اسلام آباد(نمائندہ جنگ) قائد حزب اختلاف قومی خورشید احمد شاہ نے کہا ہے کہ وزیر اعظم کا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب عام تقریر کی بجائے ایک بھرپور اور دوٹوک خطاب ہونا چاہئے تھا جس میں دنیا کو یہ باور کرایا جاتا کہ پاکستان کو بھارت جیسے ہمسایہ ملک سے کیا خطرات اور مسائل در پیش ہیں۔ حکومت بھارت کے جنگی جنون اور بارڈرز پر فائرنگ کے سدباب کیلئے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیکر لائحہ عمل طے کرے، انہوں نے کہا کہ کشمیر کے مسئلے کو بھرپور طریقے سے اجاگر کرنا خوش آئند ہے لیکن پاکستان میں بڑھتی ہوئی دہشتگردی میں ہندوستان کا ہاتھ ہے اور ہمیں یہ بات واضح اور واشگاف انداز میں دنیا کو بتانی چائیے تھی۔ انہوں نے کہا کہ کلبھوشن پاکستان میں بھارت کی بد ترین مداخلت کی علامت ہے اور ہمیں ہندوستان کا یہ چہرہ بھی دنیا کو دکھانا چاہئے تھا کہ بھارت کس طرح ہمارے ملک میں دہشتگردی اور بد امنی کو ہوا دے رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بہتر ہوتا کہ وزیر اعظم جنرل اسمبلی جانے سے پہلے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیتے مگر شائد وزیر اعظم وزارت خارجہ کے مشیروں کو ہی عقل کل سمجھتے ہیں ، ایسے موقع پر کہ جب وزیر اعظم امریکہ میں ہیں امریکی کانگرس میں پاکستان کو دہشت گردی کی کفیل ریاست قرار دینے کا بل پیش کیاجا رہا ہے۔ موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے حکومت کو ایڈہاک ازم کی پالیسی ترک کر کے مستقل مزاجی اپنانا ہوگی ، افسوس کی بات ہے کہ ہم ملک کی دو اہم وزارتیں وزارت خارجہ اور وزارت دفاع بھی ایڈہاک ازم کے تحت چلا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان کی موجودہ حکومت کی مسلمان اور پاکستان دشمنی کوئی راز نہیں مگر ہندوستان ہمیں اینٹ کا جواب پتھر سے دینے پر مجبور نہ کرے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے حالا ت میں کہ جب بھارت ہمارے خلاف تشدد، دھونس اور بربریت پر اترا ہوا ہے تو حکومت کا فرض ہے کہ وہ ہندوستان کے جنگی جنون، پاکستان میں اس کی مداخلت اور دہشت گردی اور ہمارے بارڈرز پر فائرنگ کے سدباب کیلئے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیکر فوری لائحہ عمل طے کرے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے معصوم شہریوں کے سینے میں گولیاں اتارنے والوں کو ہم بھی توپ کے دھانے پر رکھ سکتے ہیں لیکن ہم امن اور بات چیت کی پالیسی اپنا کر ایک ذمہ دار اور پر امن قوم کا کردار ادا کررہے ہیں۔