سی آئی اے کی تخلیق تو ظاہر ہے پنٹاگان کے ساتھ ہی ہو گئی تھی مگر رونمائی دوسری جنگِ عظیم کے اختتامی سالوں میں ہوئی ۔ دونوں جنگیں جنھیں تاریخ میں عظیم کے نام سے جاناجاتا ہے سُپر پاور کے تاج کیلئے لڑی گئیں ۔جرمنی یہ تاج برطانیہ اور فرانس کی مشترکہ ملکیت سے چھیننا چاہتا تھا۔ دوسری جنگ میںجب برطانیہ اور فرانس کو شکست نوشتہ دیوار نظر آنے لگی تو انہوں نے امریکہ سے مدد طلب کر لی ۔ نئی ٹیکنالوجی سے لیس تازہ دم امریکی فوج نے جنگ کا پانسا پلٹ دیا،جاپان کے دو شہروں پر ایٹم بم گرا کرایٹمی دہشت سے دنیا کو لرزا دیا ۔ جنگ کے دونوں فریقین کو شکست ہوئی ۔سُپر پاور کا تاج جو جنگ کا محور تھا امریکہ نے اپنے سر پر سجا لیا البتہ فرانس اور برطانیہ کو دربار میں اپنے دائیں بائیںنشستیں الاٹ کرتے ہوئے وعدہ کیا بادشاہ سلامت دنیا پر راج آپکے مشورے سے کریں گے ۔نئی سُپر پاور کے نئے ورلڈ آرڈر کے مطابق سائوتھ ایشیا اور صحرائے عرب کی تقسیم کی گئی ۔ اسرائیلی ریاست برطانیہ فرانس کی مشترکہ بادشاہت میں قائم ہو گئی تھی مگر یہ ننھی سی پری امریکہ کی نگاہِ خاص کا مرکز بنی اور شاید اسوقت تک بنی رہے جب تک تاج چھن نہ جائے یا امریکی مقاصد اس خطے میں پورے نہ ہو جائیں ۔امریکہ کے بعد روس نے بھی ایٹم بم بنا لیا ،طاقت کے زور پر ارد گرد کے ممالک پر قبضہ کرکے سوویت یونین کی تشکیل کی اور سُپر پاور میں حصہ دار بن گیا۔مشرقِ وسطیٰ کے کچھ ممالک مصری صدر جمال ناصر کی قیادت میں روسی بلاک میں شامل ہو گئے اور یوں کے جی بی اور سی آئی اے اپنے اتحادیوں کے ساتھ میدان میں اتر آئیں اور دنیا کو میدان جنگ میں تبدیل کر دیا ۔ہر نئے نظریے کی طرح کیمونزم بھی تیزی سے بھاگ رہاتھا اور کاسترو کی قیادت میں امریکہ کے ساحل کیوبا تک پہنچ گیا تو سی آئی اے نے روکنے کیلئے ویتنام کو بطور اکھاڑہ منتخب کر لیا ۔کیمونزم ایک نظریہ ہے ،نظریے کو نظریے سے ہی روکا جا سکتا ہے صرف ہتھیاروں سے نہیں ۔ سی آئی اے نے جنوبی ویتنام میںکیمونزم کے مدِ مقابل کیپیٹلزم کی دیوار کھڑی کرنے کا جنگی منصوبہ بنایا جسے امریکہ کے آئینی اداروں نے پسند نہ کیا ۔صدر آئزن ہاور نے مطلوبہ فنڈز اور مخصوص ہتھیار دینے سے انکار کر دیا ۔ سی آئی اے نے ویتنام کے ساحلوں پر کھلے سمندر میں کھڑے اپنے ہی جہازوں پر فائرنگ کرکے الزام سوویت یونین پر تھوپ کر صدر کو مطلوبہ فنڈز اور ہتھیاردینے پر مجبور کر دیا ۔کون جیتا کون ہارا یہ کالم کا موضوع نہیں مگر اس جنگ میں صرف امریکہ کے 58200 فوجی کام آئے جبکہ ویتنامیوں کی ہلاکتیں ساڑھے چار لاکھ تک ہیں ۔سی آ ئی اے کیپیٹلزم کی دیوا ر کھڑی کر چکی تو واپس آنا تھا۔ نظریاتی دیوار چونکہ نظر نہیں آتی لہذا واپسی کیلئے کسی بہانہ بازی کی ضرورت تھی، اتنی لاشوں کا جواز کہاں سے لاتے لہذا ہالی وُڈ کی مقبول اداکارہ جین فونڈا کی خدمات حاصل کیں جس نے ویتنام سے فوجیوں کی واپسی کو عوامی مطالبہ بنا دیا اور یوں سی آئی اے فوج کوعوامی مطالبے کے نام پر واپس لانے میں کامیاب ہو گئی اور عوام کو یقین دلا دیا سب کچھ آپکے حکم سے ہوتا ہے ۔ ویتنام سے امریکی افواج کی واپسی کو امریکی شکست سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ میرا سوال اگر یہ شکست تھی تو ویتنام میں کیپیٹلزم کی تعمیر شدہ دیوار جس سے کیمو نزم ٹکرا کر پھسلا اور پھر اسے اپنی جنم بھومی روس میں بھی پناہ نہ ملی کیا تھی ۔نظریاتی جنگوں کے نتائج تلوار کی جنگوں کی طرح فوری نہیں ہوتے ۔آگ پہ رکھی ہنڈیا کا پہلا ابال دیکھ کر ہنڈیا کے اندرونی حالات کی پیش گوئی نہیں کر سکتے ۔ ویتنام سے امریکی افواج کا انخلاء جاری تھی اور سی آئی اے سوویت یونین کوتوڑنے کیلئے افغانستان کے اند داخل ہو چکی تھی۔ افغان بادشاہ ظاہر شاہ کو معلوم تھا اس کے محل کے کونے کونے میں کے جی بی کے ڈیرے ہیں مگر وہ پھر بھی ڈالروں کی جھنکار سے پہلو نہ بچا سکا ۔ افغانستان میں سی آئی اے نے جنگجو بھرتی کرکے پاکستان کے اندر اتار دیئے جنھوں نے خیبر پختونخوا کے اندر سویلین اور فوجیوں کو نشانہ بنا یا اور سی آئی اے کی پروپیگنڈہ مشینری نے سوویت یونین کو موردالزام ٹھہرایا اور پروپیگنڈہ کیا کہ روس گرم پانیوں تک پہنچنے کیلئے افغانستان اور پاکستان پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔پاکستان نہ سمجھ پایا تو افغانستان کیا خاک سمجھتا۔میں یہاں 1971میں بھارتی طیارے گنگا کے اغوا کی مثال دونگا ۔کشمیری نوجوان ہاشم قریشی ایک ساتھی سمیت بھارت کا گنگا نامی طیارہ اغوا کرکے پاکستان لے آیا ۔ پی آئی اے کے چیئرمین ایئر مارشل نورخان اور سابق وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے اغوا کنندگان کا ایئر پورٹ پر استقبال کیا ہار پہنائے اور انہیں ہیرو قرار دیا ازاں بعد پتہ چلا اغوا کا ڈرامہ مشرقی پاکستان کاہوائی روٹ براستہ بھارت بلاک کرنے کیلئے بھارت نے خود رچایا تھا ۔راز اخفاء ہونے پر ظاہر شاہ کو دیس نکالا ملا ،اس کے جانشین سردار دائود بھی خود کو سی آئی ے کے ڈالروں سے نہ بچا سکے، کے جی بی نے سردار دائود سمیت پورے خاندان کو ذبح کر ڈالا ۔دائود کے جا نشین نور محمد ترکئی۔حفیظ اللہ امین کا بھی وہی حشر ہوا البتہ ببرک کارمل زندہ رہے آخری روس نواز صدر کوطالبان نے پھانسی پر لٹکا دیا۔ سوویت یونین ٹوٹ گیا ۔ سوویت یونین نے ٹوٹنا ہی تھی، اس کے اندر ٹوٹنے کے تمام عوامل پیدا ہو چکے تھے معیشت تباہ ہو چکی تھی لوگوں کے پاس بچوں کیلئے دودھ خریدنے کی سکت تک نہ تھی ۔ روسی اونٹ جس کی پیٹھ پر سارے سوویت یونین کا بوجھ تھا کی اپنی ٹانگیں کانپ رہی تھیں مگر سی آئی اے نے سوویت یونین کو توڑنے کا تاج اپنے سر پر سجانے کیلئے افغان جنگ شروع کی جس کو ایندھن پاکستان افغانستان نے فراہم کیا ۔اس جنگ کے آتش فشاں سے القاعدہ کی شکل میں ایسا لاوا ابلا جس نے ساری دنیا کو غیر محفوظ کر دیا ۔سب سے زیادہ پاکستان اور افغانستان متاثر ہوئے اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے ۔ افغانستان اور عراق سی آئی اے کی نظر التفات سے ابھی گزر رہے تھے کہ ایک سونامی کی لہر اٹھائی گئی جس نے مشرقِ وسطیٰ کو لپیٹ میں لے لیا ۔تیو نس سے مصر تک تخت اچھل گئے ، برج الٹ گئے ۔لیبیا قذافی کے دور میںدوسروں کیلئے وسیلہ رزق تھا آج لیبیا کے باشندے بے روزگارہیں پُر امن ملک خانہ جنگی کا شکارعوام پڑوسی ملکوں میں پناہ گزین ،تیل کی دولت برطانیہ فرانس منتقل ہو رہی ہے ۔یمن پر باغیوں نے قبضہ کر لیا پارلیمنٹ توڑ دی گئی ہے ہر طرف افراتفری ہے۔شام عراق کے علاقوں اور تیل ریفائنریز پر کرد، داعش ،سیریا فری آرمی اور القاعدہ کے النصرہ گروپ قابض ہیں۔یہ بساط بھی بین الاقوامی جاسوس ایجنسیوں نے بچھائی ہے ۔یہ عسکریت پسندوں کیلئے شہد کا چھتہ ہے دنیا بھر سے عسکریت پسند بھاگے چلے آ رہے ہیں جو ایک دوسرے کو مار رہے ہیں ۔ داعش کی بربریت اور کامیابیوں سے دنیا کو خوفزدہ کیا گیا اور خود غیر قانونی تیل کی لوٹ سیل سے مستفید ہوتے رہے۔ سستے تیل سے روس وینزویلا اور ایران کی معیشتیں زلزلوں کی زد میں آ چکی ہیں ۔ عسکریت پسندوں کے چھتے کے ارد گرد اسی ہزار نیٹو افواج سے ایک دائرہ بنایا جا رہاہے تاکہ شہد کے چھتے کو عسکریت پسندوں کا قبرستان بنا دیا جائے ۔ امریکی وزیر دفاع چک ہیگل کا تازہ بیان نیٹو افواج دنیا کو امن کی آماجگاہ بنا دیں گی اسی طرف اشارہ ہے۔ میں پھر کہونگا دنیا ہے تما شاگاہ سی آئی اے کے آگے۔