عہدِ حاضر کے معروف فکشن نگار امین معلوف نے اپنے ناول ’سمرقند‘ میں تین عظیم مسلم شخصیات اور ان کی بچپن کی، حقیقی یا فرضی، دوستی کا ذکر کیا ہے۔ عمرِ خیام ایک مشہور ہئیت دان اور ریاضی دان تھا، لیکن بعد کے زمانے میں وہ اپنی ان فارسی رباعیات کے سبب زیادہ مشہور ہوا جو وہ شاید تفریحِ طبع کے طور پر لکھتا تھا۔ نظام الملک طوسی مشہور بادشاہ الپ ارسلان کا وزیر بنا اور اس نے نظامِ ملکی پر ’سیاست نامہ ‘ جیسی اہم کتاب لکھی۔ حسن صباح نے قلعہ الموت میں ایک خطرناک گروہ حشیشین کی بنیاد ڈالی جو سیاسی اور مذہبی بنیادوں پر اپنے مخالفین کو قتل کرتے پھرتے تھے۔ تینوں ایک ہی عہد میں زندہ تھے ۔ وہ ایک ہی جماعت یا درجے میں پڑھتے تھے یا نہیں، اس بارے میں کہانی تو موجود ہے لیکن یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ البتہ یہ طے ہے کہ تینوں نے نیشاپور کے ایک ہی مدرسے سے تعلیم حاصل کی۔ میں جس بات کی جانب توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ یہ تینوں شخصیات اسلام کے تین مختلف فرقوں سے تعلق رکھتی تھیں۔ عمرِ خیام سنی تھا، نظام الملک طوسی شیعہ اور حسن بن صباح اسماعیلی۔ نیشاپور کے جس مدرسے میں یہ تینوں اکٹھے تعلیم حاصل کرتے تھے وہ امام موفّق چلاتے تھے جن کا تعلق شافعی مسلک سے تھا۔
کیا آج مختلف مسالک کے طالبِ علم ایک ہی مدرسے میں تعلیم حاصل کرنے کا سوچ بھی سکتے ہیں؟
اندلس اور مراکش سے آسام تک جس خطے میں اسلام کو فروغ حاصل ہوا اس نے ایک خاص تہذیب پیدا کی، جسے اسلامی تہذیب کہا جاتا ہے۔ دائیں بازو کے مفکر اس تہذیب پر ناز کرتے ہیں اور عام مسلمان جب نشاۃ الثانیہ کی بات کرتا ہے تو اس کا خواب یہی ہوتا ہے کہ اسلامی تہذیب کا وہ سنہرا دور پھر سے لوٹ آئے۔فقہاء، علماء اور صوفیاء نے تو لوگوں کی بڑی تعداد کو مسلمان کیا تھا، مگر اس تہذیب کی خوب صورتی اس کے فن کاروں، شاعروں، معماروں، مفکروں، سائنس دانوں، قالین بافوں، ظروف سازوں اور ہنر مندوں کی مرہونِ منت تھی۔ ان سب نے مدرسوں میں ہی تعلیم پائی تھی۔ مستثنیات تو شاید موجود ہوں، لیکن ہمارے آج کل کے مدارس نے کتنے فن کار، شاعر، معمار، مفکر، سائنس دان اور ہنرمند پیدا کیے ہیں۔ کیا یہ درست نہیں کہ ایک مدرسے میں پڑھنے والا طالبِ علم یا تو پیش امام بنتا ہے یا عربی اور دینیات کے حاصل کردہ علم کی بنیاد پر کسی یونی ورسٹی سے ڈگری حاصل کرتا ہے یا کوئی چھوٹا موٹا کام کرتا ہے۔ وہ مدارس جو اپنے معاشرے کو علماء، فقہاء اور صوفیاء کے ساتھ ساتھ فن کار، شاعر، معمار، مفکر، سائنس دان اور ہنر مند بھی فراہم کرتے تھے آج ایسے تہی دست کیوں رہ گئے؟ ماضی میں ہمارے معاشرے کے تمام سرکاری عمال، مختلف محکموں میں نچلی سے اعلیٰ ترین سطح تک پہنچنے والے افسران، سفارت کار، تجار سب جن مدارس سے پڑھ کر آتے تھے، وہ اب صرف پیش امام اور موذن ہی کیوں پیدا کر رہے ہیں۔ ان مدارس کے کارپردازوں سے کہیں کوئی غلطی تو نہیں ہو گئی؟ کیا ماضی میں کسی موقع پر وہ اپنی سمت تبدیل کر سکتے تھے؟
اسلام کے ابتدائی دور کے مدارس بالکل سادہ تھے۔ وہاں صرف قرآن و حدیث کی تعلیم دی جاتی تھی جب کہ زندگی گزارنے کے ڈھب عرب قبائل اپنے طور سے سیکھتے تھے۔ اموی اور اس کے بعد عباسی دور میں مسلمانوں کا دیگر اقوام سے رابطہ بڑھا تو ان کے علوم سے بھی رغبت پیدا ہوئی۔ یونانی زبان سے تراجم نے مسلمانوں کو فلسفے کی بھی چاٹ لگا دی۔مذہبی عقائد اور فکر کو عقل و منطق کی کسوٹی پر پرکھنے کے لیے علم الکلام سامنے آیا۔ مسیحی علماء نے اسی سے ملتے جلتے علم کا نام تھیولوجی اور سکولیسٹی سزم رکھا تھا۔
