• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ڈاکٹر مبارک کہتے ہیں، تاریخ اپنے آپ کو نہیں دہراتی مگر نظر تو یہی آتا ہے کہ ہر دس سال بعد، نامرادیاں دستک دیتی ہیں۔ خوف صحن میں آن کھڑا ہوتا ہے یہ بات ہے یحییٰ خان کےدور کی۔ لاہور کے انچارج جنرل نیازی تھے۔ ہم رائل پارک میں جس گھر میں رہتے تھے، وہ ایک افسر نے لے لیا تھا۔ہم سے زبردستی گھر خالی کرانے کے لئے، وہ دو گاڑیاں بھر کر رات کے دو بجے دروازے پہ پہنچ گئے،کہا یوسف کامران اور اس کے والد رمضان بٹ کو گرفتار کرنا ہے کہ یہ میرے گھر پر قبضہ کیے بیٹھے ہیں۔ پھر نام پوچھا، گاڑی میںبٹھایا اورلے گئے۔مجھے ممز نکلے ہوئے تھے۔ اسی شام اسپتال سے آئی تھی۔ بچے سہمے ہوئے تھے۔ اگلے دن صبح پیپلز ہائوس جو کہ اس کورٹ کا مرکز تھا، میں گرتی پڑتی ان دونوں کی ضمانت کرانے پہنچی تو دیکھا ان دونوں کو ہتھکڑی لگاکر عدالت میں پیش کیا جارہا تھا۔ میں نے بہت شور مچایا کہ ہتھکڑی کیوں لگائی ہے میری ایک نہ سنی گئی اور ان کو دس دن کے ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا۔ دس دن تک وکیل دوست بہت کام آئے، بڑی تیاریاں کیں، اسی عالم میں میں نے گھر خالی کیا۔ دس دن بعد جب باپ بیٹا، دونوں کو پیش کیا گیا تو ضعیف العمری کے باعث، یوسف کے باپ کی ضمانت ہوگئی اور وکیلوں کی صفائی سنے بغیر، یوسف کو ایک سال کی سزا سنادی گئی۔ مجھے جنرل نیازی نے پیغامات بھجوائے مجھ سے مل لو، تمہارا میاں چھوٹ جائیگا۔ خیر میں ان سے تو نہ ملی البتہ جنرل ٹکا خان تک پہنچ گئی۔ ساری روئیداد سنادی۔ ان کے حکم دینے پر طوعا ًوکرہاً یوسف کو رہا کرنے کا حکم دیدیا گیا۔ مجھے یہ قصہ چوالیس سال بعد، کیوں یاد آگیا ہے۔ ہر چند کہ اس وقت مارشل لا نہیں سول حکومت ہے جسے خورشید شاہ سے لیکر حاصل بزنجو تک کڑوا گھونٹ کہہ رہے ہیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ ہمارے ہاں دہشت گردوں کا جال بچھا ہوا ہے۔ حکومت ہے کہ اسکولوں کی چھٹیاں بڑھائے جارہی ہے۔ اسکولوں کو ہدایت دے رہی ہے کہ بچوں کی اسمبلیاں نہ کی جائیں۔ مائیں گود کے پالوں کو سمیٹے بیٹھی ہیں۔ شوہروں کے دفتروں پہ واپسی پہ شکرانہ ادا کرتی ہیں۔ گولیاں چلانے والے گھر جاتے افسروں کو بھون ڈالتے ہیں۔ حکومت بے بس نہیں ہے۔ ہر طرح کے احکامات جاری کرتے ہوئے بار بار کہہ رہی ہے کہ ملٹری کورٹس صرف دو سال کے لئے ہوں گی۔ 2014 جا چکا ہےاور2015 دھند میں لپٹا کانپتا ہوا، پوچھ رہا کہ میں انسانی حقوق کمیشن کی بات پہ کان دھروں کہ بچوں کو ٹی وی دیکھنے سے منع کروں کہ وہاں پھانسی دینے کی تفصیلات مع تصاویر دکھائی جاتی ہیں کہ یورپین یونین کی رائے کو سنوں کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی آواز کو سچ سمجھوں۔ سچ یہ ہے کہ اکثر علاقے ان دہشت گردوں کی گرفت میں ہیں۔ ہم ان کے نام اور مراکز کو بھی جانتے ہیں۔ ہم نہ ان کو پکڑتے ہیں بلکہ وہ تو جلسوں میں آکر زبردست تقریریں کرتے ہیں۔ تم تو ایسے کہہ رہی ہو کہ جیسے تم بہت جانتی ہو اور سرکار نہیں جانتی، بالکل جانتی ہے۔ ان کو موقع دے رہی ہے کہ اب بھی سنبھل جائو۔یہ بہت اچھا ہوا ہے کہ سرکار خود اور کچھ سیاست دان کہہ رہے ہیں کہ تمام کیسز صرف دہشت گردوں کے خلاف ہی ملٹری کورٹس میں چلائے جائیں گے۔ایسے کیسز والے سپریم کورٹ میں اپیل کا حق بھی رکھیں گے۔ آئندہ ان کی شکلیں نہیں دکھائی جائیں گی اور نہ ہی چینلز والے پہلی خبر کرکے پھانسیوں کے تحفے دکھائیں اور سنائیں کہ:
