الحمد للہ....زندگی کا انتہائی اہم Phase بخیریت مکمل ہوا۔ تین دہائیوں سے زیادہ ملک کے اہم ترین محکموں میںکئی کٹھن مراحل اور کئی آزمائشیں اور امتحان آتے رہے مگر خالق و مالک نے ہر مرحلے پر راہنمائی کی، ہر معرکے میں مدد فرمائی اورہر امتحان میں سرخرو کیا اُسی کے فضل و کرم نے دامن کو آلائشوں سے محفو ظ رکھا اور استقامت عطا فرمائی۔ بتیس سال کی سرکاری ملازمت یا پولیس افسری کا اس طرح اختتام ہوا کہ آخری دن تک اس نا چیز پر محبتوں کی پھُوار برستی رہی، لوگوں کے دلوں میں اس نا چیز کے لئے اس قدر عزّت اور محبّت ڈال دینے والے رحمان اور رحیم کا جس قدر شکر ادا کروں کم ہے۔ مراعات یافتہ طبقے سے نکل کر عوام میں شامل ہونے کے دو تین روز بعد عام سی غیر سرکا ری کار میں اپنے گاؤں کیلئے روانہ ہوا تو ہر ٹول پلازہ پر پیسے دئیے اور جگہ جگہ رکنا پڑا.... تو اندازہ ہوا کہ عام آدمی کا کس طرح استحصال ہوتا ہے اور کس طرح قدم قدم پر روک کر اس کی عزّت ِنفس مجروح کی جاتی ہے۔ حکمران طبقہ اب سڑک کی بجائے فضاؤں میں سفر کر تا ہے اس لئے انہیںحقیقی مسائل اور مصائب کا ادراک نہیں ہے۔ شام کو گاؤں پہنچا تو والدین کی آخری آرام گاہوں پر حاضری اور دعا کے بعد چاچا خدابخش سے ملنے گیا ، پچاسی سالہ بزرگ اور علاقے کا سب سے زیرک انسان ، پلنگ سے اٹھ کر کھڑا ہو گیا.... مجھے گلے لگاکر سر چوما اور کہنے لگا ’’شاباش پُترا بَتیّ سال پہلاں جیہٹرا دیوا تیرے ہتھ پھڑا کے بھائی ہوراں تینوں ٹوریا سی اوہنوں تُوں بجھّن نئیں دِتّا۔ اَج بھائی ہوراں تے بہن ہوراں دیاں روحاں خوش ہون گیاں تے اوہناں دیاں قبراں روشن ہوں دیاں‘‘ (شاباش بیٹا ! بتیس سال پہلے بھائی صاحب(ہمارے والد صاحب) نے جو دِیا تمہارے ہاتھ میں پکڑا کر تمہیں سرکاری نوکری پر روانہ کیا تھا تم نے اسے بجھنے نہیں دیا ، آج تمہارے والد صاحب اور والدہ صاحبہ کی روحیں خوش ہوں گی اور ان کی قبریں روشنی سے منور ہوں گی۔)پھر ہمیشہ کی طرح صاحب ِ دانش نے مجھے پاس بٹھا کر دانائی کی بہت سی باتیں کیں۔بزرگ نے فرمایا ’’بیٹا سیدھی راہ پر چلنے کیلئے کچھ قربانیاں بھی دینی پڑتی ہیں لیکن وہ قربانیاں رائیگاں نہیں جاتیں مالک انہیں پسند اور قبول کر لیتا ہے ۔ ہو سکتا ہے کچھ عہدے نہ ملنے پر تمہیں ملال ہو مگر اللہ سُبحانہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ کوئی چیز تمہیںبھلی لگتی ہے مگر اللہ کی نظروں میں وہ اچھی نہیں ہوتی اورہو سکتا ہے کوئی چیز تمہاری نظروں میں ادنیٰ ہو مگر اللہ کی نظروں میں اعلیٰ ہو....حقیقت سے صرف وہی ذات آگاہ ہے جو انسانی دلوں کے راز جانتی ہے اور جس کی مرضی کے بغیر درخت کا ایک پتّہ بھی نہیں گر سکتا۔ تمہارے لئے اچھا کیا اور برا کیا ہے ، یہ تم نہیں جانتے صرف خدا کی ذات جانتی ہے۔ دنیا میں ہر انسان نے کیا کردار ادا کرنا ہے اس کا فیصلہ اللہ نے کررکھّا ہے۔‘‘’’جو انسان مالک کے ڈر سے اس کے احکامات کی خلاف ورزی سے باز رہے، مخلوقِ خدا کو انصاف دے اور اسکے لئے کسی مصلحت کو آڑے نہ آنے دے اللہ سبحانہ تعالیٰ ایسے شخص سے راضی ہو جاتے ہیں اور اپنے بندوں کے دلوں میں اس کے لئے عزّت اور محبّت ڈال دیتے ہیں۔ لیکن اعلیٰ انسان انصاف کی راہ پر عوامی مقبولیت کیلئے نہیں اللہ کی خوشنودی کیلئے قائم رہتے ہیں....مقبولیت انہیں صلِے کے طور پر عطا کی جاتی ہے.... ضمیر کا چراغ ہمیشہ جلائے رکھنا چاہیے اگر یہ چراغ بجھ جائے تو انسان کے اندر تاریکی چھا جاتی ہے.... اس کی سوچ اندھیروں میں ڈوب جاتی ہے اور وہ اپنی راہ گم کر دیتا ہے۔ ‘‘’’اعلیٰ انسان عہدوں کے پیچھے نہیں پھرتے....عہدوں کی خواہش انسان میں دنیاوی شان و شوکت اور حرص و ہوس پیدا کرتی ہے اور اللہ سے دور کر دیتی ہے....عہدے شان و شوکت اور آسائشوں کیلئے نہیں ہوتے.... یہ ایسی بھاری ذمہ داری ہے جس کے بوجھ کو محسوس کرنے والا کبھی چَین سے سو نہیں سکتا، یہ تو ایک امانت ہے اور عہدیدار امین ہے جسے ہر رات کو اپنی ذات کا تنقیدی جائزہ لینا چاہیے کہ آج میں اس امانت کے ساتھ کس حدتک انصاف کر سکا ہوں ‘‘۔’’عہدوں کی چکا چوند سے خیرہ ہو جانے والی آنکھوں کو منزل نہیں ملتی۔دولت ، عہدے یا اقتدار کا لالچ انسان کا ضمیر مردہ کر دیتا ہے وہ خوف میں مبتلا رہتا ہے ....لالچ کے باعث وہ ڈرتا رہتا ہے جس نے لالچ چھوڑ دیا وہ ان خوش نصیب انسانوں میں شامل ہو جاتا ہے جنہیں مالک نے ’’لَا خَوف‘‘ اور ’’لَا یَحْزَنُون ‘‘کی منزل میں داخل کر دیا ہے۔ حلال اور طیب رزق کھانے والے مالکِ دو جہاں کو بہت عزیز ہوتے ہیں۔ رزقِ حلال کھانے والوںکو مالک خدائی طاقتوں سے نواز دیتا ہے۔ ‘‘ پچاس سال پہلے گاؤں کی جن گلیوں اور پگڈنڈیوں پر کھیلتے اور دوڑتے ہوئے صبح و شام گزرے تھے اُنہی گلیوں میں واپسی بڑی روح پرورمحسوس ہو رہی تھی۔ گاؤں کے چوکوں، چوراہوں، کھیتوں اور کھلیانوں نے کھلی بانہوں سے استقبال کیا۔ گاؤں والوںمیں خلوص وافر اور گرمجوشی بے پناہ تھی۔ بس کمی تھی تو اُن ہاتھوں کی....جو میرے لئے دعا کیلئے اٹھتے تو دعائیں ختم نہیں ہوتی تھیں ....محرومی تھی تو اُس ہسَتی کی جو گلے لگاتی تو یوں لگتا کہ ساری ٹینشن اور سارے مصائب اُس نے اپنے دامن میں جذب کر لئے ہیں۔ وہ گھر جو والدہ صاحبہ کی موجودگی سے ہنستا ، مسکراتا اور چہچہاتا تھا اور زندگی کی رونقوں سے مالا مال تھا....ان کے نہ ہونے سے بے رونقی اور اداسی کی چادر تانے ہوئے تھا....میںصحن میں کھڑا اُن کے کمرے کا دروازہ دیر تک تکتا رہا کہ ایک رات جب میں دیر سے آیا تو وہ بیتابی سے اٹھیں اور دوڑ کر دروازہ کھولنے لگیں تو ان کا گھٹنازخمی ہو گیا ....