• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بھارتی جارحانہ عزائم کے خلاف حکومت و اپوزیشن نے متحد ہو کر جموں و کشمیر کے عوام کو واضح پیغام دے دیا ہے کہ پاکستانیوں کے دل کشمیریوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ اسلام آباد میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی جانب سے مسئلہ کشمیر پر آل پارٹیز کانفرنس میں تمام سیاسی جماعتوں کی شرکت سے دنیا بھر میں جموں و کشمیر کا معاملہ اب فلیش پوائنٹ بن گیا ہے۔ آل پارٹیز کانفرنس کے مشترکہ اعلامیہ میں پارلیمانی قومی سلامتی کمیٹی کی دوبارہ تشکیل کا فیصلہ کیا گیا اور بھارت کو منہ توڑ جواب دینے کا اعلان بھی کیا گیا۔
مقبوضہ کشمیر میں جاری حالیہ تحریک آزادی نے بھارتی ایوانوں میں ہلچل مچاد ی ہے۔ ہندوستان عالمی برادری کی جموں و کشمیر سے توجہ ہٹانے کے لئے پاکستان کے سرحدی علاقوں میں مسلسل بلااشتعال فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ بھی جاری رکھے ہوئے ہے لیکن اس کے باوجود کشمیری عوام کے حوصلے پست نہیں ہوئے۔ تین ماہ سے جاری تحریک آزای کے دوران اب تک 110کشمیری جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔ حالیہ تحریک آزادی کے دوران کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب کہ کشمیری خواتین، بچے اور مرد بڑی تعداد میں سڑکوں پر نکل کر پاکستانی پرچم نہ لہراتے ہوں۔ انڈین فوج اس کے جواب میں غصے میں آ کر فائرنگ کرتی ہے اور کشمیریوں کو لہولہان کردیا جاتا ہے۔ کشمیر اور پاکستان لازم و ملزوم ہیں۔ دونوں کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جا سکتا گزشتہ دنوں لاہور میں پائنا کے زیر اہتمام مسئلہ کشمیر پر ایک خصوصی تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا۔ میں نے بھی اس پروگرام میں عرض کیا کہ برہان مظفر وانی کی شہادت کے بعد جموں و کشمیر میں تحریک آزادیٔ کشمیر میں نئی جان پڑگئی ہے۔ کشمیری عوام پاکستان سے الحاق چاتے ہیں۔ حکومت پاکستان کو کشمیر کے معاملے کو حل کرنے کے لئے امریکہ اور یورپی ممالک پر دبائو ڈالنا ہو گا کہ ماضی میں افغانستان کے اندر امریکی جنگ کا فرنٹ لائن اتحادی بنانے کے لئے امریکہ اور یورپی ممالک نے پاکستان کو کشمیر کامسئلہ حل کرانے کی یقین دہانیاں کرائی تھیں مگر وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو گیا کے مصداق امریکہ اور یورپی ملکوں نے پاکستا ن کو ایک بار پھر دھوکہ دیا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ پاکستان نے نائن الیون کے بعد امریکی جنگ کا حصہ بن کرسخت نقصان اٹھایا ہے مگر اتنی قربانیاں تو خود امریکہ نے بھی نہیں دیں۔ امریکہ پھر بھی ہم سے خوش نہیں ہے۔ وہ ہم سے کام لینے کے بعد اب بھارت کا حلیف اور سر پرست بن چکا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کے ثبوت پاکستان نے اقوام متحدہ اور امریکہ کو پیش کردیئے ہیں۔ تعجب خیز امر یہ ہے کہ اقوام متحدہ اور عالمی برادری کشمیر ایشو پرخاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ مسلم دنیا کی نظروں میں اقوام متحدہ کا ادارہ مشکوک ہوچکا ہے۔ مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان کے حوالے سے اس عالمی ادارے نے جو تیزی دکھائی تھی وہ بھی حیران کن ہے مگر عالم اسلام کے دیرینہ مسائل کشمیر اور فلسطین پر اس کا ابھی تک افسوسناک کردار دیکھنے کو ملا ہے۔ سوال یہ ہے کہ افغانستان اور عراق پرحملوں کے لئے سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عملدرآمد ہو سکتا ہے تو پھر جموں و کشمیر کے عوام کو حق خودارادیت دلانے کے لئے بھارت کو کیوں مجبور نہیں کیا جا سکتا؟اسلامی ممالک کی تنظیم OICبھی فعال نہیں ہے اور اُس کی جانب سے بھی ان اہم ایشوز پر کوئی قابل ذکر کردار ادا نہیں کیا گیا۔ پاکستان کو اسلامی سربراہی کانفرنس کا اجلاس جلد بلانا چاہئے اور کشمیر ایشو پر اسلامی ممالک کو یک آواز بنانا چاہئے۔ اگر آج اسلامی دنیا بھارت کا تجارتی بائیکاٹ کردے تو ہندوستان بہت جلد گھٹنے ٹیکنے پرمجبور ہو جائے گا۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی کو بھی از سر نو تشکیل دینا چاہئے۔ ہمارے حکمرانوں کی عاقبت نااندیشی کی وجہ سے ہمارے ہمسایہ مسلم برادر ملک افغانستان اور ایران ہم سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ انڈیا اس صورتحال سے بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے۔ وہ پاکستان کی دشمنی میں افغانستان اور ایران سے اپنے تعلقات بڑھا رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارت نے ریاستی دہشتگردی کی انتہا کر دی ہے۔ بھارت نہتے کشمیری مسلمانوں پر تشدد کے پہاڑ توڑ رہا ہے مگر نجانے کیوں یہ برادر مسلمان ممالک اس مسئلے کوحل کرنے کے لئے وہ کردار ادا نہیں کر رہے جو انہیں کرنا چاہئے۔ حکومت پاکستان کو ان مسلم ممالک میں اپنے سرکاری وفود بھیج کر انہیں اصل حقائق سے آگاہ کرنا ہو گا۔ اسی طرح دیگر اسلامی ملکوں، امریکہ اور یورپی ملکوں میں بھی کشمیر کے مقدمے کو موثر طور پر پیش کرنا وقت کا ناگزیر تقاضا ہے۔ اگر اب بھی ہم نے سستی اور غفلت کا مظاہرہ کیا تو کشمیر کازکے ساتھ یہ بہت بڑی زیادتی ہوگی۔
پاکستان نے ہمیشہ ایران اور سعودی عرب دونوں برادر ملکوں کے ساتھ تعلقات میں توازن پیدا کیا ہے۔ ایران کو یہ باور کرانے کی ضرورت ہے کہ40اسلامی ملکوں کا اتحاد ایران کے خلاف نہیں داعش کے خلاف ہے۔ سعودی عرب کو چاہئے کہ وہ ایران کو بھی اس فوجی اتحاد میں شامل کرے تاکہ اُس کے تحفظات دور ہو سکیں۔ اس وقت اسلامی ممالک مسائل میں گھرے ہوئے ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں بھی آگ اور خون کا کھیل جاری ہے۔ اگر مسلم دنیا اپنے مسائل کے حل کے لئے اکٹھی ہو جائے تو بہت جلد کشمیر اور فلسطین کے عوام کو آزادی نصیب ہوسکتی ہے۔ کشمیر اور فلسطین پربھارت اور اسرائیل نے قبضہ کیا ہوا ہے۔ امریکہ اور اس کے حواریوں نے مسلمانوں میں فرقہ واریت کا ایسا بیج بویا ہے کہ پوری امت منتشر ہو چکی ہے۔ اس وقت پاکستان اور ترکی دو ایسے ممالک ہیں جو امت مسلمہ کو متحد اور بیدار کرسکتے ہیں۔ حکومت پاکستان کو کشمیر کے حساس ایشو پر سیاسی جماعتوں کے سربراہوں پرمشتمل وفد کو بھی عالمی طاقتوں اور اہم اسلامی ملکوں کے پاس بھجوانے کا اہتمام کرنا چاہئے۔ اس سے قبل پارلیمانی وفود کو مختلف ممالک میں بھی بھجوایا گیا ہے لیکن اب اس سلسلے کو مزید آگے بڑھانا چاہئے۔ جموں و کشمیر کے معاملے پر پوری قوم متفق ہے۔ سینیٹر سراج الحق، عمران خان، بلاول بھٹو اور دیگر قائدین پر مشتمل وفد کو بیرونی ممالک بھیجنے سے مسئلہ کشمیر دنیا کے سامنے اجاگر ہو گا اور پاکستانی موقف کو یقیناً پذیرائی ملے گی۔


.
تازہ ترین