• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کمال کا ملک ہے پاکستان۔ کرکٹ کی دنیا میں اپنی جس خوبی کی وجہ سے مشہور ہے اُسی وجہ سے بدنام بھی ہے۔ اور وہ یہ کہ اس کے بارے میں کوئی یقین سے نہیں کہہ سکتا۔ جیتنے پر آئے گا تو دنیا دنگ رہ جائے گی۔ ہارے گا تو ایسے ایسے پینترے بدلے گا کہ بڑے بڑے ماہر بھی پیشن گوئی نہیں کرسکتے۔رہ گئے سٹّے بازتو کچھ کہنا مشکل ہے۔ ہم تو اس زمانے سے دیکھ رہے ہیں جب دیکھنے کی سعادت نصیب نہیں تھی۔ لوگ ریڈیو پر سنا کرتے تھے، وہ بھی انگریزی میں عمر قریشی کی کمنٹری کو یہ کمال حاصل تھا کہ دور دراز گاؤں اور دیہات میں وہ متوالے بھی جنہیں اے کے نام بی بھی نہیں آتا تھا ، کمنٹری کے سارے داؤ پیچ خوب خوب سمجھتے تھے۔ تین لفظ تو ہر ایک سمجھ لیتا تھا: سکسر(چھکّا)، فور (چوکّا) اور آوٹ۔ان پڑھ لوگ ایک ایک لفظ سے اپنا مطلب نکال لیتے تھے، اٹھ کر ناچ بھی لیتے تھے اور مناسب ہو تو ان کے منہ بھی لٹک جاتے تھے۔ ہوتے ہوتے لوگوں کو کرکٹ کی انگریزی کمنٹری کے جملے اور فقرے تک یاد ہو گئے تھے اور مزاحیہ پروگرام پیش کرنے والے اس خوبی سے کمنٹری کرتے تھے کہ ان کی بات پر یقین آنے لگتا تھا۔ کیسی قدرومنزلت تھی ریڈیو کی اُن دنوں ۔ اور کمال کی بات یہ ہے کہ آگے چل کر جب آنکھوں دیکھا حال اردو میں نشر ہونے لگا تو احساس ہوا کہ کمنٹری کا لطف ہی جاتا رہا۔ ان ہی دنوں ٹیلی وژن آگیا۔ خدا بھلا کرے ان بلیک اینڈ وہائٹ روسی ٹی وی کا کہ کرکٹ سننے کا رواج رخصت ہوا اور ہماری نئی نسل نے کرکٹ دیکھنی شروع کی۔ نئی نسل کی تو بات ہی کیا ہے۔ پہلے پہل تختی اور ٹینس کی گیند سے کھیلی۔ پھر سستے بلّے اور اسٹمپ ملنے لگے۔ لڑکے لیگ بریک اور آف بریک کی تمیز جان گئے۔ مجھے اپنا زمانہ یاد ہے۔ ناظم آباد نیا نیا آباد ہو ا تھا۔ زیادہ تر پلاٹ خالی پڑے تھے۔ ان میں کرکٹ کے میدان سجنے لگے۔ فاسٹ بولنگ ہونے لگی۔لڑکے فیلڈنگ کے گُر سیکھ گئے اور کہیں کہیں تو امپائر بھی کھڑے کئے جانے لگے۔ وہ غریب بھی محلے کے لڑکے ہی ہوتے تھے، کھلاڑیوں کو ان کا فیصلہ پسند نہ آئے تو غریب مار بھی کھاتے تھے۔
وہ دن کون بھول سکتا ہے جب پاکستان کی اننگ شروع کرنے کےلئے ہاتھوں میں بیٹ تھامے پویلین کی سیڑھیوں سے حنیف محمد اور علیم الدین میدان میں اترا کرتے تھے۔ چھوٹے سے حنیف جو قدو قامت اور عمر دونوں میں اتنے چھوٹے تھے کہ دنیاانہیں لٹل ماسٹر کے نام سے پکارنے لگی۔ میدان کے ایک سرے کو علیم سنبھال لیتے تھے اورجم کر کھڑے ہوتے تھے ۔ یوں لگتا تھا کہ اپنی دو ٹانگوں پر نہیں ، دو ستونوں پر کھڑے ہیں۔ مجھے اوول کے ٹیسٹ میچ کی نیوز ریل یاد ہے جس میں تبصرہ کرنے والے نے علیم کے فُٹ ورک کی تعریف کی تھی۔ ادھر حنیف کو تو قدرت نے میچ اوپن کرنے کے لئے بنایا تھا۔ ایک بار جو کھیلنے پرآئے تو تین سو سے زیاد ہ رن بنا کر لوٹے۔ علیم زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے لیکن انہیں پی آئی اے نے طویل عرصے ملازم رکھا۔ اکثر لندن کے ہوائی اڈے پر ڈیوٹی دیتے نظر آتے تھے اور میں سوچا کرتا تھا کہ کتنا عظیم اوپننگ بیٹس مین ہے۔ آخر اسی شہر میں وفات پائی۔ حنیف خیر سے کراچی میں آباد ہیں لیکن ان کی صحت کے بارے میں تشویشناک خبریں آتی رہتی ہیں۔ ان کے بھائیوں اور بچوں نے بھی کرکٹ میں شہرت پائی۔
شروع زمانے کے بیٹس مین کا ذکر وقار حسن کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا۔ انگریزی زبان کا لفظ ’ اسٹائلش‘ ان ہی کےلئے بنا تھا۔ اس ادا سے بیٹنگ کرتے تھے کہ کاش اس وقت ٹیلی وژن ہوتا تو دنیا ان کے کمالات دیکھتی۔ ہر بار جو بیٹ گھماتے تھے تو لگتا تھا کوئی مصور اپنے برش سے اسٹروک لگا رہا ہے۔خود بھی خوبرو تھے اور مجھے یاد ہے، اتنی ہی خوش شکل خاتون سے ان کی شادی ہوئی تھی۔ خیر سے دونوں ہمارے ہی آس پاس کہیں موجود ہیں لیکن نظر نہیں آتے۔ مگرجو کھلاڑی بعد میں نظر آتا رہا اور جو خوب رو ہونے میں وقار حسن سے کم نہ تھا وہ ہمارے عظیم بولر فضل محمودتھے۔ کرکٹر نہ ہوتے تو فلمی ہیرو ہوتے لیکن جہاں وہ صحیح معنوں میں ہیرو بنے وہ فلم کا نہیں، لندن میں اوول کا میدان تھا جہاں ایم سی سی کے مقابلے میں فضل محمود نے ننانوے رنز دے کر بارہ وکٹیں لیں اور برطانیہ کی تاریخ میں کسی ٹیم نے اپنے پہلے دورے میں اسے شکست دی۔یہاں ایک اور بہت بڑا اسٹائلش بیٹس مین نذر محمد بھی یاد آتا ہے۔ وہ کسی حادثے میں ہاتھ پاؤں تڑوا بیٹھے ورنہ پاکستانی کرکٹ میں بڑا نام اور اونچا مقام پاتے۔ قوم کو اپنی ٹیم پر اعتماد عطا کرنے میں اُس شاندار دور کے وکٹ کیپر اور ہٹ لگانے والے کھلاڑی امتیاز احمد بہت یاد رہیں گے۔ وکٹوں کے پیچھے یوں کھڑے ہوتے تھے کہ شاید ہی کسی بال کو بچ کر نکلنے کی مہلت ملتی ہوگی۔ اور وکٹوں کے آگے ان کا انداز بھلائے نہیں بھولتا۔ پہلے تو بازو کھولتے، پھر پورے میدان پر اپنی حکمرانی قائم کرتے اور جب اچھی طرح جم جاتے پھر جب ایک گھٹنا ٹیک کر جو سوئپ کرتے تو پوری فیلڈ گھوم جاتی۔امیتاز اور فضل محمود بڑھاپے تک نظر آتے رہے اور پھر وہی ہوا جو ہو کر رہنا ہے، نظر آنا بند ہو گئے۔
