لاہور میں پولیس والوں کی آج کل اردو بازار میں خوب چلتی ہے آئین میں اکیسویں ترمیم کا سب سے زیادہ فائدہ لاہور انار کلی کے تھانیدار کو پہنچا ہے وہ جب چاہتا ہے کسی بھی دکان پر جاکر جو کتاب چاہے اٹھا کے پڑھنا شروع کردیتا ہے اگر لفظ دہشت لکھا نظر آ جائے تو اس مصنف کی ساری کتابیں اٹھوا کر لے جاتا ہے کچھ پولیس والے لاہور میں مولانا سلیمان ندوی کا پتہ پوچھتے پائے گے یقیناً وہ شورش کاشمیری، مولانا مرتضیٰ میکش اور مولانا ظفر علی خان کو بھی تلاش کررہے ہوں گے سوچتا ہوں مولانا چراغ حسن حسرت جن کا محض تکیہ کلام مولانا تھا وہ اگر آج ہوتے تو کس قدر عتاب میں ہوتے، بعض ایسے قلمکار جنہوں نے ساری عمر ناموس رسالتؐ اور تحفظ ناموس رسالتؐ کی پاسداری میں گزاری وہ بھی اپنی ضمانتیں قبل از گرفتاری کرائے بیٹھے ہیں لاہور کے تقریباً 700 کتب فروشوں پر مقدمے درج کئے جاچکے ہیں، صلاح الدین ایوبی اور پیر سید عبدالقادر جیلانی کی کتاب ’’غنیتہ الطالبین‘‘ ممنوعہ کتابوں میں شامل ہے وہ اس لئے کہ غنیتہ الطالبین کے نام میں طالبان کا ذکر ہے۔ تشویش کی ایک لہر ، لاہور میں دوڑتی رہتی ہے حالانکہ شر پھیلانے والا لٹریچر دکانوں پر فروخت ہونے کیلئے نہیں آتا بلکہ مفت بانٹا جاتا ہے ویسے بھی ہم لکھنے والوں کو ہر دین دھرم، مذہب و مسلک اور قبیلوں کا مطالعہ کرنا ہوتا ہے کتابیں کہاں شر پھیلاتی ہیں کتابیں تو سوچ اور فکر میں وسعت اور بالیدگی کا باعث ہوتی ہیں۔ شر تو ایک مخصوص ذہن اور گروہ پھیلاتا ہے ،حکومت اس کی سرکوبی کرے ۔اردو بازار کے کاروباری طبقے کو تھانیدار کے چھاپوں سے بچایا جائے کسی بھی مسئلے کے حل کیلئے طریقہ کار ہوتا ہے۔ پنجاب حکومت کوچاہئے کہ وہ ہر مکتبہ فکر کے علمائے کرام، دانشور، قلمکار صحافی اور وزارت مذہبی امور کے کارکنوں پر مشتمل بورڈ بنائے جو اس بات کا جائزہ لے کہ کون سی کتاب ضبط کی جائے اور کسے چھوڑا جائے بلاوجہ کاروباری طبقے کوہراساں کرنا کسی طور بھی مناسب نہیں، ہمارے ایک نوجوانی کے دوست اور پاکستان ایئرفورس کے ماہر تعلیم گروپ کیپٹن مظہر نے اسلام آباد کی فائونڈیشن یونیورسٹی والے بریگیڈئر پروفیسر ڈاکٹر فضل ربی کی ادارت اور ڈاکٹر آسیہ رشید کی نگرانی میں تکمیل کو پہنچنے والا ایم فل کا خوبصورت مقالہ بھیجا ہے جسے پروفیسر تفسیر عباس نے لکھا ہے ’’درس گاہ صفہ‘‘ کے عنوان سے۔ نمل یونیورسٹی نے اس کی ڈگری جاری کی ہے ’’درس گاہ صفہ‘‘ سیرت طیبہ کا ایک اہم ترین گوشہ ہے اور مدنی عہد نبوت میں علوم و فنون اور تعلیم و تعلم کی تاریخی دستاویز بھی،اصحاب صفہ سادہ لفظوں میں محض اصحاب ہی نہ تھے بلکہ وہ خود تاریخ رسالتﷺ کا لازمی جز تھے اللہ تعالیٰ نے ان کو اس لئے منتخب کیا تھا کہ وہ اللہ کے رسولﷺ کے معاون بنیں اور آپ کے شریک کار بن کر اس زبانی مشن کو تکمیل تک پہنچائیں جو آپﷺکے ذریعے پورا کیا جانا مطلوب تھا ’’درس گاہ صفہ‘‘ دراصل آپ ﷺ کی مدت حیات کے اندر ہی ایک ایسے تعلیمی ادارے کی داغ بیل پڑ گئی تھی جس کی بنیاد پر آئندہ برسوں میں دیگر شہروں میں بڑی بڑی جامعات قائم ہوئیں جن میں بغداد، سالرنو، قاہرہ اور قرطبہ کی یونیورسٹیاں شامل ہیں۔ حدیث پاک ہے کہ ’’علم ایک قسم کا نور ہے جس کو اللہ جس کے قلب میں اتارنا چاہتا ہے ڈال دیتا ہے‘‘ اسلام کی سب سے پہلی درسگاہ حضرت خدیجہؓ بنت خویلد کا گھر تھا انہیں یہ اعزاز بھی حاصل تھا سب سے پہلی وحی جو جبریل امین نے رسول ﷺ تک پہنچائی اس کی پہلی تلاوت غارحرا کے بعد آپؓ کے گھر پر رسولﷺ کی زبان مبارک سے آپ ہی نے سماعت فرمائی۔ جب درس و تدریس کے لئے حضرت خدیجہؓ کا گھر ناکافی ہوتا گیا اور مسلمانوں کی تعداد روز بروز بڑھتی گئی تو پھر حضرت ارقم ؓکے ’’دارارقمـ‘‘ بن ابی ارقم کے گھر حضرت محمدﷺ بیٹھ جایا کرتے جہاں قدیم و جدید مسلمان آپﷺ سے ملاقات کرتے اور آپﷺ انہیں قرآن کی آیات سنایا کرتے، مسلمانوں کی درسی کتاب قرآن مجید ہی تھی طریقہ تدریس، گفتگو میل جول اور زیادہ تر عمل تھا۔ فرمان رسولﷺ ہے کہ کچھ ملک اور شہر زور زبردستی اور جنگ سے فتح ہوئے مگر مدینہ کو قرآن نے فتح کیا تھا۔ آپ ﷺ نے ہجرت کے فوراً بعد سب سے پہلا جو کام کیا وہ مسجد کی تعمیر تھی جس کے ایک حصے میں صحابہؓ کی ایک جماعت کیلئے تدریس کا انتظام کیا وہ جگہ صفہ کے نام سے معروف ہوئی جو رات کے وقت اقامت گاہ بن جاتی اور دن کے وقت ایک لیکچر ہال ہوا کرتی جہاں ہر کوئی بیٹھنے اور حصول علم کیلئے آزاد تھا درس گاہ صفہ کو دراصل اقامتی جامعہ (Residential University) کا درجہ حاصل تھا۔ اصحاب صفہ میں جامع قرآن بھی تھے اور معلم قرآن بھی ، مشیران رسولﷺ اور نائبین رسولﷺ کے علاوہ خدام نبوی، محافظین نبوی، محررین نبوی، مقربین نبوی، خطبائے کرام، ناظر تعلیمات، امراء گورنر اور عمال بھی شامل تھے، ویسے تو مختلف اوقات میں اصحاب صفہ کی تعداد کم زیادہ ہوتی رہی ہے مگر زیر نظر مقالے میں 118 اصحاب صفہ کے اسمائے گرامی درج ہیں، اس میں قرآن کی 111سورتوں کی منتخب آیات سے اسلام میں علم کے حصول کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے، 575 صفحات پر محیط ’’درس گاہ صفہ‘‘ کے چار باب ہیں پہلے میں اسلامی نظام تعلیم و تربیت، دوسرے میں درس گاہ صفہ اور اصحاب صفہ کا تعارف ہے تیسرے باب میں درس گاہ صفہ کا نظام تعلیم و تربیت جبکہ چوتھے باب میں اصحاب صفہ کے علمی اور عملی کارنامے ہیں۔ ہجرت مدینہ سے پہلے کی درسگاہیں جن میں مسجد عمارؓ بن یاسر اور درس گاہ بیت فاطمہؓ بنت خطاب جبکہ ہجرت کے دوران مسجد بنی زریق، درس گاہ مسجد قبا اور پھر مدینہ پاک میں درسگاہ ابو ایوب انصاریؓ، بعض قبائل کی مساجد جن میں بنونجار، بنو عبدالاشہل، و بنو عمر بن عوف اور بنو سالم کی درسگاہیں شامل ہیں، برسبیل تذکرہ وضاحت کے طور پر نبی کریم ﷺ کے انداز تعلیم کے چند نمونے جنہیں آپﷺ نے اختیار فرمایا اور ان کی طرف ہماری رہنمائی فرمائی، اس مقالے میں شامل ہیں۔ ظہور اسلام سے پہلے عرب کی خواتین، اور دیگر پرانے معاشروں میںعورتوں پر تعلیم کے دروازے بند تھے مگر اسلام ہی وہ دین ہے جس میں ہر مسلمان پر خواہ وہ مرد ہے یا عورت اس پر تعلیم کا حصول فرض ہے ’’درسگاہ صفہ‘‘ دنیا کی وہ پہلی یونیورسٹی ہے جس میں مردوں، عورتوں اور بچوں کو علیحدہ علیحدہ حصول علم کی سہولت فراہم کی گئی۔ دنیا کتنی ہی ترقی کر جائے الیکٹرونک میڈیا ہو یا سوشل میڈیا پرنٹ میڈیا کی افادیت سے انکار مشکل ہے لہٰذا کتاب دوستی کو رواج دیا جائے اور ’’درسگاہ صفہ‘‘ کا طریقہ تعلیم بھی نگاہ میں رہے جہاں کوئی رنگ و نسل اور مذہب و مسلک یا امیر غریب کا امتیاز نہیں تھا۔ درس گاہ صفہ علامت ہے علم و ہنر اور کتاب دوستی کی…