• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بھارت آبادی میں جس قدر بڑا ملک ہے، اِسی قدر اِن دنوں ہیجانی کیفیت میں مبتلا ہے اور اِس کے وزیراعظم نریندر مودی پر پاگل پن کے دورے پڑ رہے ہیں۔ وہ دراصل نہایت کٹر ہندو ہے اور ایک ایسے مہا بھارت کا خواب دیکھتا ہے جس کی سرحدیں مغرب میں افغانستان سے شروع ہو کر مشرق میں انڈونیشیا تک چلی جاتی ہیں۔ اِسی تصور کے تحت مودی نے پاکستان کو دولخت کرنے اور بنگلہ دیش کو وجود میں لانے والی دہشت گردی میں حصہ لیا تھا۔ وہ مسلمانوں کا سخت دشمن ہے اور اِس نے وزیراعلیٰ گجرات کی حیثیت سے مسلمانوں کے بہیمانہ قتلِ عام کی حوصلہ افزائی کی تھی۔ اب گزشتہ دو ماہ سے مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی کی زبردست لہر کو کچلنے کے لیے وہاں پر تعینات غاصب فوج کشمیریوں کا خون بہا رہی ہے اور پیلٹ گنوں سے بچوں، جوانوں اور عورتوں کو بینائی سے محروم کر رہی ہے۔ مقبوضہ کشمیر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے ایک بیان میں کہا ہے کہ عمر بھر کے لیے بینائی سے محروم ہو جانے والوں کی تعداد تین سو سے تجاوز کر گئی ہے۔ آزادی کا پرچم اُٹھانے والے جواں عزم نوجوان ایک ایک کر کے شہید کئے جا رہے ہیں، مگر اُن کا جوش و خروش دیدنی ہے اور وہ ہر قیمت پر بھارت کے قبضے سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ تمام غیر جانب دار مبصرین کا اِس امر پر اتفاق ہے کہ وادیٔ کشمیر بھارت کے ہاتھ سے تقریباً نکل چکی ہے، بھارتی افواج کشمیری حریت پسندوں سے خائف نظر آتی ہیں اور بھارت کے اندر سے آوازیں بلند ہو رہی ہیں کہ کشمیری عوام کو وہ حقِ خودارادیت دیا جائے جس کا اعلان اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے اپنی متفقہ قراردادوں میں کیا ہے اور تنازع کشمیر ابھی تک اقوامِ متحدہ کے ایجنڈے پر ہے۔
اقوامِ متحدہ کی کارروائیاں رپورٹ کرنے والے اور وہاں کے معاملات پر گہری نگاہ رکھنے والے ہمارے پاکستانی صحافی جناب عظیم ایم میاں نے شہادت دی ہے کہ وزیراعظم نوازشریف نے عالمی صورتِ حال اور زمینی حقائق سے وابستہ مصلحتوں کی پروا کئے بغیر مسئلہ کشمیر، کشمیریوں پر بھارتی مظالم، پاکستان کا اصولی موقف اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کے تحت اقوامِ متحدہ کی ذمہ داریوں کو بیان کرتے ہوئے وہ سب کچھ کہہ دیا جو میرے مشاہدے کے مطابق گزشتہ تیس برس کے عرصے میں کسی بھی پاکستانی صدر یا وزیراعظم نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے اتنا مفصل ذکر نہیں کیا۔ وزیراعظم کے خطاب کے اِس پہلو کو ہر جگہ سراہا گیا کہ وہ نہایت جچا تُلا، بہت باوقار اور انٹرنیشنل ہیومنٹرین لا (International Humanitarian Law)کی دفعات پر مشتمل تھا۔ اِس تقریر نے بھارتی قیادت کو سخت سیخ پا کر دیا۔ اِس سے قبل اوڑی کا واقعہ ہو چکا تھا جس کے چند گھنٹوں بعد پاکستان پر الزام دھر دیا گیا تھا۔ وزیراعظم نوازشریف نے اِس معاملے میں آزادانہ بین الاقوامی تحقیقات کا مطالبہ کیا اور اقوامِ متحدہ سے اپیل کی کہ مقبوضہ کشمیر میں حقائق کا سراغ لگانے کے لئے مشن بھیجے جو ماورائے قانون ہلاکتوں کی تحقیقات کرے اور جنگی جرائم کے مرتکب لوگوں کو قرار واقعی سزا دی جائے اور ریاست جموں و کشمیر کو غیر فوجی علاقے میں تبدیل کیا جائے۔ بھارت جس کا مکروہ چہرہ پوری دنیا کے سامنے بے نقاب ہو چکا ہے، اس کی قیادت اور اِس کے میڈیا نے جنگی جنون پیدا کر دیا ہے اور پاکستان کو سبق سکھانے کے نعرے بلند ہونے لگے ہیں۔ مودی صاحب پوری رات آپریشن روم کے اندر جنگی منصوبوں کو آخری شکل دینے میں ہمہ تن مصروف رہے۔ ایسا محسوس ہوا کہ طبلِ جنگ بجا دیا گیا ہے اور کسی بھی وقت سرجیکل اسٹرائیک کا تجربہ کیا جا سکتا ہے۔ وزیراعظم مودی انتہائی گھبراہٹ اور بدحواسی کی حالت میں پاکستان کو دنیا میں تنہا کر دینے اور سندھ طاس معاہدہ پر نظرثانی کرنے کا راگ الاپ رہے ہیں اور یہ دھمکی بھی دے رہے ہیں کہ وہ اوڑی واقعہ کا انتقام لئے بغیر چین سے نہیں بیٹھیں گے۔
بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کی جنرل اسمبلی میں تقریر بہت ہی مایوس کن تھی۔ جب انسان کے سر میں بڑی طاقت بن جانے کا سودا سمایا ہو، تو اِس کی گفتگو میں منطق ہوتی ہے نہ کوئی تاریخی صداقت۔ اُن کا جنرل اسمبلی میں کھڑے ہو کر یہ کہنا کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے، ایک طرف سفید جھوٹ بھی تھا اور دوسری طرف عالمی برادری کا منہ چڑانے کے مترادف بھی۔ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے کشمیر کو ایک تنازع قرار دیتے ہوئے کشمیری عوام کو حقِ خودارادیت عطا کیا تھا اور دنیا بھارتی وزیر خارجہ کی اِس ڈھٹائی پر حیرت زدہ رہ گئی کہ کشمیر ہمارا اٹوٹ انگ رہے گا۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی رہنماؤں نے اُن کی تقریر کا کوئی نوٹس نہیں لیا اور اوڑی حملے کے حوالے سے پاکستان کے خلاف کوئی بات نہیں کی۔ بھارت امریکی تعلقات اگرچہ جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن بگاڑ سکتے ہیں، مگر انتقام اور طیش میں دیئے ہوئے بھارتی قیادت کے بیانات اور خطے میں آویزش کو ہوا دینے والے اقدامات اِسے پے درپے نقصانات پہنچا رہے ہیں۔ بھارتی وزیراعظم کے اِس بیان سے کہ ہم سندھ طاس معاہدہ یک طرفہ طور پر ختم کر دیں گے، عالمی برادری میں بھارت ایک ایسے ناقابلِ اعتبار ملک کی سطح پر آ گیا ہے جو عالمی معاہدوں کا احترام کرتا ہے نہ کشمیریوں کے بنیادی انسانی حقوق پامال کرنے سے باز رہتا ہے۔ ہمارے مشیر خارجہ جناب سرتاج عزیز نے سندھ طاس معاہدے کی تنسیخ پر ایک نہایت مختصر اور پُرعزم بیان دیا ہے کہ ہم اِس اقدام کو اعلانِ جنگ تصور کرتے ہوئے پوری طاقت سے اپنے مفادات کا دفاع کریں گے۔ بھارت کے لیے اِس معاہدے کو ختم کرنا بہت مہنگا پڑے گا جو جنگ ستمبر 65ء، جنگ دسمبر 71ء اور معرکہ کارگل کے حادثات برداشت کر چکا ہے۔ اِس کے علاوہ جو دریا چین سے آتے ہیں، اُن پر چین سے تنازعات کھڑے ہو سکتے ہیں اور بھارت کی داخلی زرعی نظام بھی بہت بری طرح متاثر ہو گا۔
