• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمارے ملک کی بدقسمتی دیکھیں کہ اس میں تعلیمی پسماندگی کا مرض اس قدر گمبھیر ہو چکا ہے کہ اسکے علاج کیلئے تعلیمی اصلاحات کی نہیں بلکہ تعلیمی انقلاب کی ضرورت ہے۔ کوئی قوم اس وقت تک ترقی کی منازل طے نہیں کر سکتی جب تک اس کا نظامِ تعلیم خامیوں سے پاک نہ ہو اور کوئی بھی ریاست اس وقت تک مکمل فلاحی ریاست نہیں بن سکتی جب تک وہ قوم کے ہر فرد کو مکمل نظامِ تعلیم نہ دے سکے۔ پاکستان اپنے اندر 21ویں صدی کا سب سے زیادہ متحرک اور ترقی یافتہ ملک بن جانے کے امکانات رکھتا ہے مگر بدقسمتی سے جس طرح اس ملک کا پورا سسٹم افراتفری اور بدانتظامی کا شکار ہے اور حکومت کے گڈگورننس کے تمام تر دعوئوں کے باوجود نظامِ تعلیم جس انتشار سے دوچار ہے، وہ موجودہ حالات میں انتہائی سنجیدگی اور عملی اقدامات کا متقاضی ہے۔ اگر ہم نے فوری طور پر قومی تعلیمی نظام کی خامیوں اور ان کے حل کی طرف توجہ نہ دی تو پھر تباہی اور بربادی کی دلدل میں گرنے سے ہمیں کوئی نہیں روک سکتا۔ اس وقت تین اقسام کے نظام ہائے تعلیم ہمارے ملک میں رائج ہیں۔ دینی مدارس کا اپنا ایک نظام ہے، سرکاری مدارس کا اپنا نصاب تعلیم اور طریقہ تعلیم ہے جبکہ پرائیویٹ تعلیمی ادارے اپنے نصابِ تعلیم کی آڑ میں لوٹ کھسوٹ میں مصروف ہیں اور ان تینوں نظام ہائے تعلیم کے اندر بدقسمتی سے کوئی ہم آہنگی نہیں ہے جو اس ملک میں فرقہ وارانہ فسادات، کرپشن، ظلم، ناانصافی، دہشت گردی، معاشرتی ناہمواری، غربت اور جہالت کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ اس وقت ہمارے ملک میں ہزاروں مدارس دینی تعلیم کے فروغ کیلئے شب و روز مصروف عمل ہیں، جہاں سے ہر سال ہزاروں حفاظِ قرآن اور سینکڑوں مستند علمائے دین حصول تعلیم کے بعد سچے مسلمان کی صورت میں معاشرے کا حصہ بنتے ہیں مگر بدقسمتی سے یہاں سے فارغ التحصیل طلباء و طالبات دینی تعلیم میں تو مکمل عبور رکھتے ہیں مگر دنیاوی تعلیم سے نابلد ہونے کے باعث یہ طلبہ عملی زندگی میں بیشمار مسائل کا شکار ہوتے ہیں اور بسااوقات پے در پے ناکامیوں کے باعث ان میں سے چند عناصر منفی سرگرمیوں میں ملوث ہو جاتے ہیں جس کا پرچار ہم آئے روز ٹیلیویژن اور اخبارات میں دیکھتے اور سنتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ادارے بھی وقت کے جدید تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے نصاب تعلیم پر غور کریں۔ انہیں اپنے نصاب میں سائنس، ٹیکنیکل ایجوکیشن سے متعلقہ مضامین اور اختیاری مضامین کے ساتھ ساتھ کمپیوٹر سے متعلقہ مضامین کو بھی جگہ دینی چاہئے تاکہ انہیں دیگر حکومتی اداروں کے نصاب کے ہم پلہ بنایا جا سکے۔ اس وقت ان دینی مدارس کے امتحانی نظام کے ڈھانچے اور بورڈز کے اندر بھی بیشمار مسائل اور خامیاں موجود ہیں جن کا تدارک بہت ضروری ہے۔ ان اداروں سے فارغ التحصیل علماء و طلبہ مسجد ِ مکتب کی اس پرانے دور کی تعلیم جہاں ہر فرد دینی و دنیاوی لحاظ سے مردِ مومن کی مثال بن کر نکلتا تھا اور معاشرتی ترقی کے ہر پہلو میں اپنا حصہ ڈالتا تھا، کی مثال بن کر نکلنے کے بجائے بدقسمتی سے معاشرتی نشترزنی کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ حکومت ان تمام دینی مدارس کے نصاب کا ازسرنو جائزہ لینے کیلئے جید علماء اور دینی اُمور پر کامل دسترس رکھنے والے اشخاص کا انتخاب کر کے نصاب سازی کے عمل کو مکمل کرے۔ اگر ہم ملک سے دہشت گردی اور فرقہ واریت کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں مدارس کے نظامِ تعلیم پر کڑی نظر، غیرملکی امداد سے چلنے والے اداروں کی سکروٹنی اور یہاں سے فارغ التحصیل طلباء و طالبات کیلئے جائز معاشی ذرائع کی فراہمی پر توجہ دینا ہو گی کیونکہ بیروزگاری اور غربت فرقہ وارانہ اور دہشت گردی کے مسائل میں اضافے کا باعث ہیں۔ غربت کے ہاتھوں مجبور بچے ’’را‘‘ اور دوسری ایجنسیوں کے ایجنٹ بن کر بھاری رقوم وصول کرتے ہیںاور بیگناہ شہریوں کی جان لینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ اگر ہم سنجیدگی کیساتھ ان تمام مسائل کی دلدل سے باہر نکلنا چاہتے ہیں تو ہمیں دینی مدارس کے نظامِ تعلیم کو سرکاری اداروں کے نظامِ تعلیم سے ہم آہنگ کرنے کیلئے عملی اقدامات کرنا ہونگے۔ ہمارے ملک میں دوسرا رائج الوقت نظامِ تعلیم سرکاری نظامِ تعلیم ہے جو سرکاری مشینری کی طرح کھوکھلا، زنگ آلود، بے روح اور شرمناک حد تک قابل افسوس ہے۔ سرکاری تعلیمی ادارے لکیر کے فقیر، حکومتی نصاب پر عمل پیرا ہونے کیلئے مجبور، مالی مجبوریوں کے ہاتھوں بے بس، طبقاتی نظامِ تعلیم کے ستائے ہوئے، تعلیمی نگرانی کے حقیقی ثمر سے بے بہرہ، غیر پیشہ ورانہ افراد کے ہاتھوں بے بس و لاچار، سیاسی مداخلت، اختیارات کی غیرضروری مرکزیت اور سہولیات کی عدم دستیابی جیسے مسائل میں گھرے ہوئے ہیں۔ قابل افسوس بات تو یہ ہے کہ بچوں کو جو تعلیم بھی دی جا رہی ہے، وہ ان کی عملی زندگی میں رَتی بھر بھی معاون ثابت نہیں ہوتی۔ ہر سال لاکھوں، کروڑوں بلکہ اربوں روپے تعلیم کے نام پر بغیر منصوبہ بندی خرچ کر کے قوم کو سوائے حسرت و یاس اور سرد آہوں کے کچھ بھی نہیں دیا جاتا۔ وزارتِ تعلیم کی جانب سے نئے سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں اور نت نئے مال بنائو، مال کھائو، منصوبوں کے فضول قسم کے اشتہارات، سابقہ اور موجودہ حکومتوں کی نااہلی اور بیوروکریسی کی ملک و ملت دشمنی اور قومی دولت کے ضیاع کے واضح ثبوت ہیں۔ جب تک ہماری پرائمری تعلیم کی منصوبہ بندی فعال اور خوشحال نہیں ہو گی اور اس کا تمام نصاب ملک و ملت کی معروضی، ثقافتی اور اسلامی روایات کو سامنے رکھ کر مرتب کرنے کی ذمہ دارانہ کوشش نہیں کی جائیگی، اس وقت تک سکینڈری، ہائر سکینڈری یا اعلیٰ یونیورسٹی لیول کی تعلیم کی خامیوں کو دُور کرنا انتہائی مشکل ہو جائیگا۔ تعلیمی پالیسیاں مرتب کرتے وقت غیرملکی بابوئوں اور وزارتِ تعلیم میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ملک و ملت کی دشمن بیوروکریسی جو صرف نام کے پاکستانی اور مسلمان ہیں، جن کے اپنے بچے غیرملکی اداروں میں حرام کی کمائی سے اعلیٰ تعلیم کے مزے لوٹ رہے ہیں، درحقیقت غیرممالک کے وہ ’’روحانی فرزند‘‘ ہیں جن کے دماغ اور لبادے امریکی بے روح اجسام پاکستانی ہیں، یہ نصاب سازی میں انہی ممالک کے نظریات کا دخول کرتے ہیں جن ممالک کے یہ ذہنی اور جسمانی غلام ہیں۔ ہماری درسی کتب کی تیاری میں نہ تو نظریاتی تقاضوں کو مدنظر رکھا جاتا ہے اور نہ ہی فنی، تکنیکی اور نفسیاتی عوامل کے ساتھ ساتھ درسی کتب کو اسلامی تناظر میں ڈھالنے کی کوئی عملی کوشش کی جاتی ہے۔ ہمارے ٹیکسٹ بک بورڈز کا حال تو یہ ہے کہ یہاں اپنے مضامین پر کامل دسترس رکھنے والے سکالرز کی بجائے پیشہ ور ٹھیکیداران کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں اور نصاب سازی سے لیکر طباعت و تقسیم تک کے جملہ مراحل میں سفارش، اقرباء پروری اور حصہ داری کے اُصولوں کو مدنظر رکھا جاتا ہے، جسکے باعث مالیاتی سکینڈل آئے روز منظرعام پر آتے رہتے ہیں، انکوائریاں چلتی ہیں اور پھر خفیہ ہاتھ اور حکومتی مشینری متحرک ہو کر ان کیلئے ڈھال بن جاتی ہے۔ اسلامی نظریاتی مملکت کے اس دیمک زدہ سسٹم میں تعلیمی انقلاب کا خواب محض ایک نعرے سے زیادہ کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ ثانوی اور سکینڈری تعلیم کی طرف توجہ اور ان میں موجود نقائص کو دُور کرنا حکومت وقت کی اہم ذمہ داری ہے۔ ثانوی سطح پر تو ہمارے نصاب میں خامیاں ہیں ہی، ہمارے تعلیمی بورڈز بھی بدانتظامی میں پیش پیش ہیں۔
تازہ ترین