الطاف بھائی نے پاکستانی کھانوں سے خوب تواضع کی۔ دستر خوان پران کے تین چار قریبی ساتھی بھی تھے مجھےان کے نام یاد نہیں۔پھر قہوے کادور چلا اورادھر ادھر کی گپ شپ ہوئی کچھ دیر بعد انہوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ اگر آپ اجازت دیں تو میں خان صاحب سے کچھ بات کرلوں۔ ڈرائنگ روم اگلے ہی لمحے خالی ہوگیا۔ الطاف بھائی نے پوری توجہ میری طرف مرتکز کرتےہوئے کہا کہ جی خان صاحب کیاحکم ہے۔ میں نے ان سے درخواست کی میں یہاں بات نہیں کرنا چاہتا۔اگر آپ نیچے کھلی فضا میں چلیں تو میرے لئے گفتگو کرنے میں سہولت ہوگی۔الطاف بھائی کے چہرے پرکچھ الجھن کے آثار نظرآئے لیکن بہرحال وہ ایک وضع دار آدمی ہیں اورانہوں نے میری عمر کا بھی پاس کیا اور یقیناً اپنے مزاج اورافتادطبعٔ کے بَرعکس میری خواہش کے احترام میں باہر چلنے کےلئے ہاتھ کے اشارے سے کہا۔پہلے آپ۔
قریب ہی ایک چھوٹا سا پارک تھاہم وہاں چہل قدمی کرنے لگے تو ایک بار پھر الطاف بھائی نے رک کر کہا جی خان صاحب حکم کیجئے۔میں نے ان کے بالکل سامنے کھڑے ہوکر اپنے ہاتھ ’’ہینڈز اَپ‘‘ کے انداز میں بلند کردیئے اور کہا آپ میری تلاشی لیں۔ جس پروہ واقعی پریشان ہوگئے کہنے لگے خان صاحب آپ میرے بزرگ ہیں۔میرے دل میں آپ کیلئے بڑا احترام ہے۔یہ آپ کیسی بات کررہے ہیں۔ پھرمیں آپ کی تلاشی کیوں لوں؟جس پر میں نےکہا کہ اسلئے کہ اس کے بعد میں آپ کی بھی تلاشی لوں گا کیوں کہ ہماری گفتگو صرف ہمارے سینوں میں محفوظ ہونی چاہئے۔ایک لمحے کیلئے الطاف بھائی جیسے سکتے میں آگئے ہوں۔پھر اگلے ہی لمحے انہوں نے قہقہہ لگاتے ہوئے اپنے سینے پرہاتھ مارا اور کہا کہ خان صاحب یہاں رازوں اور امانتوں کے دفینےہیں۔آپ میرے بزرگ ہیں،ہمارے ہاں بزرگوں کے احترام کادرجہ بہت بلند ہوتا ہے آپ چاہیں تو میری تلاشی لے سکتے ہیں لیکن میں ایسا سوچ بھی نہیں سکتا۔جس کے بعد یہ بات ختم ہوگئی اورہم نے اصل مقصد پر بات کی۔یہ واقعہ اکتوبر1997ء کا ہے جب اجمل خٹک خان عبدالولی خان کاایک پیغام لے کر الطاف حسین کے پاس لندن گئے تھے۔
اکوڑہ خٹک میں اپنے آبائی گھر کے مہمان خانے کی چار پائی پرتکیے سے ٹیک لگائے اجمل خٹک نے لندن میں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین سے اپنی ملاقات کایہ احوال تو سنایا لیکن عاجزانہ اورمودبانہ انداز میں کی جانے والی بار بار درخواستوں اور آف دی ریکارڈ رکھنے کی شرط پر بھی خٹک صاحب نے یہ نہیں بتایا کہ وہ پیغام کیا تھا جوانہوں نے الطاف حسین کودیا اور اس ملاقات کی روشنی میں پاکستان کی سیاست کے منظر میں کیا تبدیلی آئی۔
