کچھ خطوط اورمیسج ایسے آئے کہ دل دہل گیا ___ایسی باتیں ___ ایسے حقائق اور انکشافات ___ کہ یقین کرنے کو دل نہیں مانا___ دل سے دعا نکلتی رہی کہ اللہ کرے ایسا نہ ہو،ان پر لکھنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا مگر میلز اور میسجز کے تسلسل میں اضافہ ہوتا گیا اور کہا گیا کہ ایک غلط کام یا جرم ہو رہا ہو اور آپ کے علم میں آجائے اور پھر بھی آپ خاموش رہیں اور آواز نہ اٹھائیں تو آپ بھی شریک ِ جرم سمجھے جائیں گے ، پہلی میل وزارت ِ داخلہ کے کسی با خبر افسر کی طرف سے موصول ہوئی جس کی تائید میں نیشنل پولیس فاؤنڈیشن کے سرونگ یا ریٹائرڈ اہلکار کے لیٹر موصول ہوئے کچھ مندرجات قارئین سے بھی شیئر کرتا ہوں:
محترم چیمہ صاحب!
نیشنل پولیس فاؤنڈیشن پولیس کے حاضر سروس یا ریٹائرڈ ملازمین اور شہداء کے پسماندگان کو سر چھپانے کیلئے جگہ دینے کے لئے بنائی گئی تھی۔ یہ اپنا فریضہ صحیح انجام دے رہی تھی کہ کچھ ایسے ایم ڈی لگائے گئے جنہوں نے فاؤنڈیشن کے پلاٹ ریوڑیوں کی طرح بانٹنے شروع کر دئیے ، شوکت عزیز، آفتاب شیر پاؤ، فیصل صالح حیات، رحمان ملک سب نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے اور ایم ڈی کی گردن پر پاؤں رکھ کرپلاٹ لئے اور کروڑوں کے بیچ دئیے۔ کئی ایم ڈی گرفتار بھی ہوئے ، اسی سلسلے میں سپریم کورٹ نے نوٹس لیا اور کئی غلط الاٹ کردہ پلاٹ کینسل کر دئیے۔ سپریم کورٹ نے پولیس کے علاوہ دوسرے افراد کو الاٹ کردہ پلاٹوں پر ناراضگی کا اظہار کیا اور اس بات پر زور دیا کہ آئندہ سے پلاٹ پولیس شہداء کی فیملیوں یا بیوگان کودئیے جائیں ۔ فاؤنڈیشن کے ایگزیکٹو بورڈ کا چیئرمین سیکرٹری داخلہ ہوتا ہے اور سارے آئی جی صاحبان اس کے ممبر ہوتے ہیں۔۔ فاؤنڈیشن کے بڑے افسروں میں سے کچھ چور ہیں اور کچھ کمزور ہیں لہٰذا بورڈ کی میٹنگ میں آئی جی صاحبان بھی انہیں دباتے ہیں اور سیکرٹری داخلہ صاحب بھی ایم ڈی پر خوب چڑھائی کرتے ہیں۔ فاؤنڈیشن کے افسر غریب کی جورو کی طرح جھڑکیاں کھاتے رہتے ہیں___ پچھلی کئی میٹنگوں میں سب سے زیادہ زور سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد پر ہی رہا۔ مگراس کے باجود ایک dirty deal ہوئی ہے۔ وزارت داخلہ کے اعلیٰ افسر نے فاؤنڈیشن کو بلیک میل کیا اور دھونس کے ذریعے بغیر استحقاق کے ایک کمرشل پلاٹ لیا جسے فوری طور پر پونے پانچ کروڑ میں بیچنے کا بھی بندوبست کر دیا گیا۔ اس کے بدلے میں فاؤنڈیشن کے ایک مشکوک شہرت کے افسر (جسے رحمان ملک نے لگایا تھا اور جسے سپریم کورٹ میں کئی بار جھڑکیاں پڑی ہیں) کو ایکسٹینشن دی گئی اور اس کے بیٹے کو گریڈ 17میں غیر قانونی طور پر بھرتی کیا گیا ہے۔ اب ایک طرف سپریم کورٹ غیرمستحق افراد کے پلاٹ کینسل کر رہی ہے ، دوسری طرف ایک غیر مستحق شخص کسی ڈر، خوف کے بغیر شہیدوں اور بیواؤں کے حق پرہاتھ صاف کر گیا ہے،اس اہم شخص کے پاس فاؤنڈیشن کے مسائل سننے کیلئے کوئی وقت نہیں تھا مگر پلاٹ لینے اور اسے بیچنے کیلئے وہ خود فاؤنڈیشن کے دفتر آئے اور پانچ کروڑ کا چیک لے کر چلتے بنے ۔ کیا ان بڑے افسروں کو پوچھنے والا کوئی نہیں ہے ؟سنا ہے فاؤنڈیشن والوں نے سپریم کورٹ کا نام بھی لیا مگر موصوف کا جواب تھا’’ فکر نہ کرو مجھے کسی کی کوئی پروا نہیں___ کچھ نہیں ہوگا‘‘۔
محترم چیمہ صاحب ! صرف آپ سے امید ہے کہ آپ اس پر آواز اُٹھائیں گے۔ تاکہ پولیس فاؤنڈیشن کی زمین صرف پولیس اہلکاروں اور ان کے پسماندگان کیلئے بچ سکے اور س طرح کے غیر مستحق افسر ہڑپ نہ کر جائیں۔ ‘‘
مجھے بالکل یقین نہیں تھا کہ یہ صاحب ایسی حرکت کریں گے۔ میں نے انہیں ایک شریف آدمی جانا، ذاتی طورپر بھی ان کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں، ہم ایک دوسرے کو عزّت سے ملتے ہیں___ اگرچہ انہیں قریب سے جاننے والے بتاتے ہیں کہ امن و امان کے بارے میں ان کا ادراک سطحی اور نظریات دقیانوسی ہیں، مگر مجھے اس حد تک حسنِ ظن ضرور تھا کہ وہ اختیارات کا ناجائز استعمال نہیں کریں گے اور ( ان حالات میں جبکہ عدالت ِ عظمیٰ پولیس فاؤنڈیشن کے معاملات کو دیکھ رہی ہے) پولیس فاؤنڈیشن کے پلاٹوں پر ہاتھ نہیں ماریں گے___ میری دلی خواہش تھی کہ یہ بات غلط اور محض افواہ ہو ، مگر تحقیق کی تو یہ جان کر بہت صدمہ ہوا کہ میل اور میسج والی بات درست ہے۔ وزارت داخلہ کے اہم عہدیدار کی حیثیت سے پولیس فاؤنڈیشن کے کسٹوڈین تھے اس حیثیت سے انہیں کوئی بھی مالی منفعت لینے سے گریز کر نا چاہیے تھا___مگر حرص و ہوس انسان کو اندھا کر دیتی ہے اور پھر وہ اتھاہ گہرائیوں میں گر جا تا ہے۔