ایک بار جب میں نے گاؤں آنے کی اطلاع دے رکھی تھی تو ساری رات صحن میں انتظار کرتے کرتے گزار دی اور سردی سے انہیں نمونیہ ہو گیا۔ وہ گھر جہاں پَر لگا کر پہنچنے کو دل کرتا تھا وہ آج ڈسرہا تھا.... جہاں سے جانے کو جی نہیںچاہتا تھا وہاں ٹھہرنے کو دل نہیں کر رہا تھا....شاید یہی ہیں زندگی کے حقائق!! توہین آمیز خاکوں کا شیطانی کھیلکیا توہین آمیز خاکے یا مضامین چھاپنے والوں کو کروڑوں مسلمانو ں کی حضرت محمد ﷺ سے بے انتہا عقیدت اور محبت کا علم نہیںہے؟ کیا انہیں مسلمانوں کے جذبات بر انگیختہ ہونے کا ادراک نہیں ہے ؟بالکل ہے اور اسی لئے تو وہ اس طرح کے شیطانی کھیل کھیلتے ہیں تاکہ مسلمانوں کے جذبات مشتعل ہوں، مشتعل نوجوان حملے کریں، کچھ لوگ قتل ہوں تاکہ وہ اسلام کے پیر کاروں پرمزید تشدد پسندی اور دہشت گردی کا لیبل لگا سکیں۔....انہیں اسلامو فوبیا کیلئے مزید تائیدی شہادتیں درکار ہیں.... فرانسیسی میڈیا میںیہ باتیں چھپ رہی ہیں کہ پیرس میں درجن بھر لوگوں کے قتل کی واردات اتنی مہارت اور درستگی (Preicsion)کے ساتھ کی گئی کہ دوران ِواردات پولیس کوبھی کانوں کان خبر نہ ہوئی یہ کیسے ممکن ہے ؟ ....دفتر کے قریب روزانہ موجود ہونے والی پولیس کی گاڑیاں کیوں غائب تھیں؟ کوئی الارم کیوں نہ بجا؟ ....پولیس نے فوری طور پر React کیوں نہ کیا ؟اور پھر ایک ملزم اپنا شناختی کارڈ بھی موقعۂ واردات پر پھینک گیا ....تاکہ پولیس کو اس کے ٹھکانے تک پہنچنے میں کوئی مشکل پیش نہ آئے، اس مضحکہ خیز کہانی پر بھی با خبرحلقے سوال اٹھا رہے ہیں !! امریکہ اور مغربی طاقتیں اس طرح کے ڈرامے کراتی ہیں جن کے رائٹر، پروڈیوسر اور ڈائریکٹر وہ خود ہی ہوتے ہیں اور اداکار آسانی سے hire کر لئے جا تے ہیں....ان کے ذریعے وہ اپنے دور رس اہداف حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آج کل ان کا پسندیدہ ہدف مسلمانوں کو دہشت گرد ثابت کرنا، اسلام کا ایک خوفناک چہرہ دکھا کر اس دین ِ فطرت کی طرف راغب ہوتے ہوئے یورپی خواتین و حضرات کو اس سے بد ظن کرنااوریورپی ممالک میں مسلمانوں پر زیادہ سے زیادہ پابندیاں لگانا ہے تاکہ وہ کہیں بھی مؤثر قوت نہ بن سکیں۔ لہٰذا دنیا بھر کے مسلمانوں کو ایسے موقعوں پر بڑی حکمت اور تدبر سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ حضرت محمد ّ ﷺ جیسی بے مثال ہستی کی توہین ممکن ہی نہیں ہے ، کائنات کے خالق اور مالک نے جسے ہدایت کا آفتاب اور جہانوں کیلئے رحمت بناکر بھیجا ہے اس کی توہین کسی کے بس میں نہیں ہے، کیاچمکتے دمکتے ہوئے آفتاب کی توہین کی جاسکتی ہے ؟ کیا رحمت کا مقام کم کیا جا سکتا ہے ؟....کیا آقائے دو جہاں ؐ کے پیروکاروں میں کمی ہوئی ؟ ہرگز نہیں !؎ چشم اقوام یہ نظارہ ابد تک دیکھےرفعت ِ شانِ رَفعنا لَک ذِکرک دیکھےاگر ایسی شیطانیت کا مظاہرہ کوئی غیر معروف سا اخبار یا رسالہ کرے تو اسے نظر انداز کر دینا چاہیے اور اگر یہ حرکت منظم طریقے سے ہو تو بڑا بھرپوراور مؤثر احتجاج ہونا چاہیے مگر ایسے نہیں جیسے ہمارے ہاں ہو تا ہے.... ناموسِ رسالت ﷺکے نام پر سیاست چمکانا بھی شرمناک فعل ہے کوئی ایک پارٹی یا گروپ اپناعلیحدہ احتجاجی جلو س ہر گز نہ نکالے، وفاقی دارلحکومت میں صدر ِ مملکت کی قیادت میں اور صوبائی دارالحکومتوں میں گورنروں کی قیادت میں اتنے بھرپور اور مؤثّر ملین مارچ ہوں جن میں لاکھوں لوگ شریک ہوں تاکہ پوری دنیا میں ان کا اثر محسوس ہو.... اس کے علاوہ : ٭ متعلقہ ملک کے سفیر کو دفتر خارجہ میں بلا کر کروڑوں مسلمانوں کے جذبات سے آگاہ کیا جائے۔ ٭ متعلقہ ملک کے سفارتخانے میں احتجاجی یادداشت پہنچائی جائے۔٭ متعلقہ ملک کی مصنوعات کا بائیکا ٹ کیا جائے اور اسلامی ممالک یو این او میں تمام مذاہب کی مقدس ہستیوں کے بارے میں قانون سازی کروائیں۔ نوٹ:پنجاب میں دوسرے صوبوں کی نسبت اگر کرائم اور امن و امان بہتر ہے تو اس کا سہرا پولیس کی ایلیٹ فورس کے سر ہے، جس کی پیشہ وارانہ صلاحیت اور استعداد ایس ایس جی کے افسروں کی ٹریننگ کے باعث فوج سے کم نہیں ۔ بلاشبہ ایلیٹ ٹریننگ سکول بیدیاںکا قیام وزیر ِ اعلی ٰ پنجاب کا ایک بڑا کارنامہ ہے۔ بد قسمتی سے تربیت کا پہلا نگران کرنل ٹریننگ کے نام پر لیا ہوا کروڑوں کا فنڈ غبن کر گیا، پھر گرفتار ہوکر جیل میں چلا گیا۔ اس کے بعد پھر ایک اور کرنل کروڑوں کا ٹیکہ لگا کر نکل گیا۔ لیکن اس تربیتی ادارے کے موجودہ نگران کرنل سعد سلیم ایک پروفیشنل سولجر ہیں۔ کرنل سعد نے (جب میں اس قابل ِ فخر فورس کا سربراہ تھا ) میرے ساتھ بھی کام کیا ہے ، بلاشبہ ان کی پیشہ وارانہ لگن اور محنت قابلِ تحسین ہے۔اسی ادارے میں چند روز قبل اینٹی ٹیرارزم فورس کی پاسنگ آؤٹ پریڈ کی تقریب منعقد ہوئی جس میں وزیراعظم مہمانِ خصوصی تھے تقریب کا اسٹیج سیکرٹری انتہائی خفیہ باتیں کل جہان کو بتاتارہا۔ وہ اعلان کرتا رہا کہ دہشت گردوں کے بارے میںمعلومات حاصل کرنے کیلئے ریڑھی والا، ملنگ بابا اور خواجہ سرا سپیشل ڈیوٹی پرہیںاور یہ سب انسداد ِ دہشت گردی فورس کے افسر ہیں.....انٹیلی جنس کے ذرائع ہمیشہ خفیہ رکھے جاتے ہیں حتیٰ کہ ان کے بارے میں عدالتیں بھی پوچھنے کی مجاز نہیں مگر اسٹیج سیکرٹری مضحکہ خیز انداز میں سب کے سامنے اس کا ڈھنڈورا پیٹتا رہا۔اس سلسلے میں VVIPs کیلئے علیحدہ بریفنگ کا اہتمام کیا جا تا ہے۔ منتظمین نے ایسی غیر پیشہ وارانہ حرکت سے نہ جانے کیوں صرف ِ نظر کیا ؟C.P.F کے فرائض اور دائرہ کار پر تفصیل سے بعد میں لکھوں گا۔