سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور کے بعد ملک میں دہشت گردی اور انتہاء پسندی کو روکنے کےلئے قومی ایکشن پلان کے تحت پاکستان میں دینی مدارس کے نصاب اور رجسٹریشن کے عمل پر از سر نو غور کرنے کا پروگرام بنا ۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کہتے ہیں کہ دس فیصد مدارس دہشت گردی اور انتہا پسندی میں ملوث ہیں تاہم انہوں نے آج تک ان مدارس کی نشاندہی نہیں کی ۔وزارت داخلہ نے وزارت مذہبی امور کے سیکرٹری کو یہ ٹاسک دیا ہے کہ وہ 2010میں حکومت اور پانچ وفاق ہائے مدارس کے درمیان طے پائے جانے والے تحریری معاہدہ کے مطابق تجاویز حاصل کرے ۔ اس کام کے لئے سیکرٹری مذہبی امور سہیل عامر نے تین سب کمیٹیاں تشکیل دینے کے بعد سب کو الگ لگ تجاویز مرتب کرنے کا ٹاسک دیا ۔وزارت مذہبی امور کے تین جوائنٹ سیکریٹریز کو کمیٹیوں کا چئیرمین مقرر کیا گیا ۔تینوں کمیٹیوں کے اراکین میں چاروں صوبوں کے اوقاف اوروزارت تعلیم کے نمائندے ، ہائر ایجوکیشن ،اسٹیٹ بنک ، اے جی پی آر ، وفاقی وزارت تعلیم و فنی کے ایڈیشنل سیکریٹری ، پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے چیئرمین اور اتحاد تنظیمات مدارس کے دو ذمہ داران کو بھی دعوت دی گئی تھی مگر تینوں اجلاسوں میں اتحاد تنظیمات مدارس کے نمائندوں نے شر کت نہیں کی ۔ وزارت مذہبی امور نے 18 فروری کو اس حوالے سے پھر ایک اہم اجلاس طلب کیا جس میں پانچوں وفاق ہائے مدارس کے نمائندوں نے شرکت کی جس میں ہماری اطلاع کے مطابق بڑی حد تک اتفاق ہو چکا ہے تاہم مشاور ت کا سلسلہ ابھی جاری ہے ۔ پاکستان میں ایسے سینکڑوں مدارس موجود ہیں جو ان پانچ وفاق ہائے مدارس کے ساتھ ملحق نہیں ہیں ، بلکہ ان کے اپنے نیٹ ورک اور سیٹ اپ بنے ہوئے ہیں ۔تبلیغی جماعت کے دینی مدارس کا اپنا ایک مکمل نظام موجود ہے ،اسی طرح مولانا طارق جمیل کی سرپرستی میں الگ سے مدارس چل رہے ہیں ۔ ڈاکٹر اسرار احمدؒ کا اپنا ایک سیٹ اپ موجود ہے ، ڈاکٹر طاہر القادری کے ادارہ منہاج القرآن کے تحت کئی جامعات ،مدارس اور اسکول چل رہے ہیں ۔ پیر سید کرم شاہ الازہری ؒ کا جامعہ محمدیہ غوثیہ بھیرہ شریف موجود ہے جس کے ساتھ کئی مدارس کا الحاق ہے۔اسی طرح ڈاکٹر فرحت ہاشمی کا ادارہ الہدیٰ کئی شہروں میں موجود ہے ۔گولڑہ شریف ،بھیرہ شریف ،موہڑہ شریف ،عیدگاہ شریف ، مانکی شریف میں خانقاہوں کے ساتھ دینی مدارس موجود ہیں ۔ ان میں بعض مدارس کا نظام اور معیار اتنا بلند ہے کہ بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی اور جامعہ الازہر کے ساتھ ان کا الحاق موجود ہے ۔ 2010میں پانچ وفاقوں کا حکومت کے ساتھ جو معاہدہ ہوا تھا ،اس تحریری معاہدے میں بھی ان مدارس کے نمائندوں کو نظر انداز کیا گیا تھا ۔ حکومت دینی مدارس کی ایک ایسی تنظیم (اتحاد تنظیمات مدارس )کے ساتھ مذاکرات کر رہی ہے جو کسی فورم پر رجسٹرڈ ہی نہیں ہے اور اس بات کا امکان موجود ہے کہ غیر رجسٹرڈ تنظیم کے ساتھ مذاکرات اور نتائج کی قانونی حیثیت کیا ہوگی ؟ اتحاد تنظیمات مدارس کوئی نصابی تنظیم نہیں ،یہ مشرف دور میں دینی مدارس کے حوالے سے حکومتی مؤقف کی مزاحمت کے لئے تشکیل دیا گیا ایک سیاسی فورم تھا ۔تیسری اہم بات یہ ہے کہ وفاق المدارس العربیہ جو دیوبندی مسلک کے مدارس کا امتحانی بورڈ ہے ،اس کے انتخابات نہیں ہوئے اور موجودہ نظم عبوری ہے ۔اسی طرح تنظیم المدارس جو بریلوی مکتب فکر کے مدارس کا امتحانی بورڈ ہے ،اس کے نظم کے خلاف تنظیم المدارس کے علماء،ناظمین اور مدرسین نے عدالت میں رٹ دائرکی ہوئی ہے ۔ اس طرح دو بڑے وفاقوں کا قابل اعتراض نظم کیسے دینی مدارس کو فیصلوں کا پابند کر سکتا ہے ؟
