گذشتہ کئی ماہ سے ہم بحثیتِ قوم کرکٹ کے نرغے میں ہیں یہ بات نہ تو کوئی نئی ہے اور نہ ہی تشویش ناک کیونکہ ہم ہمیشہ سے کسی نہ کسی چیز کے نرغے میں رہنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ ورلڈ کپ جیسے جیسے قریب آیا ہمارے میڈیا نے کرکٹ کے کھیل کو جنگ کا رنگ دیتے ہوئے اپنی قومی ٹیم کے حق میں ترانے بجانے شروع کر دئیے۔ ہر چینل نے ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی خاطر کھیل کے ماہرین کی خدمات حاصل کرتے ہوئے زوردار ’’ٹاکرے‘‘ منعقد کئے۔ کھیل کے منچلوں نے اپنی قومی ٹیم کی کِٹ پہن کر مدِمقابل ٹیموں کی خوب کِٹ لگائی اور رکشا ڈرائیوروں نے اپنی سواری کو سبز رنگ سے رنگ دیا۔ دنیا کے کرکٹ کھیلنے والے ممالک میں کوئی ایسا تجزیہ نظر سے نہیں گذرا جس میں ورلڈ کپ ہماری جھولی میں گرتے دکھایا گیا ہوماسوائے پاکستان کے جہاں تجزیہ نگار اور ملک کے نام پر مرمٹنے والی قوم اس بات کو ماننے کیلئے ذہنی اور جسمانی طور پر ہر گز تیار نہ تھی۔ ان کے خیال میں انہی کی طرح پاکستانی کھلاڑی کسی بھی وقت کچھ بھی کر سکتا ہے اور اگرنہ کرپایا تو اللہ تعالیٰ کی غیبی مدد شامل حال رہے گی کیونکہ افغانستان، بنگلہ دیش اورمتحدہ عرب امارات کے مسلمانوں کے روابط آجکل اللہ تعالیٰ سے قدرے کم ہیں۔ پھر میڈیا بادشاہ نے ہمارے کھلاڑیوں کو سبز پرچم میں لپیٹ کر اقبال کا شاہین بنا کر ساتویں آسمان سے اڑاتے ہوئے آسٹریلیا کے سرسبز میدانوں میں لا اُتارا۔ اِس منظر نامے میں ہمارے کھلاڑی شاہ باز تھے اور باقی سب ممولے۔ فقط جھپٹنا، پلٹنا اورپلٹ کر جھپٹنا ہی باقی رہ گیا تھا۔ مگر یہ شہزادے جب میدان میں اُترے تو اپنی وکٹوں کے ساتھ ساتھ اپنے طوطے بھی اُڑا بیٹھے۔ ہندوستان سے منہ کی کھائی، تندوتیز کالی آندھی سے بڑی مشکل سے اپنی پتلونیں بچا پائے اور آج زمبابوے سے منت سماجت کرکے وطن لوٹنے سے بچ گئے۔ متوقع شکست سے بچنا اب آئرلینڈ اور متحدہ عرب امارات کے ہاتھ میں ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ وہ ہمارے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔قارئین کرام! یقین کیجیے مجھے ٹیم کی ناقص کارکردگی پر رتّی بھر بھی افسوس نہیں ہوا اورنہ ہی میں اپنے کھلاڑیوں کی کسی بھی صورت دل آزاری چاہتا ہوں۔ ان بیچاروں کے بس میں جو عقل و فہم، تکنیکی ہنر اور جسمانی قابلیت تھی وہ اپنے تئیں خوش اسلوبی سے بروئے کار لاتے رہے۔ اب اگرکم بخت گیند بلیّ پر نہ آئے اور نہ ہی ہاتھوں میں سمائے تو بھلاوہ اور کیا کریں؟مجھے اصلی دکھ اپنی ’’بُلبلاتی‘‘ ہوئی جذباتی عوام کے رویے سے ہے جو ابھی تک مبالغہ آرائی، خودنمائی اور اشتہاربازی کے نشے سے نہیں نکلی! ہم ریت پر محل بناتے ہیں پھر اس کے ناقابل تسخیر ہونے کی تشہیر شروع کر دیتے ہیں اور جب یہ سب کچھ دھڑام سے زمین بوس ہو جاتا ہے تو تعمیر میں استعمال شدہ بوسیدہ ریت کو اچھال اچھال کر اپنے سروں میں ڈال کر نوحہ خوانی شروع کر دیتے ہیں۔