• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مریم نواز نے بلاول بھٹو کی سالگرہ پر مبارکباد کا ٹویٹ کیا۔ پورے ملک میں خوشگواریت کا تاثر پیدا ہوا، وجاہت مسعود نے اپنے کالم کی سرخی جمائی ’’شکریہ بہن مریم، شکریہ بھائی بلاول‘‘، پھر بلاول کو ’’تاریخی توجہ دلائو‘‘ نوٹس پر انہوں نے اپنی بات ختم کر دی، یہ اپنی جگہ لیکن مریم نواز کے اس عمل سے خیالات کے کچھ دیگر دروازے بھی وا ہو گئے۔
احساس کی ایک لہر پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے ہنگامہ خیز مدوجزر سے ابھری، یہ جیسی بھی ہیں، جہاں بھی ہیں، جس قسم کا بھی ان کا ٹریک ریکارڈ ہے، ان کے خدانخواستہ نہ ہونے سے پاکستان کی سرزمین اور یہاں کے مکین کن کا مال غنیمت ہوتے؟ کون انہیں اپنا یرغمالی بنا کر ان کے انسانی جینز تک کو راکھ کر دیتا؟ مسلم لیگ ’’ن‘‘، پاکستان پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی)، فنکشنل لیگ (پگاڑا گروپ)، تحریک انصاف، شیخ رشید کی عوامی لیگ، فضل الرحمٰن کی جمعیت علمائے اسلام، مولانا سمیع الحق کی جمعیت علمائے اسلام، جماعت اسلامی، متحدہ قومی موومنٹ، جمہوری وطن پارٹی، بزنجو گروپ کی جماعت، قومی مین اسٹریم میں موجود دیگر سیاسی و مذہبی پارٹیاں، ان کی عدم موجودگی میں پتہ ہے پھر یہاں کون ہوتا؟ وہ ہوتے جو اپنی تعبیروں اور عقیدوں کے مطابق ریاست پاکستان کو پوری عالمی برادری کے سد سکندری سے ٹکرانے پر مجبور کر دیتے۔
پاکستان کی قومی مین اسٹریم میں ان بھولی بسری سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے نہ ہونے سے یہاں ایک عقیدے کے مبلغ، پرچارک، حافظ، اپنے سوا مسلمانوں کو ہی نہیں ساری اقلیتوں کے خون سے ملک کی سرزمین لالہ زار کئے بغیر نہ رہتے، سوچو جن گروہوں اور لوگوں نے ان مین اسٹریم قومی سیاسی و دینی پارٹیوں کے ہوتے، جنہوں نے افواج پاکستان کے دہشت گردی کے میدان کارزار میں اترنے اور دہشت گردی کے خلاف عالمی برادری کے مکمل تعاون اور نگرانی کے باوجود پاکستان کی دھرتی پر اس کے اپنے ہی پچاس ہزار سے زائد فرزندوں اور بچوں کو خون میں نہلا دیا۔
وہ ہیں جنہوں نے پاکستانی سماج کے پُر مسرت ثقافتی اور تہذیبی ڈھانچے کو اس کے ذہنی ریشوں تک ڈسٹرب کر دیا ہے، انسانی فطرت کا ہر رنگ ان کے ڈر اور جبر سے پیلا پڑ گیا، زرد ہو گیا، یوں سیاہی ہی اس کا مقدر بن گئی، جانے کیوں ان قومی مین اسٹریم کی سیاسی، مذہبی اور علاقائی جماعتوں کا وطن پر ایک احسان سا لگتا ہے، ان کے لئے سپاس گزاری کے جذبات پیدا ہوتے ہیں، گو یہ سارے زمانے کے ’’برے سہی‘‘! مزے کی بات، الم انگیز طربیہ یہ ہے، سارے جہاں کی بری عادات و اطوار، نفس پرستی، ذہنی غرور و تکبر، کلامی خودسری کے ابتذال میں ڈوبے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے بعض ناتراشیدہ کرداروں نے ان جماعتوں اور ان کے سیاستدانوں کے لئے ’’بُرے‘‘ کی اصطلاح ایجاد کی پھر بھی یہ قومی پارٹیاں، یہ قومی سیاستدان پاکستان کے سر پر ایسا سائبان ہیں جس کی چھائوں میں قتل و غارت کے ہر قسم اور ہر سطح کے عفریتوں کی موت واقع ہوتی رہی، جنہوں نے جنگ کی تباہی و بربادی کبھی نہیں دیکھی، مطالعہ بھی انہوں نے درد مندی سے نہیں اپنی اذیت پسندی کی تسکین کے لئے کیا، ان ہی دنوں جن کے پس منظر میں ایک جواں سال قلمکار چیخ اٹھا ’’ان سب کو اور برصغیر کے عوام کو ایک بار جنگ دیکھ ہی لینے دو‘‘، یہ بھی ایسی جنگ میں غرق ہو چکے ہوں گے نہ ہی غرق ہوئے تب بھی انہیں انسانیت پر جسمانی فتح اور اس کے بہتے لہو سے کم پہ اطمینان نہیں ہوتا، پاکستان میں ان میں سے ہی بلکہ یہی وہ بھی ہیں جنہیں بقول یاسر پیرزادہ کے کسی ’’خیر اندیش آمر‘‘ کی تلاش رہتی ہے، اب بھی حواس باختگی کے ساتھ ایسے ہی کسی کو ’’ڈھونڈ‘‘ رہے ہیں، طبیعت کی کیفیتیں کہاں سے کہاں پہنچ رہی ہیں، کیا سے کیا ہو رہی ہیں، ان کا بیانیہ تشکیل دینے کیلئے ایک قوس قزح کا تصور کرتے ہیں!