بھارت کے جنگی جنون میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کمی آ رہی ہے جس میں پاکستان کی متوازن اور محتاط روش کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ حالات کو قابو میں رکھنے کے لیے ہماری سیاسی اور عسکری قیادت پر لازم آتا ہے کہ وہ ان محاذوں پر اپنی توجہ مرکوز کئے رکھے جہاں دشمن ہم پر وار کر سکتا ہے۔ بھارت کی سرتوڑ کوشش ہو گی کہ دہشت گردی اور تخریب کاری کے ذریعے ملکی سلامتی اور سالمیت کے لیے چیلنجز پیدا کرے، سندھ طاس معاہدے کی غلط تعبیر کے ذریعے پاکستان کی زراعت کو نقصان پہنچائے، سرحد پار دہشت گردی کے نام پر ہمیں عالمی برادری میں تنہا کرنے کی کوشش کرے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے کہ بھارت خود اندرونی اور بیرونی طور پر عدم استحکام کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔ شیو سینا نے مودی پر الزام عائد کیا ہے کہ اِس کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے بھارت عالمی برادری میں تنہا ہوتا جا رہا ہے۔ اِسی طرح یوپی کے مشہور شہر الہ آباد میں کانگریس کی احتجاجی ریلی میں پاکستان زندہ باد کے نعرے لگے اور مودی کے خلاف بڑی سخت تقریریں ہوئیں۔ ایک عالم جانتا ہے کہ بھارت کے اندر ساٹھ سے زائد علیحدگی اور آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں اور خالصتان کی تحریک ازسرِنو منظم ہو رہی ہے۔ اِس اعتبار سے کسی بھی نوع کی مہم جوئی بھارت کو شدید مشکلات کی دلدل میں دھکیل دے گی۔ بھارت کے جنگی جنون نے پاکستان میں تمام سیاسی جماعتوں میں دفاعِ وطن کی تازہ روح پھونک دی ہے اور ہماری مسلح افواج پوری طرح چوکس ہیں اور پاکستان کے سپہ سالار جنرل راحیل شریف کے ایمان افروز بیانات سے قوم کے حوصلے نہایت بلند ہیں اور عالمی برادری میں پاکستان کے دوستوں میں قابلِ قدر اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ چین پاک اقتصادی راہداری میں روس، سعودی عرب، ایران اور عمان کی دلچسپی بڑھتی جا رہی ہے۔ اِن تمام خوش آئند اور مثبت پہلوؤں کے باوجود ہمیں داخلی استحکام پر غیر معمولی توجہ دینا اور قومی مفاہمت کو پروان چڑھانا ہو گا، اپنی سفارت کاری کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالنا اور سندھ طاس معاہدے کا مقدمہ عالمی عدالتِ انصاف اور دوسرے اداروں میں مؤثر طور پر لڑنے کیلئے ماہرین کی ایک ٹیم تیار کرنا ہو گی۔ اِس کے علاوہ بھارت میں اُن طبقوں کے ہاتھ مضبوط کرنا ہوں گے، امن و سلامتی کی قدروقیمت سمجھتے اور حق کا ساتھ دیتے ہیں۔ اِس مرحلے میں سول ملٹری تعلقات میں پوری ہم آہنگی ازبس ضروری ہے۔ مذاکرات کے دروازے کھولنے کے لیے بیک چینل ڈپلومیسی کی ضرورت شدت کے ساتھ محسوس کی جا رہی ہے۔


.
تازہ ترین