ناچیز خطاؤں کا پُتلا ہے___ ایبٹ آباد میں ڈی آئی جی کی حیثیت سے وہ پولیس کالونی کا کسٹوڈین تھا اس کالونی میں ایک پلاٹ ڈی آئی جی کو دیا جاتا تھا مگرافسروں کی تمام ترغیبات اور تمام دلائل کو رد کرتے ہوئے نا چیز نے کوئی پلاٹ لینے سے انکار کر دیا کہ کسٹوڈین یا انچارج کیلئے مالی منفعت حاصل کرنا ناجائز ہے۔ اسی طرح گوجرانولہ میں کئی ہاؤسنگ کالونیوں کے مالکان پیشکش کرتے رہے کہ’’آپ ’برکت‘ کے لئے ہی کوئی پلاٹ لے لیں مگر یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ یہ اختیارات یا عہدے کا نا جائز استعمال ہوگا۔ میں جب یہاں سے چلا جاؤنگا اور آپ کو فائدہ یا نقصان پہنچانے کی پوزیشن میں نہیں ہوں گا تو پھر سوچوں گا۔ ‘‘
جناب والا ! آپ نے بہت مایوس کیا ہے جس کا مجھے ذاتی طور پر بھی دکھ ہوا ہے۔ آپ کی اس حرکت سے سول سروس کی عزّت اور اعتبار میں کمی ہوئی ہے اور اس کی گردن اور جھک گئی ہے۔
میں خود انسپکٹر جنرل کی حیثیت سے پولیس فاؤنڈیشن کے ایگزیکٹو بورڈ کی کئی میٹنگوں میںشریک ہوا۔ ناچیز نے شہید ہونے والے پولیس افسران کی بیوگان اور پسماندگان کے لئے پلاٹوں کا پُر زور مطالبہ کیا جواس وقت مان لیا گیا۔ اب معلوم کیا تو پتہ چلاہے کہ شہیدوں کی بیوگان کو ابھی تک پلاٹ نہیں ملے اور ان پریہ حضرت مختلف اعتراضات لگا کر مؤخر کر رہے ہیںمگر اپنے آپ کو شہیدوں سے زیادہ مستحق قرار دیکر اپنے لئے فوری طور پر کمرشل پلاٹ ہتھیا لیا ہے ۔ دھونس کے ذریعے کی جانے والی یہ حرکت صریحاً غیراخلاقی اور غیر قانونی ہے___ امید ہے کہ سپریم کورٹ اس کا نوٹس لے گی اور یہ پلاٹ کینسل کرے گی۔اس شخصیت کے پاس تو اور بھی کئی کالونیوں میں پلاٹ ہوں گے___ پولیس فاؤنڈیشن کے پلاٹ صرف جانیں قربان کرنے والے محافظوں اور ان کے بچوں اورشہداء کیلئے رہنے چاہئیںاور ایگزیکٹو بورڈ میں واضح طور پر یہی طے ہوا تھا کہ وزارتِ داخلہ کا کوئی افسر یا کوئی بھی Non Police Offical پولیس فاؤنڈیشن سے کسی قسم کا کوئی پلاٹ لینے کا حقدار نہیں ہوگا۔
وزیراعظم صاحب سے گزارش ہے کہ وہ بھی اس کا فوری طور پر نوٹس لیں، پولیس فاؤنڈیشن ، پولیس اکیڈیمی اور پولیس بیورو کو وزارت ِ داخلہ کے چنگل سے نکالیں اور ان اداروں کو کیبنٹ ڈویژن کے ساتھ منسلک کر دیں اور معقول افراد ڈھونڈ کر ان اداروں میں تعینات کریں ۔
قوم حالت ِ جنگ میں ہے اور اس کی قیادت وزارت ِ داخلہ کے ذمّے ہے ، ان حالات میں بھی جوافسر شہیدوں اور بیواؤں کے مال پر ڈاکہ ڈالنے سے باز نہیں آرہے کیا وہ قیادت کے اہل ہیں ؟ قیادت ہی نہیں اس حرکت کے بعد وہ موجودہ منصب پر رہنے کا حق بھی کھو چکے ہیں، اُمید ہے کہ ایماندار وزیرِداخلہ اس سے اتفاق کریں گے۔ بڑے عہدوں پر براجمان افسروں کی پرانی ٹیم کی کارکردگی کا پول کئی بار کھل چکا ہے ۔ جناب وزیر اعظم ! آپ ان سے جان چھڑائیں اور مختلف سروسز کے اعلیٰ ترین افراد پر مشتمل نئی ٹیم تیار کریں___ اسی سروس گروپ میں بھی بہت بہتر لوگ موجود ہیں ، سیرت اصغر، بابر یعقوب، شاہد تارڑ، خضر گوندل ، امجد علی خان___ کسی کو بھی یہ ذمہ داری سونپ دیں، کارکردگی پہلے سے کہیں بہتر ہوگی۔