مثلاً 2018ء میں پاکستانی آئین کے عین مطابق، قومی انتخابات کا اعلان ہو جاتا ہے، نتائج آنے پر، سابق منتخب حکومت کی طرح اقتدار اگلی منتخب حکومت کو منتقل ہوتا ہے، وہ منتخب حکومت برسراقتدار آنے کے بعد اپنی اکثریت کے باعث، ہر منتخب جمہوری حکومتوں کا دورانیہ جاری کر دیتی ہے یعنی چار سال کے بعد عام انتخابات کرانے کا آئینی فیصلہ کر دیا جاتا ہے، ووٹ کی حرمت، آئین کی بالادستی اور جمہوری تسلسل کا یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے، چلتا رہتا ہے، دو تین دہائیاں بیت جاتی ہیں، کیا لال حویلی کا کوئی ’’بقراط‘‘ یادوں کے کسی مقبرے میں بھی موجود ہو گا؟ کیا پنجاب کی جاگیر داریاں، بلوچستان کی سرداریاں، خیبر پختونخوا کی خان خانیاں، اس شکل میں دکھائی دیں گی یا پاکستان کا جمہوری تسلسل انہیں ایک فطری توازن اور قانون کے دائرے میں دوسرے پاکستانیوں کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور نہیں کر دے گا؟ کیا پاکستان کے کسی ادارے کا کوئی فرد کسی شہری یا ریاستی اہلکار کو طاقت کی زبان سے گالی اور طاقت کے استعمال سے قلعہ بند کر سکے گا؟ کیا جمہوری تسلسل کی ان دو تین دہائیوں کے بعد ان کی سائنسی اور علمی حیثیت و ترقی ’’جعلی جمہوریت، حقیقی جمہوریت، مہاجر، غیر مہاجر، ایجنسیوں کے بادشاہوں کی داستانوں، بے صبرے دانشوروں کی کم نگاہ تحریری خون آشامیوں یا بے لگام طرز کے ٹی وی اینکر پرسنوں کے آوارہ خیالوں کا کوئی جرثومہ، کوئی نشان، کوئی نقش یا اپنے وجود کی نشاندہی کر سکے گا، یقین کر لو جمہوری تسلسل پاکستانی قوم کے سنہرے مستقبل کے لئے وقت کی ایک ایسی کدال ہے جو عام شہری کے ووٹ کے مخالف ان تمام افکار، گروہوں، دانشوروں، رنگ باز ’’سیاسیوں‘‘ کے قبرستان تیار کرتی جائے گی، مریم نواز نے بلاول کو تہنیت اور مبارکباد کا ٹویٹ نہیں کیا، پاکستان میں آئین کی حکمرانی کا سندیسہ بھیجا ہے۔
آئو، اب اپنی اس تصوراتی قوس قزح کے آخری رنگوں سے مزین تیار شدہ اور متنوع منظر کی تصویر کشی کرتے ہیں، یہ 2028ہے، لاہور کے ایک بڑے ہال میں دو بڑی قومی سیاسی جماعتوں کے لیڈروں اور کارکنوں کی آمد کا شور و غوغا برپا ہے، اسٹیج پر دونوں سیاسی جماعتوں کے دیگر رہنما ایک ہی قطار میں لگائی گئی کرسیوں پر بیٹھے ہیں، اچانک ماحول نعروں سے گونج اٹھتا ہے، مسلم لیگ ’’ن‘‘ کی قائد مریم نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو ہال کے بڑے دروازے سے اندر داخل ہو رہے ہیں۔ا سٹیج سیکرٹری اعلان کر رہا ہے سامعین اپنی اپنی سیٹوں پر تشریف رکھیں، ابھی دونوں رہنما اپنی اپنی جماعت کا انتخابی منشور آپ کی خدمت میں پیش کریں گے، اس کے بعد آپ کی جانب سے سوال و جواب ہوں گے، آخر میں دونوں لیڈر قومی مسائل پر ایک دوسرے کو براہ راست اپنے اپنے نقطہ نظر کا قائل کریں گے!‘‘
اگر 2018ءمیں پاکستان کے لیجنڈ سیاسی لیڈر ذوالفقار علی بھٹو اور عظیم چینی وزیراعظم چواین لائی کی جانب سے لال حویلی کے بقراط سے مشورے لینے کا دعویٰ شائع ہو سکتا ہے تب آئین کی بالادستی، ووٹ کی حرمت اور جمہوری تسلسل کی عظمتوں کی یہ تصوراتی قوس قزح ہماری تقدیر کیوں نہیں ہو سکتی؟

.
تازہ ترین