وہ جو شیطان کی طرح زخم بناتے جائیں
ان خدائوں کی پرستش نہیں کی جاسکتی
مجھے یقین ہے نیا سال مرے بچوں کو باغوں میں کھیلتے دیکھے گا۔ میری عورتوں کے ہاتھوں سے چوڑیاں اور پرس چھیننے والے ہاتھ سبق سیکھیں گے کہ یہ ان کی مائیں، بہنیں ہیں۔ رات کو دیر سے کام کرنے والے صحافیوں کو گولیاں چلاکے، کوئی مرقد زدہ نہیں کرے گا۔ ایک کام جو نہیں وہ میں ابھی کہہ سکتی ہوں۔ جاگیردارانہ اور وڈیرہ شاہی نظام ختم نہیں ہوگا۔ ان میں سے بیشتر لوگ (بقول نعیم بخاری) نہ صرف ایک پیسہ ٹیکس نہیں دیتے ہیں بلکہ اسمبلیوں میں بھی فروکش ہیں۔ ان کو بھی کوئی سزا دی جائے۔ ان کی ماہانہ وظائف میں سے زبردستی ہر ماہ پیسے کاٹے جائیں۔ جن محکموں نے جنسی ہراسانی کا جائزہ لینے اور غلط افسروں کو سزائیں دینے کے لئے کمیٹی نہیں بنائی۔ انہیں بنانے کی توفیق دے۔
جنرل راحیل شریف کا یہ کہنا بالکل بجا کہ ہم جتنی دیر ان کو پکڑنے میں لگائیں گے وہ اتنی ہی جلدی سرحد پار چلے جائیں گے۔ ایسا ماضی میں ہوتا رہا ہے۔ شمالی وزیرستان میں بھی ہوا ہے۔ ایسا ہی سوات میں بھی ہوا تھا کہ مولوی فض اللہ بڑے آرام سے افغانستان چلے گئے تھے۔ اب جبکہ افغان حکومت بھی زور دے کر کہہ رہی ہے کہ ہم بھی دہشت گردوں کو نہ صرف بے نقاب کریں گے بلکہ نابود کریں گے۔ ہماری اسمبلی میں بارہا یہ بحث چل رہی ہے کہ یہ کورٹس کسی بھی صورت، سیاست دانوں اور سویلین پر ہاتھ نہیں ڈالیں گی وہ کہاوت ہے نا کہ چور گھر میں آیا تو گھر والے لڑتے رہے کہ چور میرا سامان نہ لے جائے، میرا سامان نہ لے جائے، اس کی لڑائی کے موقع سے فائدہ اٹھا کر چور سب کا سامان لے گیا۔ حکایت کو واقعہ بنانے میں،ہمارے ملک میں بیشتر مثالیں مل جائیں گی۔ پرانی حکایتوں میں وہ جس فقیر کو بادشاہ بنایا تھا اور وہ حلوہ کھاتا رہا تھا۔ جب پوری حکومت دوسروں نے ختم کرلی اور اس کے محل کی باری آئی تو اس نے اپنا عصا پکڑا، چل پڑا۔ تاریخ گواہ ہے کہ تاخیر، نقصان کا باعث ہوتی ہے۔ ہم نے 2014 میں بہت نقصان اٹھایا ہے۔ ہمارے جو بچے، ابھی پشاور اسپتال میں پڑے ہیں، ان کے وجود کو سلامت بننے میں نجانے کتنی دیر لگے گی۔ یہی صورت حال ان میرے زخمی نوجوانوں کی ہوتی ہے جو کارگل اور برفانی سرحدوں سے زخمی ہوکر آتے ہیں اور کئی تو زندگی بھر کے لئے معذور ہوجاتے ہیں۔
افغانستان میں زخمی کتیھی نو ماہ بعد اور 14آپریشن کرانے کے بعد پاکستان لوٹی تب بھی اس کے بائیں بازو میں جگہ جگہ نیا گوشت لگایا گیا تھا کہ افغان دہشت گردوں کی گولیوں سے اس کی ہڈیوں سمیت بوٹیاں اڑا گئی تھیں۔ وہ تو دنیا کی بہت بڑی اخباری ایجنسی میں کام کرتی ہے اور اس کے ادارے نے سارے اخراجات اٹھائے، ہمارے ملک میں اتنی سہولت کہاں میسر ہے اور صحافیوں کی اتنی قدردانی کہاں کی جاتی ہے۔ مختصر یہ کہ صحافی ہوں کہ بچے، ان کی حفاظت حکومت اور فوج کے ذمہ ہے۔ فیصلوں میں تاخیر پچھتاوا بن جاتی ہے۔
تازہ ترین