• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا ’’پیپلزپارٹی متحدہے ، قیادت کے خلاف باتیں کرنےوالے پارٹی کے دوست نہیں۔‘‘ پارٹی پر تنقیدکرنےوالوںکو بلاول نے جواباً ان الفاظ میں مخاطب کیا: ’’یو بروٹس! تم سے تویہ امید نہیںتھی۔‘‘ واضح طور پراشارہ سندھ کے سابق وزیرداخلہ اور پارٹی کےسینئر رہنماذوالفقارمرزا کی طر ف کیاگیاہے۔
پاکستان پیپلزپارٹی کسی بیرونی طوفان کی زدمیں نہیں، اس عہد میں اس کا سارا معاملہ اندرونی بحرانوںسے متعلق ہے۔ پاکستان کی سب سے بڑی اور سب سے موثر عوامی، نظریاتی اور سیاسی جماعت ہونے کے ناتےاس کے معاملات پر پاکستانیوں کی توجہ مرکوز رہتی ہے،مخالف دانشوروں کےذہنی دال دلیہ کےلئے تازہ خوراک فراہم ہوجاتی ہے۔ اخبارات و برقی میڈیاکےروزمرہ موضوعات کے تن مردہ میں عارضی طورپرجان پڑ جاتی ہے۔ پاکستان کےقومی میڈیاکاایک حصہ منفی جرنلزم کے سہارے زندہ و تابندہ رہا ہے، پاکستان پیپلزپارٹی اس حوالےسے اس کامرغوب ترین ہدف کہی جاسکتی ہے!
ذوالفقار مرزاصاحب کے الزامات کے لئے تجزیاتی ترازو ہاتھ میں لینے سے پہلے، انصاف کے فطری تقاضوں کے تحت ان کی تنقیدی چار ج شیٹ کا تذکرہ آن ریکارڈ رکھا جانا چاہئے۔ مرزا صاحب کاکہنا ہے: ’’آصف زرداری سندھ حکومت اور پارٹی کو کاروبار کی طرح چلا رہے ہیں، بلاول بھٹو دلبرداشتہ ہو کر لندن جا بیٹھے ہیں، ان کوسندھ میںگورننس پر تحفظات ہیں، میرے لیڈر صرف بلاول بھٹو ہیں، چند چمچے بلاول کو سیاست کرنےسےروک رہےہیں، لندن میں ان سے ملاقات کی کوشش کروںگا۔ پارٹی اور سندھ میں ’’ون مین شو‘‘ چل رہاہے، اس شخص کا نام آصف علی زرداری ہے جس کو صرف اپنا کاروبار عزیزہے۔ زرداری ہر منافع بخش کاروبارکو اپنی ملکیت بنانا چاہتے ہیں۔ بینظیرشہید نےاپناخون اس لئے نہیں بہایا کہ چند لوگ کروڑ پتی سے ارب پتی اور ارب پتی سے کھرب پتی ہوجائیں۔‘‘ ذوالفقارمرزا نے کہا : ’’کچھ چمچوں نے گروپ بنا کر بلاول بھٹو کوپارٹی سےدور کردیا ہے۔ بینظیر بھٹو نے سانحہ کارساز کے بعد چودھری پرویز الٰہی اور دیگر کو نامزد کیا تھا۔ چودھری پرویز الٰہی کے خلاف ایف آئی آر درج ہوئی تو مجھے زرداری نے فون پرکہا’’تم میری مفاہمت کی پالیسی کو نقصان پہنچارہےہو۔‘‘ بینظیربھٹو شہید کاخون سستا بیچاجارہا ہے۔ فریال تالپور کا نوکراپنی مرضی سے لوگوںکونوکریوں پرلگوا تا ہے۔ جلد ہی اپنی کتاب میں بہت سے رازوں سے پردہ اٹھائوںگا۔ سندھ میںایک کشمیری کو 18,17شوگر ملیں لگوادی گئیں۔ لوگوں کو بلیک میل کرکے شوگرملیںلے لی گئیں۔ شوگرملوں پرایک ہی شخص کی اجارہ داری کروادی گئی۔ صدارتی آفس سےخط جاری کرکے شوگر بروکروںکو روکا گیا۔ انورمجیدکی شوگرملوں کوسندھ بنک فنانس کرتاہے۔ ہوسکتاہے زرداری کو مجبور کرنےکےلئے انور مجید کے پاس جادو کی چھڑی ہو۔ آصف زرداری انور مجید کی وجہ سے اپنے لاڈلے بیٹے بلاول کو بھول گئے ۔ اپنے 42سالہ دوست کوبھول گئے۔ کوئی ٹرالی کسی شوگر مل کوجارہی ہو وہ انورمجید کی شوگرمل کو بھجوا دی جاتی ہے۔ میںنےیہ سب کچھ دیکھا ہے ۔ میںان چیزوں کاچشم دیدگواہ ہوں۔ دیوان یوسف سے پوچھیں، ان کی شوگر ملیں کس طرح ہتھیائی گئیں۔اب ان کی سیمنٹ فیکٹریوںپر نظر ہے۔ بلاول بھٹونے مجھ سےکہا ’’آپ نےپارٹی کی پالیسی سے منہ کیوںموڑا؟‘‘ میں نے جواب دیا:’’ بی بی قاتلوں اور مجرموں سے مفاہمت کے حق میں نہیں تھیں۔ مجھے دیوار سے لگا دیاگیاہے۔ میرے ملازموں سے میری بے عزتی کروائی گئی۔‘‘ اللہ عزیر بلوچ کو سچ بولنے کی ہمت دے۔ میرا عزیر بلوچ سے صرف وزیرداخلہ کی حیثیت سے تعلق تھا۔ میں نے عزیر بلوچ سمیت پورے سندھ میں اسلحہ دیا، پونے تین لاکھ اسلحہ لائسنس درخواستیںدی گئیں، ڈیڑھ لاکھ جاری ہوئے۔ آصف زرداری اور میں ایک دوسرے کو اندر باہر سےجتنا جانتے ہیں ہماری بیویاں بھی نہیں جانتیں۔ میں زرداری کادشمن نہیں لیکن وہ مجھے آئی ایس آئی کا طعنہ دیتے ہیں۔ کیا وہ بھول گئے ہیں ان کی وجہ سے میں چرس اوردوسرے جھوٹے کیسوں میں پھنسایا گیااور 12 سال روپوش رہا۔‘‘
ذوالفقار مرزا صاحب کی چارج شیٹ کے تمام بنیادی نکات مکمل غیرجانبداری کے ساتھ آپ کی خدمت میں پیش کردیئے گئے ہیں۔ ترتیب وار ان سب کاجواب دینے سے پہلے یا ان نکات کے حوالے سے پیداشدہ بعض سوالات سے قبل پاکستان پیپلزپارٹی کے تناظر میں فی نفسہٖ ذوالفقارمرزا صاحب کے سیاسی و سماجی کیریئر کے بارے میں معلومات اورحالات سے باخبر ہونا ہر پاکستانی کا استحقاق ہے۔ جس شخص اوراس کے حامیوں کو مرزا صاحب نےاپنی چارج شیٹ کا ہدف بنایا ہے، ان معلومات اور حالات کی رو سے اس کی پوزیشن کا پتہ بھی چل سکتا ہے جس سے غیرجانبداری کامعیار شک و شبہ سے بالاتر ہوجائے گا۔
پارٹی کے سینئررہنمااور پارٹی کی جانب سے سندھ یعنی صوبائی اوروفاقی ایوان ہائے اقتدار کی لذتوںاور سرشاریوں سے سو فیصد لطف اندوز ہوتے رہے۔ چارپانچ برس پہلے جب انہوں نے حلفاً الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے خلاف پرزور اور پرشور مہم شروع کی، اس مہم کے دوران میں ان کاایک جملہ ٔ معترضہ یہ بھی تھا: ’’یہ جو میں نے شرٹ (قمیص) پہن رکھی ہے یہ بھی آصف زرداری کی ہے‘‘ ان کا مقصدآصف علی زرداری کی عظمت ِ دوستی کے چرنوں میں، کم از کم گلاب کے پھول پیش کرنا تھا۔ خیر، اس جملہ ٔ معترضہ کے بعدآگے چلتے ہیں۔
الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے خلاف محاذآرائی میں ان کی جارحانہ سیاسی پیش قدمی نے پیپلزپارٹی کی حکومت کو کنارے پر لاکھڑا کیا چنانچہ وزیراعلیٰ کو انہیںطویل رخصت پر بھیجنا پڑا۔ ریاست کی باگ ڈور کے مراحل سیدھی اخلاقیات کے بجائے پیچیدہ اخلاقیات اورمصلحت پسند دنیا پرستی کی راہوں سے گزرتے ہیں اس لئے اس وقت پارٹی قیادت کو مرزا صاحب کے معاملے میں ایسے فیصلے کرنے پڑے، بایں ہمہ ان کا دامن دوسرے دنیاوی فوائداور جاہ و جلال کے تحفوں سے بھر دیاگیا۔ وہ تو طویل رخصت پر بھیج دیئے گئے، اپنی صوبائی وزارت ِ داخلہ سے بھی ازخود مستعفی ہوگئے مگرپیپلزپارٹی نے ان کی خالی کردہ نشست کے ضمنی انتخابات میںان کے صاحبزادے ہی کو ٹکٹ سے نوازا۔
2008 کے عام قومی انتخابات کے بعد پاکستان پیپلزپارٹی نے حکمرانی سنبھالی، ان کی بیگم فہمیدہ مرزا صاحبہ کو قومی اسمبلی کی اسپیکر منتخب کرایا۔ ان کے آبائی صوبے کے روایتی کلچر کی تاریخ میںفہمیدہ مرزا صاحبہ کایہ منصب ان کے لئے ہی نہیں مرزاصاحب کی آئندہ نسلوں میں بطور فخر و افتخار سرسراتا رہے گا۔ فہمیدہ مرزا صاحبہ بلاشبہ ایک باوقار معتبر شخصیت ہیں۔ انہوں نے بطور اسپیکر قومی اسمبلی ایوان کو بے حد متوازن رکھ رکھائو اور نظم و ضبط سے چلایا۔ وہ پوری طرح اس عہدہ ٔ جلیلہ کی اہل ثابت ہوئیں۔
لیکن ان کا تعلق اپنی قومی اسپیکرشپ کے اس دورانیے میںان مفادات و مراعات سے خود کو لدا پھندا رکھنے سے بھی ہے جن تک ان کی رسائی تھی۔ انہو ںنے اس میں شمّہ برابر گریز، کمی یا اعراض کو اپنے قریب تک نہ پھٹکنے دیا۔ حکمران کلب کی بنیادی رکن ہونے کے طفیل اپنے شوہر کے ذمہ کروڑوںکے بنک قرضہ جات معاف کرائے، بیرون ملک علاج اسی پیپلزپارٹی کی حکومت کا صدقہ تھا، حکومت کی مدت پوری ہونے سے پہلے پہلے بطور اسپیکر اپنے لئے ایسی قانونی مراعات اور مفادات منظور کرائے جن کی تفصیل نظروں کو خیرہ اوردماغ کو سن کردیتی ہے۔ مرزاصاحب کہتے ہیں:’’پیپلزپارٹی کسی کے باپ کی جاگیر نہیں‘‘ لیکن پیپلزپارٹی ،اپنی ساخت اور معنویت کےاندر کسی فردکی غلام بھی نہیں۔مثالیںدسیوں ہیں، تازہ ترین ماضی قریب کے ناہید خان اورصفدر عباسی کا ذکر کیا جاسکتا ہے۔ وہ کہاں ہیں؟ کون ہیں؟ کیاکر رہے ہیں؟ شاہ محمود قریشی کا خاکسار کی تحریروںمیں ہمیشہ حوالہ موجود ہوتا ہے۔ انتظار کریںوہ وقت کی سیاسی کوکھ میں عبرت سرائے جہاں کی سسکتی دنیاوی نوحہ خوانی ہوںگے!
ابھی گفتگو ختم نہیں ہوئی، اس لئے جاری رہے گی!
تازہ ترین