• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ترکی کے مشہور اخبار ’’زمان‘‘ کے ایڈیٹر اکرم دمانلی کو گزشتہ دنوں حکومت نے گرفتار کر لیا تھا اس واقعہ پر انہوںنے جو کالم لکھا وہ قارئین کیلئے پیش خدمت ہے۔
پچھلے مہینے میرے اخبار پر چھاپے کے بعد اور مجھے اسی گھنٹے تک حراست میں رکھنے کے بعد جب میں عدالت گیا تو میں نے جج سے پوچھا کہ کیا 2کالم اور ایک نیوز رپورٹ ہی ہیں میرے خلاف شواہد۔جج نے جواب دیا جی بالکل یہی تھا۔اُ س وقت میں اپنے کیس کو بھول کر یہ سوچنے لگا کہ یہ ہمارے اورایردوان کی زیر تخت جمہوری ترکی کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔رجب طیب ایردوان بارہ سال سے ترکی کےلیڈر ہیں۔ اُنہوںنے اپنے پہلے اور دوسرے دورِ حکومت میں ترکی کی معیشت بہتر کرنے اور جمہوری اصلاحات لانے میں اہم کردار ادا کیا۔ تاہم انتخابات میں مسلسل جیت اور کمزور مخالفت سیاسی جماعتوں کی وجہ سے ایردوان کے حوصلے اور بُلند ہوگئے لیکن اب وہ ترکی کو ایک ایسی حالت کی جانب لے جا رہے ہیں جہاں ایک انسان اور ایک ہی پارٹی کی حکومت ہوگی۔ 2013میں دو اہم فیصلہ کن موڑ آئے۔
-1حکومت کارگیری پارک کے احتجاجیوں کے خلاف سخت ایکشن
-2ایک بہت بڑے کرپشن کے اسیکنڈل کے بعد حکومت کی عدلیہ کے سامنے رکاوٹ۔
تب سے ایردوان نے اپنے تمام حریفوں اور ناقدین کو ایک ایسی بین الاقوامی سفارش کا حصہ سمجھ کر غدار قرار دیا ہے جو اُن کی حکومت گرانے کی کوشش کررہی ہے۔ ابھی پچھلے ہفتہ ہی ایک سولہ سال ترک باشندے کو کرپشن کے بارے میںبات کرنے پر گرفتار کیا گیا۔ منگل کے دن دوصحافی’’صدف کباس‘‘اور ’’محمت باران سو‘‘کو حکومت کے خلاف ٹویٹ کرنے پر گرفتار کر لیا گیا۔ میرا اخبار ’’زمان‘‘اور میں بذاتِ خود ایردوان کے وحشت زدہ حملوں کے تازہ ترین شکار ہیں۔
حکومت کی نظر میں وہ تمام صحافی، ٹی وی پروڈیوسر اورا اسکرین رائٹر ز جو 14دسمبر کو پولیس کی طرف سے حراست میں لیے گئے وہ سب ایک مسلح تنظیم کے ممبر ہیںجس سے اسٹیٹ کی خود مختاری کو خطرہ ہے۔ مسلح دہشت گرد، خود کش حملہ آور اور دہشت گرد ی کے منصوبے بنانے والوں کو صحافیوں کے بھیس میں مت ڈھونڈو۔ ہمارا قصور صرف حکومت کے اُن اقدامات کومنظرِ عام پہ لانا تھا۔ جو ایک جمہوری ترکی کی بنیادیںکھوکھلی کر رہے تھے۔
آج کے ترکی میںحکومت کی میڈیا پر افا دیت کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ زیادہ تر میڈیا کو حکومت کے سپروائزر کی طرف سے کنٹرول کیا جارہا ہے جو کہ تمام ادارتی مواد کو چیک کرتے ہیں۔ جو کوئی بھی ان سپروائزر کی نگرانی سے نکل کر کام کرنا چاہتے ہیں یا تو اُنہیںہراساں کرلیا جاتا ہے اور یاپھر ناکارہ کردیا جاتا ہے۔ آزاد میڈیا گروپ کے ممبر ہونے کے ناطے یا پھر جو کچھ بھی ترکی میں بچا ہے ہم اپنا کام کرتے ہیں۔ ایردوان کی نظر میں حکومت کی کرپشن کی اور طاقت کے ناجائز استعمال کے خلاف آواز اُٹھانے والے دہشت گرد ہیں اور اُسکے ساتھ حکومت کے حامی میڈیا کی طرف سے زبانی حملے، وائلنٹ مہمات، اور قانونی طور پر ہراساں کرنے کا عمل بھی جلد ہی شروع ہونے کا امکان ہے۔ کرپشن کے اسکینڈل کے بعد ایک ایسی پرُ امن تحریک جسے’’حذمت‘‘ کہا جاتا ہے جوجمہوریت،تعلیم ، بین العقائد مکالمے کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ سماجی کاموں میں بھی سرگرم ہے۔ یہ ’’حذمت‘‘تحریک ایردوان کے بنیادی مسائل کا حصہ بن چکی ہے۔ یہ ’’حذمت ‘‘ تحریک اپنی اقدار اور مشن میں بالکل ’’U.S Civil Rights Movement‘‘سے مشابہت رکھتی ہے۔ اسکے حامی عوامی یا نجی اداروں سے تعلق رکھنے والے عام شہری ہیںلیکن ایردوان کے مطابق وہ قانونی طور پر بیوروکریسی میں گھسے ہوئے ہیں۔ حکومت نے ہزاروں پولیس افسران ، پروسیکیوٹرز اور دوسرے سرکاری حکام کا صفا یا کیا ہے۔ ایردوان کی حملہ آورمشین نے نجی شعبے میں ’’حذمت‘‘کے حامیوں سے منسوب اداروں اور کاروباری اداروں پر بھی حملے کئے ہیں۔ تازہ ترین حملے پچھلے ماہ’’زمان‘‘اور ’’STV‘‘میڈیاا سٹیشن پر کیے گئے جو کہ اُن تاجروں کے ہیں جو کہ ’’حذمت‘‘کے حامیوں کی طرح تمام جمہوری حقوق رکھتے ہیں۔
ــ’’ہدایت کا راجا ‘‘ جو کہ ’’STV‘‘براڈکاسٹنگ کے چیئرپرسن ہیں اُن کو بھی گرفتار کیا گیا۔ مجھے رہاکردیا لیکن ابھی بھی مجھ پر دہشتگردی کی دفعہ لگی ہے۔ ’’محمد فتح اللہ گولن‘‘ جو کہ امریکی نژادتر ک ہیں اور اس ساری ــ’’حذمت تحریکـ‘‘ کے مفکرہیں۔ اُن کو بھی گرفتار کرنے کیلئے احکامات جاری کئے گئے۔ پولیس اور میڈیا کو ترکی کے آئین اور بین الاقوامی قدروں کے مطابق نئی قانون سازی کے ذریعے کنٹرول میں لایا جارہا ہے۔ یہ نئی قانون سازی ایردوان کی مرضی کے مطابق کسی بھی شخص پہ مقدمہ چلانے یا رسوا کرنے کیلئے کی جارہی ہے۔ بلا تعجب ہمیں ایک ایسی ہی نئی قانون سازی کے فورََابعد گرفتار کرلیا گیاتھاجس میں لکھا تھا کہ کوئی بھی مشکوک شخص کسی بھی ٹھوس شواہد کے بغیر گرفتار کیا جاسکتا ہے ۔ایردوان کے اس غیر ذمہ دارانہ رویے سے نہ صرف اُنکی اپنی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے بلکہ اسکے ساتھ ترکی اور اسکے حامی بھی اس کی لپیٹ میں ہیں۔
ترکی کے ایک مستحکم سرمایہ کاری کے مرکز کے امیج کو بھی نقصان پہنچا ہے اس کردار کشی کی سیاست نے ناگزیر طور پر سماجی کشیدگی پیدا کر رکھی ہے۔ اندرونی طور پر درہم برہم ترکی کو بین الاقوامی برادری کا حصہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ایردوان کے آمرانہ قدامات نے ترکی کو یورپین یونین کا حصہ بننے کے طویل زیرِ مقاصدمنصوبے سے دور جا کھڑا کیا ہے۔ اس سب کے باوجود میں کبھی مایوس نہیں ہوں گا۔ کیونکہ یہ کوئی پہلا گرداب نہیں جس سے قوم گزر رہی ہے۔ ’’زمان اخبار‘‘پر چھاپہ پڑنے کے بعد قومی اور بین الاقوامی سطح پر ناپسندیدگی کے اظہار کو دیکھ کر میں اور بھی پرُ امید ہوا ہوں۔ جب میں زیر حراست تھا تو اللہ تعالیٰ نے مجھے بیٹی دی ۔ میں نے اور میری اہلیہ نے اپنی بیٹی کا نام ’’سعادت‘‘رکھا۔ جس کا ترک زبان میں مطلب ’’نعمتیں اور خوشیاں‘‘ہیں۔ سعادت ہمارے ترکی کی جمہوریت کے روشن مستقبل پر یقین رکھنے کی علامت ہے۔
رات کی تاریک ترین گھڑی ہمیشہ طلوع فجر سے پہلے آتی ہے۔
تازہ ترین