اسلام آباد سے خیبر پختونخوا جانے والی جی ٹی روڈ پر صوبہ سرحد کا ایک تاریخی قصبہ اکوڑہ خٹک سولہویں صدی عیسوی میں پشتو زبان کے مشہور شاعر خوشحال خان خٹک کے پڑدادا ملک اکوڑہ خٹک نے آباد کیاتھاجو انہی کے نام سے موسوم ہوا۔ دوبڑی درسگاہیں دارالعلوم حقانیہ اورجامعہ اسلامیہ بھی یہاں کا اہم دینی حوالہ ہیں۔ دارالعلوم حقانیہ کاحوالہ بین الاقوامی سطح پراس وقت منظر عام پر آیا جب افغانستان میں روس کے خلاف ’’جہاد‘‘ کرنے والے طالبان کو ایک خاص اہمیت اورحیثیت حاصل تھی اورمعروف اسلامی اسکالر دیوبند مسلک کے قابل احترام رہنما اورجمعیت علمائے اسلام سے وابستگی رکھنے والے شیخ الحدیث مولانا عبدالحق دارالعلوم حقانیہ کے روح رواں تھے۔ان کے صاحبزادے مولانا سمیع الحق آج بھی بڑے فخر سے اعتراف کرتے ہیں کہ جہاد افغانستان میں حصہ لینے والے متعدد اہم کمانڈروں کے علاوہ بڑی تعداد میں وہاں برسر پیکار مجاہدین دارالعلوم حقانیہ کے ہی فارغ التحصیل ہیں۔
عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما اجمل خٹک بھی1924میں اکوڑہ خٹک میں محنت کشوں کی ایک بستی میں پیدا ہوئے اورجس گھر میں ان کی پیدائش ہوئی 7فروری2010کو اسی گھر سے ان کاسفر آخرت بھی ہوا شاعر، ادیب، صحافی،پارلیمنٹیرین قوم پرست لیڈر اورسب سے بڑھ کر ایک انسان دوست شخصیت ،متعدد کتابوں کےمصنف جنکی پشتو شاعری کی پہلی ہی کتاب ’’غیرت کی چیخ‘‘ پرپاکستان اور افغانستان پرپابندی عائد کی گئی 1942میں جب عمر صرف17 سال تھی ’’انڈیا چھوڑ تحریک ‘‘ میں حصہ لیا۔ عملی سیاست کاباقاعدہ آغاز خدائی خدمت گار تحریک سے کیا اور صوبہ سرحدسے انگریزوں کونکالنے کی تحریک چلائی۔ پختونستان کے قیام کے بھی حامی رہے۔ ستر کی دہائی میں جب ذوالفقار علی بھٹو نے نیشنل عوامی پارٹی پرپابندی لگائی تو وسیع پیمانے پرگرفتاریاں ہوئیں۔اجمل خٹک نے افغانستان میں خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرلی اورتقریباََ 16سال افغان حکومت کے مہمان رہے اس عرصے میں ان کاشعری مجموعہ’’جلاوطن کی شاعری‘‘ بھی منظر عام پرآیا۔ باچا خان اورخان عبدالولی خان کے ساتھی رہے لیکن اسفند یارولی ان کے دل کے قریب نہ آسکے۔انہی کے دور میں خٹک صاحب کو پارٹی سے بھی نکالا گیا۔ان کاطرز سیاست، سوچ اورنظریات سے اختلاف کرنے والوں کی تعداد خاصی ہے لیکن ان کی دیانتداری اور پاسداری پرشاید ہی کوئی انگلی اٹھائے وہ کہتے تھے خوشحال خان خٹک میرے خون میں ہے۔ مارکسس ازم میرے دماغ میں ہے اورقرآن میرے دل میں۔مہمان خانے میں گفتگو جاری تھی کہ ملازم نے بتایا کہ کھانا تیار ہے خٹک صاحب نے قمیض کے نیچے واسکٹ کی جیبوں کوٹٹولا اورکچھ پیسے تلاش کرنے میں کامیابی کے بعد انہیں ملازم کے حوالے کیااوربتانے لگے ۔ تمہارے لئے تنور کی گرم گرم روٹیاں منگائی ہیں شوربے میں بھگو کر کھانا۔ اپنائیت کے نرم لہجے میں یہ مشفقانہ انداز کبھی نہیں بھولتا۔قہوے کے بعد سلسلہ تکلم پھر شروع ہوا۔بتارہے تھے،قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران ایم این اے ہاسٹل میں ٹھہرا کرتے تھے ایک دن اطلاع ملی کہ اگلے اجلاس سے قبل تمام اراکین اسمبلی پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے تعمیر کئے جانے والے ’’پارلیمنٹ لاجز‘‘ میں منتقل ہوجائیں گے میں بھی اپنا بوریا بستر(واقعتاََ ان کے سامان کو جو ایک صندوق اورچند چیزوں پرمشتمل تھا اسے بوریا بستر بھی کہاجاسکتا تھا) سمیٹ کر پارلیمنٹ لاجزمیں پہنچ گیا۔ اپنے کمرے(اپارٹمنٹ) میں پہنچ کر مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے میں کسی غیر ملکی ہوٹل میں آگیا ہوں۔کمروں میں فرش بھی سنگ مرمر کے تھے۔ لیٹرین(باتھ روم)میں اتنا قیمتی اورجدید سامان لگا ہوا تھا کہ جسے استعمال کرنے میں بڑی دقت پیش آئی میں ساری رات نرم بیڈ اورگرم بستر پر کروٹیں بدلتا رہا اور سکون سے نہ سوسکا اذانوں کے وقت میں نے فرش پراپنا بستر بچھایا توسکون سے سویا۔ میں نے درخواست کی کہ مجھے پرانے ایم این اے ہاسٹل میں رہنے دیا جائے جس کے سخت بستر کا میں عادی ہوچکا ہوں تو جواب ملا،ان نرم بستروں کے بھی عادی ہوجائیں گے چارو ناچار مجھے وہاں رہنا پڑا۔سابق صدر جنرل(ر) پرویزمشرف کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ایک موقع پر کہا کہ ۔ اس کی صاف گوئی مجھے پسند تھی میں سیاست سے قدرے لاتعلقی اور ناسازی طبع کے باعث اپنے گھر تک محدود تھا کہ پیغام ملا جنرل صاحب مزاج پرسی کےلئے آنا چاہتے ہیں۔ یہ سن کر میری طبیعت اورخراب ہوگئی میں نے پیغامبر سے کہا کہ۔۔۔ تنگ گلیوں میں ان کی سواری نہیں آسکتی۔حجرے میں کوئی ایسی جگہ نہیں جو ان کے شایان شان ہو۔ دل میں تو بٹھانے سے رہا۔انہیں کہاں بٹھاوٗں گاپیغامبر نے جواب دیا کہ۔ آپ صرف حامی بھریں باقی ہم پرچھوڑ دیں۔ جنرل صاحب حجرے میں تشریف لے آئے اور مجھے اس پاداش میں پارٹی سے نکال دیاگیا۔خٹک صاحب کے مہمان خانے میں ہونے والی اس طویل گفتگو میں بہت سے تاریخی اور یادگار واقعات ایسے بھی تھے جو کبھی منظر عام پر نہیں آئے اور ان کی خواہش کے احترام میں شاید آئندہ بھی نہ آئیں ۔ بہرحال کہنا یہ مقصود ہے کہ پچاسی سال قبل درویش صفت سیاست دان نے جس گھر میں جنم لیا تھا مرتے دم تک وہی اس کا کل اثاثہ تھا۔
قومی اسمبلی اور سینیٹ کے رکن بھی رہے حکمرانوں اور صاحب اختیار لوگوں سے قرب بھی رہا پارٹی کی صدارت بھی ملی مواقع اور گنجائشں بھی بے شمار تھیں لیکن بیرون ملک تو کجا ملک میں بھی کوئی اثاثہ نہیں بنایا۔ غیر ملکی بینکوں میں تو دور کی بات ملک میں بھی ایک واحد بینک اکائونٹ مجبوری کے عالم میں پارلیمنٹ ہائوس کے بینک میں کھلوانا پڑا کہ تنخواہ وہاں جمع ہوتی تھی۔ رشتے داروں کو منفعت بخش اداروں میں کیا ملازمتیں دلواتے اپنے صاحبزادے ایمل خان کو جو پروفیشنل جرنلسٹ ہے کو کوئی ڈھنگ کی نوکری دلوانے میں بھی ان کی کوئی سفارش نہیں تھی نہ کوئی کاروبار نہ زمینیں نہ جاگیر انتہائی سادہ زندگی۔ مخالفین نے غداری کا الزام تو لگا دیالیکن بدعنوانی کا الزام لگانے کی ہمت نہیں ہوئی۔ جو شخص تنورسے روٹی منگوانے کیلئے تین جیبیں ٹٹول کر پیسے تلاش کرے اس پر کوئی کیا الزام لگا سکتا ہے۔جبکہ آج؟