گذشتہ ورلڈکپ میں گایا ہواترانہ ’’ہم جیتیں گے ، ہم جیتیں گے‘‘ آپ کو اب تک یاد ہوگامگرہوا کیا؟ وہ بھی کیا یاد ہے؟ جیتنے پر زور دینا کوئی بُری بات نہیں مگر اصل زور تھرڈ ایمپائر (یہاں میری مراد اللہ تعالیٰ سے ہے) کی بجائے جیتنے کی حکمت عملی پر ہونا چاہیے۔ ہمیں خام خیالی سے نکل کر یہ سوچنا چاہیے کہ اس کھیل کے ساتھ جو کھیل کھیلا جا رہا ہے اس میں کیا کوئی جیتنے کی صورت نظر آتی ہے ؟ جب سیاست میں کرکٹ کھیلی جائے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ کرکٹ میں سیاست نہ آئے۔ موجودہ حکومت نے نہایت دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے، صدرمملکت کی گونا گوں مصروفیات کو مدنظر رکھتے ہوئے اور وزیراعظم کو مصروف رکھنے کیلئے پی سی بی کے پَیٹرن کا عہدہ وزیراعظم کو سونپ دیا جنہوں نے اس کھیل کی نگرانی سابقہ نامی گرامی نگران وزیراعلیٰ کے حوالے کردی۔ اس تقرری پر خاصی لے دے ہوئی۔ جانے والے اور آنے والے عدالت کے چکر لگاتے رہے۔ کبھی ایک باہر تو دوسرا اندر البتہ ان کی وکٹوں کے درمیان کی دوڑ خاصی دیدنی تھی۔ جب تنقید کا شور قابوسے باہر ہونے لگا تو محترم وزیراعظم نے ایک ایسا بزرگ ڈھونڈ نکالا جس کی شہرت اور شہریت پر کسی کو کوئی شک نہ تھا مگر یہ یقین تو تھا کہ یہ صاحب دوسری مرتبہ ’’کیا خاک مسلمان ہونگے‘‘۔ مانا کہ کرکٹ بورڈ کے دونوں موجودہ کرتے دھرتے کرکٹ کے علاوہ چوٹی کے سفارت کار اور قلم کار ہیںاور اپنی اپنی جگہ نہایت قابل احترام بھی ہیں مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ان دو کے علاوہ پورے ملک میںکوئی اور شخص میسر نہیں ؟ موزوں اشخاص کی دستیابی کی معذوری میں تو پولیو مہم کو اور تیز کرنے کی اشد ضرورت ہوگی۔ تعجب ہے کہ ہم زمانہ امن میں جنگی جنون رکھتے ہیں اور جنگ میں امن کی آشاپر چل نکلتے ہیں۔ اس کیفیت نے حبیب جالب کی یاد تازہ کردی کہ ظلم رہے اور امن بھی ہو کیا یہ ممکن ہے؟قارئین کرام! بلا شبہ ہم بحیثیت قوم پے درپے ناکامیوں اور محرومیوں کا شکاربنے چلے آ رہے ہیں جس کے نتیجے میں ہم مسائل کے حل کی بجائے اپنے اندر مسلسل ایک غصے کو پالتے چلے جا رہے ہیں اور اپنی بلندوبالا خواہشات کی ناکامی کی صورت میں گالی گلوچ ، توں تڑاں اور ذاتیات پر اتر آتے ہیں۔ اس ہیجانی کیفیت میں اپنے قائدین سے گزارش ہے کہ وہ اپنی پسند و نا پسند کو ایک طرف رکھتے ہوئے قومی اداروں کی تعمیر پر توجہ دیں تو معاملات سدھر سکتے ہیں ورنہ یہ سلسلہ جاری و ساری رہے گاکیونکہ اب مزید پنکچر لگانے کی بجائے ٹیوب کو ہی تبدیل کرنا ہوگا۔ آخر میں بقول سید ضمیر جعفری :؎
ملک کے اندر کرکٹ کپ کے اس البیلے میلے میں
سرکاری ’’کلچر‘‘ نے جو درباری ’’خر بازاری‘‘ کی
قوم تو دَھم دَھم، چَھم چَھم ناچی، گیندوں، چوکوں، چھکوں پر
سچ میں لیکن بن گئی دُرگت اپنی ٹیم بیچاری کی