وفاق المدارس کی شوریٰ کے رکن اور مجلس صوت اسلام پاکستان کے چئیرمین مفتی ابو ہریرہ محی الدین کہتے ہیں کہ دینی مدارس میں اصلاحات ، رجسٹریشن اور تمام مدارس کی مکمل معلومات وقت کا تقاضا ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت مختلف مدارس کے وفاقوں کو بورڈ کا درجہ دینے کے بجائے اپنی نگرانی میں ایک ریگولیٹری اتھارٹی تشکیل دے جس کی ذمہ داری پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے حوالے کی جائے جو پہلے سے موجود ہے ۔مفتی ابو ہریرہ محی الدین نے کہا کہ حکومت فرقہ وارانہ بنیادوں پر دینی مدارس کے بورڈ ز قائم کرکے ملک میں فرقہ وارانہ کشیدگی کو مزید ہوا دینے کا سبب نہ بنے۔انہوں نے کہا کہ وفاق المدارس کی عبوری باڈی سے معاملات طے کر نے کے بجائے انتخابات کا انتظار کیا جائے ۔ ممتاز مذہبی رہنما اور جامعہ عبیدیہ ملتان کے مہتمم مفتی عبد القوی نے اس نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ پانچ وفاق ،فرقوں کی شناخت کےلئے قائم کئے گئے ہیں جبکہ ملک کے اندر خانقاہوں اور مساجد سے منسلک سینکڑوں ایسے مدارس موجود ہیں جو اپنا تعلق کسی فرقے کے بجائے خانقاہی نظام سے کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں کئی مدارس ایسے بھی ہیں جو ان فرقہ وارانہ مدارس اور ان کے مزاج سے تنگ آکر خانقاہوں کے زیر اثر مدارس کے ساتھ ملحق ہو رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ان مدارس کے نمائندوں کو حکومتی اجلاسوں میں نہ بلانا باعث تشویش ہے ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت یرغمال ہونے کے بجائے مستقبل کو سامنے رکھتے ہوئے مؤثر اور جامع فیصلے کرے ۔ پاکستان علماء کونسل کے چیئرمین اور اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن علامہ طاہر اشرفی کہتے ہیں کہ پاکستان میں ہزاروں کی تعداد میں دینی مدارس موجود ہیں جو ان پانچ وفاق ہائے مدارس سے ملحق اور منسلک نہیں ۔ حکومت کو چاہیئے کہ صرف پانچ وفاقوں پر اکتفا کرنے کے بجائے دیگر مدارس کے نمائندوں سے بھی مشاورت کرے۔ حکومت پاکستان کی جانب سے2001کے ایک آرڈیننس کے مطابق پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کا قیام عمل میں لایا گیا تھا جس کے بنیادی مقاصد میں یہ بات شامل تھی کہ پاکستان کے تمام مدارس پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے ساتھ اپنا الحاق کریں گے۔ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے آرڈیننس کے مطابق تمام مدارس کو ایک نصاب مہیا کرنا، ماڈل دینی مدارس کا قیام ،وہ مدارس جو کہ اس بورڈ کے ساتھ ملحق نہ بھی ہوں انہیں بھی شہادت العالیہ اور شہادت العالمیہ کی سند پر بطور معادلہ بی اے اور ایم اے کی سندجاری کرنا۔ پورے پاکستان کے مدارس کے لئے اساتذہ کی تربیت کا نظام وضع کرنا اور بے شمار اہم مقاصد شامل تھے۔ تاہم ہر حکومت نے ڈنگ ٹپاؤ پالیسی جاری رکھی اور اس اہم ادارے کو اپنے مقصد تک پہنچانے میں کسی قسم کی کوئی کوشش نہیں کی گئی ۔ اب بھی وقت ہے مدرسہ ایجو کیشن بورڈ کو فعال اور مؤثر بنایا جائے ۔ حکومت اگر مدارس میں اصلاحات چاہتی ہے تو اس مسئلے پر نصاب کمیٹی کا قیام انتہائی اہم ہے جس میں دینی مدارس سے وابستہ علمی شخصیات، دانشور اور سول سو سائٹی کے نمائندے موجود ہونے چاہئیں جو ایک ایسی جامع پالیسی مرتب کریں جس پر فریقین کا اعتماد ہو۔ دینی مدارس کا معاشرے میں اہم کردار ہے اور ہمیں مل جل کر اس کردار کو مزید اجلا ، صاف ،شفاف بنانے کی ضرورت ہے تاکہ دینی تعلیم کے ان مراکز کا تصور آتے ہی وجود میں ایک خوشگوار احساس پیدا ہو ۔ اس سوال کے ساتھ اجازت چاہوں گا کہ دنیا کے سامنے دینی مدارس کا روشن چہرہ پیش کرنے کےلئے فریقین مزید کتنا وقت ‘‘صرف ’’ کریں گے؟