اسلام آباد کے روحانی قصبے گولڑہ شریف میں مقیم سید برکات احمد میرے انتہائی قابل احترام دوست تھے میرا ان سے عقیدت کا رشتہ تین دہائیوں سے بھی زائد عرصے کو محیط تھا وہ، 12؍جنوری 2015ء ماہ رواں پیر والے روز وصال فرما گئے ہیں، ان کے والد گرامی پیر سید اسرار احمد درگاہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کے متولی اعظم تھے سید اسرار احمد کو یہ منصب اپنے والد گرامی سید نثار احمدؒکے دنیا سے پردہ فرما جانے کے بعد ملا تھا۔
اجمیر سے گولڑہ شریف تک محبتوں اور عقیدتوں کی یہ کہانی بہت ایمان افروز ہے اور روح پرور بھی۔ دنیا میں بچوں کی تقسیم کا یہ پہلا واقعہ ہے، ہم نے ملکوں کا بٹوارا ہوتے دیکھا اور وراثت کی تقسیم بھی دیکھی تھی مگر کسی نے اپنے وارثوں کو تقسیم کردیا ہو یہ تعجب آمیز قصہ ہے، اسلام کے نام پر وجود میں آنے والی دنیا کی پہلی اسلامی ریاست پاکستان کے قیام کے بعد سید اسرار احمد نے اپنی اولاد تقسیم کردی تھی۔ ان کے چھ بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں چونکہ اجمیر ان کا روحانی آستانہ تھا اور پاکستان اسلامی جبکہ اسلام سارے کا سارا روحانیت ہے اس لئے انہوں نے اپنا سارا اثاثہ تبلیغ دین اسلام کے لئے برابر تقسیم کردیا تھا۔ سید اسرار احمد نے اپنے تین بیٹوں اور ایک بیٹی کو پاکستان کے لئے ہجرت کی اجازت دی تھی اور باقی اولاد ان کے ساتھ اجمیر ہی کے احاطہ چار یار میں آسودہ خاک ہوئی۔ اجمیر سے گولڑہ تک یہ دو روحانی خاندانوں کے تعلق کی داستان بھی ہے جس کے اثرات چوتھی پانچویں نسل تک پہنچ چکے ہیں۔ گولڑہ شریف کے پیر مہر علیؒ اکثر بھارت کے شہر اجمیر شریف خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ پر حاضری کے لئے جایا کرتے تھے ان کے بعد ان کے جانشین بیٹے پیر غلام محی الدین المعروف بائوجی کا بھی یہی معمول رہا یوں درگاہ کے متولی خاندان سے ملاقاتیں ہوا کرتیں جو تعلق میں ڈھل گئیں یہی وجہ تھی کہ جب سید اسرار احمد کی اولاد نے پاکستان ہجرت کی تو انہوں نے راولپنڈی کے مضافاتی علاقے گولڑہ شریف کو اپنا مسکن بنایا جو 1960ء میں اسلام آباد کا حصہ بن گیا۔ پیر مہر علیؒ کی یہ بھی روحانی کرامت، ان کا احترام اور ان کرشماتی آستانوں کا سبب ہے کہ راولپنڈی ضلع کے وہ دیہات و قصبات جو اسلام آباد کی حدود میں آئے حکومت پاکستان نے ان علاقوں کو اونے پونے داموں خرید لیا مگر گولڑہ کی حدود میں بسنے والوں کو جو جہاں تھا جیسے تھا ویسا ہی رہنے دیا کسی کو دربدر نہ کیا گیا یہی وجہ ہے کہ اسلام آباد کے بیچوں بیچ ہونے کے باوجود گولڑہ شریف آج اسی فطری ماحول سے مالا مال ہے اور یہ بات بھی کسی کرامت سے کم نہیں کہ اسلام آباد کے بسنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ سب سے زیادہ چہل پہل اور انسانی اژدھام اسلام آباد کے انہی مضافاتی علاقوں میں دیکھنے کو ملتا ہے جہاں زندگی پوری آب و تاب سے جاری و ساری ہے جہاں ہر وقت لنگر چلتے رہتے ہیں اور ہر کس و ناکس اپنے حصے اور نصیب کے لقمے لیتا دکھائی دیتا ہے جہاں کوئی فتنہ و فساد نہیں ہے نہ مذہب و مسلک کے جھگڑے نہ مسند و منبر کے آوازے یہ انسانی بستیاں ہیں یہاں صرف انسان معتبر ہے علم و نور کے یہ گہوارے دھرتی کے ماتھے کا جھومر ہیں۔ مجھے ان آستانوں سے اکثر و بیشتر نایاب مخطوطے پڑھنے کو مل جایا کرتے ہیں نعت کے ممتاز شاعر اور پیر مہر علیؒ کے پڑپوتے پیر نصیر الدین نصیر نے اپنی تمام کتابیں اپنے ایک عقیدت مند ملک مہربان کے توسط سے مجھے بھجوائی تھیں، پیر نصیر الدین نصیر عجز و انکسار کے پیکر تھے وہ جب کبھی شہر سے باہر جایا کرتے تو سید برکات احمدؒ سے ملے بغیر نہیں جاتے تھے۔ سید برکات احمد اپنے نام کے ساتھ پیر کی بجائے فقیر لکھا کرتے تھے ایک دفعہ میں سید برکات احمدؒ کے پاس بیٹھا تھا کہ پیر نصیر الدین نصیر ملنے آئے تو میں نے کہا کہ ’’فقیر کے آستانے پر پیر کی حاضری ہے یا آمد‘‘ تو نصیر الدین صاحب نے کہا کہ ’’ہماری تو حاضری ہے اگر فقیر قبول کرلے‘‘ پیر نصیر الدین نصیر شاعری اور زبان و بیان میں بشیر حسین ناظم اور سید برکات احمد سے مشاورت کیا کرتے تھے۔سید برکات احمد سے میری پہلی ملاقات 1978ء میں ہوئی تھی گولڑہ میں ہی قائم گورنمنٹ اسکول کے اس وقت کے ہیڈماسٹر سید حسین عارف نقوی ہمراہ لے کر گئے تھے، سید برکات احمد کو اردو، فارسی اور عربی زبانوں پر عبور تھا آپ 1936ء کو اجمیر شریف میں پیدا ہوئے تھے ظاہری تعلیم اسلامیہ ہائی اسکول سے اور درگاہ غریب نواز کے مدرسے معینیہ عثمانیہ سے دینی علوم حاصل کئے اور روحانی فیض اپنے والد گرامی کے دست مبارک پر بیعت ہوکر پایا جنہوں نے بیعت کے وقت تلقین کی تھی کہ ہمیشہ عبادت میں توجہ، خدا پرستی میں اخلاص، اور معاملات میں سچائی کا دامن تھامے رکھنا کیونکہ انہی خصوصیات کی بناء پر انسان میں زمین جیسی عاجزی، دریا جیسی سخاوت اور سورج جیسی شفقت پیدا ہوتی ہے۔ سید برکات احمدؒ نے تمام عمر انسان دوستی اور حب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں گزار دی، وہ اکثر ایک شعر سنایا کرتے تھے کہ ؎
کھول دیجئے کرم کا دروازہ
بارگاہوں کے در نہیں ہوتے
یہی وجہ ہے کہ ان کا دروازہ کبھی بند نہیں دیکھا تھا۔ وہ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 201 ’’ربنا آتنا فی الدنیا حسنت و فی الآخرت حسنت وقنا عذاب النار‘‘۔ پوری نہیں پڑھا کرتے تھے آخری حصہ ’’وقنا عذاب النار‘‘۔ چھوڑ دیا کرتے ایک بار پوچھنے پر انہوں نے فرمایا تھا کہ آیت کا آخری حصہ ہم فقیروں اور عاشقان رسولؐ کیلئے نہیں ہے، میں نے کہا یہ خوش فہمی بھی تو ہوسکتی ہے وہ بولے یقین کی دولت زیادہ اثر رکھتی ہے۔ سید برکات احمد کا سلسلہ نسب 25واسطوں سے خواجہ معین الدین چشتی اجمیری سے اور 37 واسطوں سے حضرت امام حسینؓ سے ملتا تھا۔
سید برکات احمدؒ نے پانچ سال قبل وصیت فرمائی تھی کہ انہیں ملتان کے چشتی چمن میں ان کے بڑے بھائی پیر سید ذوالفقار احمد چشتی کے پہلو میں دفن کیا جائے سو راجپوتانہ کے علاقے اجمیر میں پیدا ہونے والے سید برکات احمد جنہوں نے گولڑہ شریف میں وصال فرمایا انہیں 13؍جنوری 2015ء کو ملتان بوسن روڈ پر رحمٰن ٹائون میں سپرد خاک کردیا گیا جہاں آپ مسجد اور مدرسہ تعمیر کروا رہے تھے، سید برکات احمد نے 52برس کی عمر میں 1989ء میں شادی کی تھی تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے بڑے بیٹے سید شفقات احمد چشتی انٹرنیشنل اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں فقہ قانون میں ایل ایل بی کے آخری سمسٹر میں ہیں جو گولڑہ میں چشتی چمن میں سجادہ نشینی سے سرفراز ہوئے سید برکات احمد کی ایک فارسی غزل کے مطلع کے ساتھ اجازت کہ ؎
گفتم دوائے درد دل گفتا کہ دیدار من است
گفتم چرا در پردہ گفتا کہ اسرار من است