حج بیت اللہ صاحب استطاعت لوگوں پر اللہ کریم نے فرض کیا ہے اور قرآن کریم میں اس کو اس انداز میں بیان کیا گیا ہے کہ جس کو اللہ تبارک و تعالیٰ استطاعت دے اور وہ پھر بھی اللہ کی نا شکری کرتے ہوئے حج ادا نہ کرے تو پھر اللہ کریم کو بھی اس کی پروانہیں ہے۔ 24 سال قبل اللہ تبارک و تعالیٰ نے توفیق دی تھی اور اپنی والدہ کے ساتھ حج کا فریضہ ادا کیا تھا اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے متعدد بار حج بیت اللہ کی سعادت حاصل ہوئی۔ اس سال عالم اسلام کے حالات بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورتحال اور 29 رمضان کو مدینہ منورہ میں خود کش حملے کی کوشش کے بعد دل میں بار بار یہ احساس پیدا ہوتا تھا کہ حج کے موقع پر ہمیں میدان عرفات میں ہونا چاہئے اور ان اسلام اور مسلمان دشمن قوتوں کو یہ پیغام جانا چاہئے کہ ان کی تمام تر سازشوں کے مقابلے کیلئے مسلمانان عالم متحد ہیں اور ارض حرمین الشریفین کے دفاع ، سلامتی اور تحفظ کیلئے ہر طرح کی قربانی دینے کو تیار ہیں۔ ارادے کے باوجود حج پر جانے کیلئے ترتیب بن نہیں پا رہی تھی کہ بعض دوستوں کی ترغیب اور ساتھ نے اور اللہ کریم کا فضل و کرم ہوا کہ لبیک اللھم لبیک کی صدائیں لگاتے ہوئے مکہ مکرمہ پہنچ گئے ۔مکہ مکرمہ پہنچنے پر معلوم ہوا کہ رابطہ عالم اسلامی نے حج کے دوسرے دن منٰی میں ایک عالمی کانفرنس بعنوان ’’اسلام امن و سلامتی اور اعتدال کا دین ہے ‘‘ کا اہتمام کیا ہے جس میں بطور مہمان مجھے بھی چند کلمات ادا کرنے ہیں۔رابطہ عالم اسلامی کے نئے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر محمد بن عبد الکریم العیسٰی سعودی عرب ہی نہیں بلکہ عالم اسلام کے ممتاز مفکرین ، دانشوروں اور عصر حاضر کے تقاضوں کو سمجھنے اور جاننے والے رہنمائوں میں شمار ہوتے ہیں ، ان کی طرف سے ملنے والی دعوت کے نتیجے میں کانفرنس میں شرکت کا فیصلہ کیا ۔ اسی دوران خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبد العزیز کے پروٹوکول کی طرف سے بھی یہ اطلاع موصول ہوئی کہ اسی دن خادم الحرمین الشریفین کی طرف سے حج پر آئے ہوئے اہم مسلم قائدین کے اعزاز میں ایک ضیافت کا اہتمام کیا گیا ہے جس میں مجھے شریک ہونا ہے۔نماز ظہر کے بعد خادم الحرمین الشریفین کی ضیافت میں جب منٰی میں شریک ہوئے تو وہاں پر یہ جان کر حیرت اور خوشی بھی ہوئی کہ رابطہ عالم اسلامی کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر محمد عبد الکریم العیسٰی کو وہاں اپنا ایک مقالہ پیش کرنا تھا جس میں عالم اسلام کے حالات ، مسلم نوجوانوں کی فکری اور نظریاتی اصلاح کے متعلق انتہائی مدلل اور جامع تجاویز پیش کی گئی تھیں اور یہ تمام تر فکر اور سوچ خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبد العزیز کی سر پرستی میں ان کے ولی عہد امیر محمد بن نائف کی طرف سے دی جانے والی سو چ اور فکر اور کوششوں سے مطابقت رکھتی ہے اور سعودی عرب کی قیادت میں نائب ولی عہد امیر محمد بن سلمان کی کوششوں سے مضبوط عالمی اسلامی عسکری اتحاد کا دوسرا حصہ فکری نظریاتی اتحاد ہے جس کی طرف اس مقالے میں توجہ دلائی گئی تھی۔ حقیقت حال میں عالم اسلام اس وقت جس صورتحال سے دو چار ہے اور دہشت گردی اور انتہا پسندی جس تیزی سے پھیل رہی ہے اس کا مقابلہ صرف عسکری انداز سے نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس کیلئے فکری، ذہنی اور نظریاتی تبدیلی لانے کیلئے جدوجہد کی ضرورت ہے ۔ جس کی طرف عالم اسلام کی ممتاز قیادت کی موجودگی میں توجہ دلانے کی کوشش کی گئی تھی۔