اس دور کے مسلمان ایک فاتح قوم تھے۔ لیکن یونانی اور رومی دماغوں کی تخلیقات دیکھ کر وہ متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے تھے۔ اس غیر مذہبی فکر کا اثر مسلمانوں کی مذہبی فکر پر بھی پڑا اور وہ مدارس جہاں سادہ سی تعلیم دی جاتی تھی، اب وہاں منطق اور فلسفے نے بھی بار پا لیا۔ مدارس کے نصاب میں وقتا فوقتا ہونے والی تبدیلیوں کا ایک جائزہ خود برصغیر کے مدارس کے نصاب میں ہونے والی تبدیلیوں سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔ مولانا ابوالحسنات ندوی نے اپنی کتاب ’’ہندوستان کی قدیم اسلامی درس گاہیں‘‘ میں اسلامی مدارس کے نصاب کے پانچ ادوار گنوائے ہیں۔ نصاب میں درجہ بہ درجہ تبدیلیاں کرنے والوں میں اکبری دور کے ملا فتح اللہ شیرازی اور عالم گیری دور کے ملا نظام الدّین کے نام خاص طور سے قابلِ ذکر ہیں۔ نصاب میں تبدیلیوں کی بدولت انیس سو بائیس تک آتے آتے ’معقولی علوم‘ پر مبنی کتابوں کی تعداد اکیاون ہو گئی جب کہ شرعی علوم کی کتابوں کی تعداد اٹھارہ رہ گئی۔ مگر ہم جانتے ہیں کہ اس سے پچاس برس پہلے ہی سر سید احمد خان مسلمانوں کے لیے مغرب کے ماڈل پر اسکول، کالج اور یونی ورسٹیاں بنانے کی تحریک شروع کر چکے تھے اور مسلمانوں کے بہترین دماغ اب انھی اداروں سے نکل رہے تھے۔ سانحہ یہ ہے کہ وہ مسلمان جنھوں نے اپنے عروج کے زمانے میں پیرویِ مغربی کرتے ہوئے علم الکلام ایجاد کر لیا تھا، اپنے زوال کے زمانے میں پیرویِ مغربی کرتے ہوئے سائنس اور دیگر جدید علوم کی جانب راغب نہ ہو سکے اور نصاب میں تبدیلی کی کوششوں کے باوجود مغربی ماڈل کے اسکولوں سے بہت پیچھے رہ گئے۔ وہ مستقبل جو سر سید کو صاف نظر آ رہا تھا، برصغیر کے علماء کی نظروں سے پوشیدہ رہا۔ انھوں نے اپنی تمام تر توانائیاں سرسید تحریک کی مخالفت میں صرف کیں۔ یہ اور بات ہے کہ بعد میں وہ ان اسکولوں کے نصاب میں بھی نقب لگانے میں کام یاب ہو گئے۔ لیکن یہ موضوع پھر کبھی سہی۔
اب اگر ملک میں قرونِ وسطیٰ کا نظام رائج کر دیا جائے؛ سرکاری نوکریاں اور دیگر مناصبِ معاش کے لیے عربی دانی کو شرطِ اوّل قرار دے دیا جائے، تو ان مدارس کا بول بالا ہو سکتا ہے۔علماء کے نقطہ ء نظر سے دیکھیں تو ایسی صورت میں ہمارا دین بھی بچ جائے گا۔ ہر شخص قرآن کو اس کی اصل زبان میں سمجھ سکے گا اور اسلامی تصورات اس کے دل و دماغ میں راسخ ہوں گے اور ہم سب اپنے لیے ثوابِ کثیر کا بندوبست کر سکیں گے۔ لیکن ساتھ ہی ہمیں جدید علوم اور ٹیکنالوجی کے میدان میں دنیا کی دیگر اقوام سے مقابلہ ترک کرنا ہوگا۔ اپنے پڑوسی ملک بھارت کی ترقی کو بھی ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرنا ہوگا اور اس سے دشمنی ترک کر کے اسے کہنا ہو گا کہ بھائی ہم تو اپنا دین محفوظ بنا رہے ہیں، دنیاوی ترقی تمھی کو مبارک ہو۔ اس کے ساتھ ہی ہمیں امریکا اور یورپ کو ایک روز نیچا دکھانے کا خواب بھی اپنے بستر کے سرہانے ہی چھوڑنا پڑے گا۔ اگر وہ ہم پر ظلم کریں گے تو ہم جمعے کے جمعے ان کے خلاف مظاہرہ کر لیا کریں گے اور ہمارے خودکش بم باروں کو اگر ہمارے ہی ہم وطنوں کا خون کرنے سے فراغت ملی تو ان میں سے ایک آدھ حملہ آور کبھی کبھار کسی یورپی یا امریکی شہری کو مار کر ثوابِ دارین حاصل کر سکے گا۔
لیکن اگر ہم اپنا زوال، اپنی تذلیل برداشت نہیں کر سکتے تو پھر ہمیں جدید علوم سے استفادہ کرنا ہی ہوگا۔ کیا مدارس اپنے نصاب میں سائنس اور جدید علوم کو وہی درجہ دے سکتے ہیں جو یونانی تراجم کے بعد اپنے دورِ عروج میں انھوں نے معقولی علوم کو دیا تھا؟