پر زبان کھولی اس پر بغاوت کے مقدمے تیار۔ پاکستان ہو کہ ہندوستان ستر برسوں میں آزادی ا ظہار رائے کا احترام نہیں سیکھ سکے ہیں۔
تو چلا ہے ا یسے میں نریندرمودی بلوچستان پر بیان دینے۔
مانا کہ بلوچستان میں حالات سازگار نہیں، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزام میں محض چند ماہ قبل دی نیوز میں شائع ہونیوالے سرکاری ذرائع کے حوالے سے خبر کہ گزشتہ چند برسوں میں بلوچستان سے مبینہ طور پر ایک ہزار سے زائد مسخ شدہ لاشیں ملی ہیں۔ اب اسکی تردید کسی بھی سطح پر حکومت پاکستان نے نہیں کی۔ ستم تو یہ ہے کہ ایک ہزار بلوچوں کی مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی پر میڈیا کے کسی بھی حصے نے کسی بھی اینکر نے دی نیوز کی اس خبر پر تشویش کا اظہار کیا اور نہ ہی سیاستدانوں و رہنمائوں نے اپنے ہی ہم وطن بھائیوں کے متعلق آواز بلند کی ہے۔ ایسے میں برہمداغ بگٹی کی بھارت میں سیاسی پناہ کسی کیلئے بھی اچھا شگون نہیں۔ برہمدا غ بگٹی ایک نوابزادہ ہے وہ کہیں بھی جلاوطن بادشاہوں کی طرح رہ سکتا ہے لیکن وہ سینکڑوں ہزاروں بگٹی و مری قبائل کے لوگ بچے عورتیں مرد جو سندھ پنجاب اور پنجاب بلوچستان سرحد پر برسوں سے کسمپرسی کی حالت گزار رہے ہیں وہ کدھر جائیں گے-جو اپنے ہی وطن میں جلاوطنوں کی طرح زندگیاں گزار رہے ہیں۔ جن کے پاس ایدھی سمیت غیر سرکاری امدادی تنظیموں کو بھی رسائی کی اجازت نہیں۔ یہ قبائل جو اس صف میں تھے نہ اس صف میں تھے۔ تو ایسی صورتحال کو کوئی بھی دشمن ایجنسی اور ملک استعمال تو کرسکتےہیں نا۔ اگر کل ہندوستان نے اپنی سرحد پر ان بلوچ غریب قبائل کے مہاجر کیمپ کھول لئے تو پھر، جیسا اندرا گاندھی کے وقت میں مشرقی مغربی بنگال کی سرحد پر انیس سو اکہتر میں ہوا تھا۔
بھارت بلوچوں کے زخموں پر کیا مرہم رکھے گا وہ تو کشمیریوں کو نئے اور گہرے زخم لگا رہا ہے۔ بلکہ بھارت خود بھارت کے سینے میں ہی ترشول اتار رہا ہے۔ سیکولر اور بڑی جمہوریت کا تصور تو عشرے بیتے ختم ہو چکا۔ لیکن لگتا ہے بلوچوں سے ہمدردی سے زیادہ مودی کو اپنی اور اپنی پارٹی کی عاقبت و عافیت کی پڑی ہوئی ہے کہ آئندہ انتخابات میں اسے اتر پردیش یا یو پی میں کھٹیا کھڑی ہونے کا شدید اور ناگزیر خطرہ لاحق ہے۔
حیرت ہے کہ بھارت میں مودی پاکستان سے لڑائی کے نعرے پر انتخابات جیت کر آتے ہیںاور نواز شریف نے گزشتہ انتخابات بھارت سے دوستی کے نعرے پر جیتے تھے۔ تجارت اور تعلقات بڑھانے پر۔ جو کہ تاریخ کے درست سمت پر کھڑے ہونا تھا۔ نواز شریف کی ایسے نعرے پر جو درگت بنی ہے یعنی جو قیمت انہوں نے ادا کی ہے یعنی کہ بقول شخصے وہ فیتے کاٹنے تک محدود کردئیے گئے ہیں۔ یہ شیر اور چیتوں کی لڑائی ہے۔
لیکن لگتا ہے کہ پاکستانی ووٹر عوام بالغ رائے دہی میں بالغ ہو چکے ہیں۔ اب وہ اپنے نانا کی طرح ہندوستان سے ہزار سالوں تک جنگ کرنے کی بات کرنے والے بلاول کی پارٹی کو خود پیپلز پارٹی کے گڑھ کشمیر میں ووٹ نہیں دیتے۔ یعنی کہ پارٹی ہار جاتی ہے۔
لیکن صورتحال جو بھی ہو جنگ تو مسئلے کا حل نہیں۔ کتنا اچھا ہوتا کہ فوجی آمر پرویز مشرف عدلیہ سے لڑائی نہ کرتا اور وہ جو ہوٹل ڈپلومیسی کے ذریعے وزیر اعظم من موہن سنگھ کے ساتھ کشمیر سمیت بھارت کے ساتھ مسائل حتمی حل کے قریب پہنچے تھے۔ شاید مشرف کے زوال کی ایک وجہ یہ بھی ہو۔
اب بھی جان لینن کے نغمے کی طرح کہ "آئو کہ امن کو ایک موقع اور دیں"
یا وہ جس طرح ساحر نے کہا تھا:
جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے
جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی
آگ اور خون آج بخشے گی
بھوک اور احتیاج کل دے گی
اس لئے اے شریف انسانو!
جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے
آپ اور ہم سبھی کے آنگن میں
شمع جلتی رہے تو بہتر ہے


.
تازہ ترین