اب رہ گئے اس سنہری دور کے کپتان عبدالحفیظ کاردار۔انہیں قدرت نے صرف اور صرف کپتانی کے لئے پیدا کیا تھا۔ وہ لوگ جو اپنے اصول کے لوگ کہلاتے ہیں، کاردار ان ہی میں سے تھے۔ بنے بنائے انگریز۔ قاعدے قانون کے آدمی۔ ٹیم میں ڈسپلن ۔ اتحاد اور اتفاق۔کوئی بے قاعدگی نہیں۔ ٹیم کو یوں ساتھ لے کر چلتے تھے جیسے مرغی اپنے چوزوں پر نگاہ رکھتی ہے۔ میں نے ایک بار انہیں کراچی اسٹیڈیم میں کھیلتے ہوئے دیکھا۔ شاید آسٹریلیا کے خلاف میچ تھا اور ہمارے شروع کے کھلاڑی کوئی بڑا اسکور نہیں کر سکے تھے۔ اس وقت کاردار کھیلنے آئے۔ ان کے ساتھ اپنے وقت کے آل راؤنڈرامیر الٰہی تھے۔ پھر جو ہوا وہ کسی کمال سے کم نہ تھا۔ اب جو رنز پر رنز بننا شروع ہوئے تو میدان میں بھگدڑ مچ گئی۔ ریڈیو پر کمنٹری جاری تھی۔ اس وقت لوگ چھوٹے ریڈیو ساتھ لانے لگے تھے۔ ہر طرف وہی آواز گونج رہی تھی۔ یہ تو خیر اسٹیڈیم کی بات ہے، ادھر پورے کراچی شہر میں ریڈیو اپنی پوری آب و تاب سے کمنٹری کی جھڑی لگائے ہوئے تھا۔ اتنے میں دیکھا کہ لوگ کاروں میں یا موٹر سائیکلوں پر بیٹھ کر اسٹیڈیم پہنچنے لگے اور مجمع بڑھتا گیا ۔ ادھر کاردار اور امیر الٰہی اپنی بیٹنگ سے میدان کو روند رہے تھے۔ آخر پاکستان فتح یاب ہوا۔ ان دنوں بھنگڑے ڈالنے کا رواج کم تھا مگر لوگ ناچے بہت۔ ایسے منظر نصیبوں ہی سے ملتے ہیں دیکھنے کو۔ عجب بات یہ ہے کہ یہ دونوں یعنی کاردار اور امیر الٰہی اور گل محمدتین ایسے کھلاڑی ہیں جوتقسیم سے پہلے انڈیا کی طرف سے بھی کھیل چکے تھے۔ عبدالحفیظ کاردار کو بجا طور پر پاکستان کا بابائے کرکٹ تسلیم کیا جاتا ہے۔
بہت یاد رہیں گے وہ دن۔ پانچ پانچ دن کے ٹیسٹ میچ ہوتے تھے اور وہ پانچ دن پور ے پورے گھرانے ریڈیو کے آگے گزارتے تھے۔ اس وقت بھی سب سے بڑا حریف ہندوستان ہی تھا۔ اس کے نام ور کھلاڑی ہمارے لئے اجنبی نہیں رہے تھے۔ ان میں سے بعض کا بڑا رعب تھا لیکن ان کے آگے مجھے یقین ہے ہمارے کھلاڑیوں کی ٹانگیں نہیں کانپتی تھیں۔ ہم بارہا ہارے مگر جب جیتے تو کتنے ہی ریکارڈ قائم کر کے جیتے۔ دعائیں ہم ان دنوں بھی مانگتے تھے۔ منّتوں اور مرادوں پر بھی کبھی کبھی ایمان لے آتے تھے۔ رہ گئے ٹوٹکے، وہ تو ہمارا معمول بن گئے تھے۔ ایک بار دلّی میں ٹیسٹ میچ تھا اور معرکے کا رن پڑا تھا۔ ہندوستان کے کھلاڑی آؤٹ ہونے پر تیار نہ تھے۔ اتنے میں میرے ایک بڑے بھائی نے اٹھ کر سامنے والی کوٹھڑی کو تالا لگایا۔ تالے میں چابی گھمانے کی دیر تھی کہ کوئی بہت ہی بڑی بھارتی وکٹ گری اور اس کا گرنا تھا کہ ہم سب بھی سجدے میں گرے۔ بس پھر تو غضب ہوگیا۔ جب کوئی مخالف کھلاڑی میدان میں جم جاتا، بڑے بھائی اٹھ کر کوٹھڑی کو تالا لگادیتے۔ نہ پوچھئے ۔ اس کے بعد ہندوستان کی وکٹیں یوں گریں جیسے ماچس کی تیلیاں۔ خدا کی پناہ۔
اب ایک آخری بات۔ ان دنوں ہم ہارنے پر روتے نہیں تھے۔
تازہ ترین