قاضی حسین احمد کا جماعت اسلامی کے حوالے سے کردار کچھ لوگوں کے ہاں قابل تحسین رہے گا اور کچھ کے ہاں شاید اس پر کئی سوال ہوں ،انسانوں کے بارے میں زندہ معاشروں میں اس قسم کی بحثیں چلتی رہتی ہیں اور چلنی بھی چاہیئں کیونکہ مضبوط سماج اس قسم کی بحثوں سے ہی پرورش پاتے ہیں ۔
میرے پاس قاضی حسین احمد کو یاد کرنے کے لئے ملی یکجہتی کونسل کے قیام کے بارے میں کی گئی شاندار کوششیں ہیں ۔ ملی یکجہتی کونسل کا قیام قاضی حسین احمد کا وہ عظیم الشان کارنامہ ہے جو قاضی صاحب کو پاکستان میں تعمیری سرگرمیوں کے حوالے سے ہمیشہ نمایاں رکھے گا ۔ یہ وہ کام تھا جس پر کسی مکتب یا گروہ کو کوئی اعتراض نہیں بلکہ سب نے اسے قابل تحسین کاوش قرار دیا ۔ قاضی حسین احمد کی دوسری برسی پر ہمیں ان کا یہ سبق یاد رکھنا چاہیے کہ تاریخی اختلافات کو اپنے دائروں میں رکھ کر ہمیں مشترکہ مقاصد اور اہداف کی جانب توجہ دینی چاہئے۔ اسی میں ملک اور ملت کے استحکام اور بقا کا راز مضمر ہے ۔
قاضی حسین احمد ہمیشہ امت کے اتحاد کے علمبردار رہے اور ان کی سوچ و فکر کا مرکزبھی یہی رہا کہ پاکستان میں دینی جماعتوں اور اداروں سے وابستہ افراد کو کیسے وحدت کی لڑی میں پرویا جائے ۔ انہوں نے اس مقصد کے لئے بعض اوقات نظم سے ہٹ کر فیصلے اور ‘‘کارروائیاں ’’بھی کیں ۔ملی یکجہتی کونسل کی تشکیل نو بھی ایک ایسی ہی کارروائی ہے ۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ پاکستان میں مختلف فرقے اور مسالک اپنا فرقہ اور مذہب نہیں چھوڑ سکتے ۔ کسی شیعہ کو سنی نہیں بنایا جا سکتا اور کوئی سنی شیعہ نہیں بنے گا ۔ اس طرح کی کوششیں اونٹ کو رکشے میں بٹھانے جیسی بے سود کوششوں کے سوا کچھ نہیں ۔تاہم وہ سمجھتے تھے کہ ان سب مسالک کے رہنماؤں اور اکابرین کو مشترکہ مقاصد اور اہداف کے تحت ایک جگہ بٹھایا جا سکتا ہے ۔ پر امن ماحول میں کسی نظم کے تحت ایک جگہ بیٹھ کر ،ایک دوسرے کے موقف کو سمجھ کر کسی نتیجے تک پہنچا جا سکتا ہے ۔
مشہور بات ہے کہ تین علماء کسی بات پر آسانی سے متفق ہو سکتے ہیں بشرطیکہ ان میں سے دو موقع پر موجود نہ ہوں ۔ قاضی حسین احمد کی خوبی یہ تھی کہ وہ سب کو متفق کر لیتے تھے ۔ملی یکجہتی کونسل وہ مشترکہ پلیٹ فارم تھا جہاں دیوبندی ،بریلوی ،اہل حدیث ،جماعت اسلامی اور شیعہ ایک دوسرے کے گھروں ،دفاتر اور حجروں میں ایک جگہ بیٹھتے تھے اور بیٹھ سکتے ہیں ۔ اکھٹے بیٹھنے کی وجہ سے ملی یکجہتی کونسل نے کئی گمبھیر مسائل کا حل نکالا۔ قوم کو کئی ایسے نتائج فکر سے نوازا کہ تشدد اور کشیدہ فرقہ وارانہ ماحول میں بہتری آئی ۔ تاہم یہ ریاست اور اہل اقتدار کی کمزوری تھی کہ وہ علماء کے اتحاد و اتفاق سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکی۔شاہ احمد نورانی ، قاضی حسین احمد ،مولانا فضل الرحمان ، سراج الحق ،مولانا سمیع الحق ، حافظ حسین احمد ،ڈاکٹر ابولخیر محمد زبیر ، علامہ سید ساجد علی نقوی ،علامہ محمد امین شہیدی ،پیر عبدالشکور نقشبندی ،علامہ ساجد میر ، حافظ سعید ،پیر ناصر جمیل ہاشمی ، صاحبزادہ سلطان احمد علی ، ابتسام الہٰی ظہیر ،ثاقب اکبر، آصف لقمان قاضی سمیت تمام شخصیات نے اپنا شاندار کردار ادا کیا اور قوم کو ان سے مزید کی توقع ہے۔
ملی یکجہتی کونسل کے کردار کو وسیع کر نے کی ضرورت ہے اور اس میں مسلمان جماعتوں کے علاوہ اب دیگر مذاہب کی جماعتوں کو بھی شامل کیا جائے تو اس کا دائرہ کار اور دائرہ اثر دنیا کے لئے ایک قابل تقلید عمل بن سکتا ہے ۔
میرے خیال میں حکومت کو چاہیے کہ وہ ملی یکجہتی کونسل کو ایک یونی ورسٹی کے قیام کے لئے فنڈز فراہم کرے جو ہائر ایجو کیشن کمیشن سے منظورہو۔ ملی یکجہتی کونسل کے موجودہ سربراہ کو ہی یونی ورسٹی کا وائس چانسلر بنایا جائے ۔
دینی مدارس کے تمام بورڈز ہر سال یہاں اپنے درس نظامی کے فارغ ایک ،ایک ہزار سند یافتہ طلبہ بھیجیں جن کے لئے یہاں ایک سال کا خصوصی کورس کرایا جائے۔ انہیں ہاسٹل میں اکٹھے رکھا جائے اور کھانا پینا بھی مشترک ہو۔
مختلف مذہبی سیاسی جماعتوں کے رہنما ، پانچوں بورڈز کے سربراہان اور ذمہ داران ،مسلکی اکابرین ،سیاسی جماعتوں کے مرکزی رہنما ،اسلامی نظریاتی کونسل کے ممبران کو اس یونی ورسٹی میں لیکچر دینے کے پابند بنائے جائیں ۔غیر ملکی جامعات کے متعلقہ شعبوں کے پروفیسرز کو بھی خصوصی طور پر بلایا جائے ۔
یہاں سے فارغ التحصیل علماء کو ہی ملک میں مسجد اور مدرسہ کھولنے کی اجازت دی جائے ۔
میڈیا کو پابند بنایا جائے کہ وہ انہی علماء کو قوم کی دینی رہ نمائی کے لئے دعوت دے ۔
اس یونی ورسٹی میں کسی بھی مسلک کا کوئی فرد قتل کیا جائے تو اس کے لئے قرآن خوانی اور دعا کا خصوصی اہتمام کیا جائے تاکہ قتال کرنے والی انتشار زدہ ذہینت کے مقاصد کو قتل کیا جا سکے ۔
اس پر مزید کام بھی کیا جا سکتا ہے تاہم سوال یہ ہے کہ ملی یکجہتی کونسل کے اکابرین کی اس معاملے پر اپنی رائے کیا ہے ؟