اس موقع پر وہ حضرت صاحب یاد آرہے ہیں جو دنیا کو سرائے سمجھنے کے وعظ کیا کرتے تھے کہ ایک دن اُنہیں ’’شاہی دربار‘‘ میں دیکھ کر ان کے ایک مرید نے حیران ہو کر پوچھا ، حضور مولانا صاحب ! آپ جیسے اللہ والے آدمی کا دنیاوی حاکموں کے پاس کیا کام ہے ؟ فرمانے لگے ’’دنیا کے مسائل اصل کام سے توجہ ہٹاتے رہتے ہیںاس لئے درخواست دی ہے کہ میرے نام فوری طور پندرہ، بیس مربعّے زمین الاٹ کر دی جائے تاکہ میں اس کُتّی دنیا سے بے نیاز ہو کر اصلاح و تبلیغ کا کام کر سکوں۔‘‘
لگتا ہے یہ موصوف بھی جنگ میں شامل ہونے کیلئے ’’کُتّی دنیا‘‘سے بے نیاز ہونا چاہتے ہیں۔
بلدیہ ٹاؤن کیس میں ملنے والا ’’انصاف‘‘
سندھ حکومت نے کراچی کے بلدیہ ٹاؤن کیس ( جس میں ڈھائی سو سے زیادہ بے گناہ افراد ہلاک ہو گئے) کی نئے سرے سے تفتیش کیلئے ٹیم کا سربراہ جس ایڈیشنل آئی جی کو بنایا ہے باخبرذرائع کے مطابق اس کا اغوا کاروں اور ڈاکوؤں کی تمام انجمنوں نے متفقہ طور پر خیر مقدم کیا ہے۔ گوجرانوالہ کے عوام کو جو اُن کی’خدمات‘ کے آج بھی معترف ہیں (کیونکہ اغواکاروںکو تاوان کی رقم(اپنی فیس نکال کر) بحفاظت پہنچانے میں انہوں نے ہمیشہ سہولت کار کا رول بطریق احسن ادا کیا) ۔ سو فیصد یقین ہے کہ اب کیس میں ’’انصاف‘‘ مل جائے گا۔ کس کو___ اور کتنا یہ نہیں کہا جا سکتا۔ گوجرانوالہ میں تعینات ہونے کے بعد جب میرے مشاہدے میں آیا کہ موصوف کچھ سرکاری مَدوں سے بھی اچھی خاصی رقم غالباً تاوان سمجھ کر اپنے ذاتی اکاؤنٹ میں شفٹ کرا چکے ہیں تو مذکورہ رقم کی برآمدگی کیلئے یہ کہہ کر ان سے رابطہ کیا گیا کہ گرفتاری بھی ہو سکتی ہے، موصوف نے مہربانی فرمائی اور یہ کہہ کر سرکاری رقم واپس کر دی کہ’ زندگی میں پہلی بار لی ہوئی رقم واپس کر رہا ہوں‘___ سند ھ ولیوں اور صوفیوں کا خطہ ہے اس کا دل کشادہ اور دامن وسیع ہے جس افسر کا بوجھ کوئی صوبہ نہ اٹھا سکے سندھ اسے بھی اپنے دامن میں سمیٹ لیتا ہے۔ اسی لئے تو سندھ پیارا لگتا ہے۔
نوٹ:۔ اگر اس کالم کے مندرجات کے حوالے سے وزارت داخلہ کے اعلیٰ افسر یا اورکوئی وضاحت کرنا چاہے تو میں اسے اپنے کالم میں جگہ دینے کو تیار ہوں۔