رابطہ عالم اسلامی کے تحت ہونے والی عالمی کانفرنس میں اس کے عنوان کے تحت جو گفتگو کی گئی اس کا واضح مفہوم یہی تھا کہ جو لوگ اسلام کو تشدد اور انتہا پسندی کے ساتھ جوڑ رہے ہیں یا تو ان کو اسلام کی حقیقی تعلیمات کا علم نہیں ہے یاپھر وہ جان بوجھ کر اسلام کے خلاف پروپیگنڈے میں مصروف ہیں اور اسی طرح وہ تنظیمیں جو اپنے مقاصد کیلئے اسلام کے نام کا غلط استعمال کرتی ہیں وہ بھی اسلام دشمنی کر رہی ہیں ۔ اسلام سے محبت اور دوستی کا ان کی ان متشددانہ پالیسیوں سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ شام سے لے کر یمن تک عرب ممالک میں ہونے والی مداخلتوں کے نتیجے میں تشدد کا رحجان بڑھ رہا ہے اور عالمی قوتوں کی خاموشی اس پر تیل کا کام کر رہی ہے۔ ایران اور عرب ممالک کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی اور اس سال ایران حکومت کی طرف سے حجاج کرام کو حج پر نہ بھیجنا بھی مسائل اور مصائب میں مزید اضافہ کر رہا ہے ۔ ایرانی قائدین کی طرف سے سخت گیر بیانات اور عرب دنیا کی طرف سے ان کے جوابات بھی مسلم دنیا کیلئے پریشان کن ہیں ۔ اس ساری صورتحال میں منٰی میں ہونے والی کانفرنس ایک امید کی کرن نظر آتی ہے جس میں اس بات کی طرف دعوت دی گئی ہے کہ ٹکرائو کی بجائے اعتدال کے رویے کو اپنایا جائے ۔ اسلامی ملکوں کو فتح کرنے کے خواب کو چھوڑ کر مسلم قیادت اپنے مسائل کو خود حل کرنے کی کوشش کرے ۔ شیشان کانفرنس جیسی کانفرنسیں کر کے مسلمان مکاتب فکر میں تلخیاں پیدا کرنے کی بجائے قرآن و سنت کی روشنی میں باہمی اتفاق و اتحاد کو لازم قرار دیا جائے اور اس بات کا احساس و ادراک بھی کیا جائے کہ مسلمانان عالم جس صورتحال سے دوچار ہیں اس میں امریکی کانگریس سے آنیوالی آوازیں کیا پیغام دے رہی ہیں۔ منٰی کانفرنس میری سوچ اور فکر کے مطابق اس عالمی اسلامی فکری اتحاد کی طرف پہلا قدم ہے جس کیلئے پورا عالم اسلام بیتاب نظر آتا ہے۔ یہ بات حقیقت ہے اور اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ جب تک مسلمان مفکرین اور قائدین سر جوڑ کر نہیں بیٹھیں گے اور مسلم نوجوانوں کو دہشت گردی اور انتہا پسندی کی طرف راغب کرنے والی سوچ اور فکر کو چیلنج نہیں کریں گے اس وقت تک دہشت گردی اور انتہا پسندی کا مقابلہ مربوط اور منظم طریقے سے نہیں ہو سکتا۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی کا مقابلہ عسکری اور فکری دونوں محاذوں پر کیا جانا ضروری ہے اور اس کی طرف منٰی کانفرنس نے توجہ دلائی ہے۔امید یہی ہے کہ رابطہ عالم اسلامی کے نئے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر محمد عبدالکریم العیسٰی کی قیادت میں منیٰ کانفرنس کے اختتامی بیان پر عملدرآمد کیلئے ہر سطح پرمناسب اور بہتر اقدامات اٹھائے جائیں گے اور اگر ایسا کر لیا جاتا ہے تو اس سے نہ صرف فرقہ وارانہ امور پر قابو پا نے میں مدد ملے گی بلکہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے عفریت کے خاتمے کیلئے بھی سنجیدہ اقدامات اٹھائے جا سکیں گے۔
آخر میں اس سال حج انتظامات کے حوالے سے یہ بات ضرور کہی جائے گی کہ سعودی عرب کی قیادت نے خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبد العزیز اور ان کے ولی عہد اور وزیر داخلہ امیرمحمد بن نائف کی سرپرستی اور رہنمائی میں جس طرح حج انتظامات کیلئے جدوجہد کی وہ قابل تحسین ہے اور اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ سعودی عرب کی قیادت حج انتظامات اور زائرین کی خدمت کیلئے بہر صورت اہلیت رکھتی ہے کہ وہ اللہ کے مہمانوں کی بھرپور طریقے سے خدمت کر سکتی ہے اور یہی گزشتہ 86سال سے دیکھا جا رہا ہے اور خدمت حجاج و زائرین کے اس عزم کا اظہار خادم الحرمین الشریفین کی طرف سے دی گئی ضیافت کے موقع پر ان کے خطاب سے بھی واضح ہو رہا ہے کہ حج کو سیاسی مقاصد کیلئے نہ استعمال کیا جائے گا اور نہ ہی ہونے دیا جائے گا۔ جب تک یہ عزم قائم ہے ان شاء اللہ حجاج اور زائرین کیلئے کوئی پریشانی کی بات نہیں ہے۔
.