تبدیلی کا نعرہ ہر دور اور ہر عہد میں بہت ہی دلفریب رہا ہے۔ ابتدائے آدمیت سے لے کر آج تک شاید ہی کوئی ایسی تحریک ہو جس کے منشور یا ایجنڈے میں یہ سحر آفریں عہد یا اقرار شامل نہ ہو۔ دنیا نام ہی تغیر و تبدل کا ہے۔ جب معاشرہ طویل عرصہ تک ایک ہی ڈگر پہ چلتے چلتے ،بدلتے زمانے کی رُتوں کو اپنے وجود میں سمونے سے قاصر رہے تو اُس معاشرے کی کوکھ سے مزاحمتی عناصر جنم لیتے ہیں جو تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوتے ہیں۔
ملک یا معاشرے میں اصلاح احوال کیلئے ترجیحات اور حکمت عملی کو اولین اہمیت حاصل رہی ہے۔ اس اَمر کی نشاندہی اور اعتراف بیحد لازم ہے کہ سماج میں اچھی اور آسودہ طرز زندگی کی تمام نشانیاں اور علامتیں موجود ہونے کے باوجود معاشرہ رُک سا گیا ہے۔ ترقی کی منزل کی جانب بڑھ نہیں رہا۔ ملک و قوم اور افراد کے اجتماعی یا نجی مسائل میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ فطرت کا رنگ سموئے ہوئے سبز پاسپورٹ بیرونی دنیا میں عزت و احترام کی علامت نہیں رہا۔ اقوامِ عالم ہم سے تجارتی روابط بڑھانے کو تیار نہیں۔ ہماری آبادی کی ایک بڑی تعداد غربت کی لکیر سے نیچے جسم و جان کا ناطہ قائم رکھنے پر مجبور ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں تحریک پاکستان کے دوران جو جذبہ، جوش اور جنون موجزن تھا ۔ اُس کے پیش نظر خیال کیا جاتا تھا کہ پاکستانی قوم اِس قومی ولولے کو بروئے کار لاتے ہوئے اقوامِ عالم کی صفوں میں ممتاز مقام حاصل کرلے گی لیکن قیامِ پاکستان کے فوراً بعد قائداعظم کو اپنی جیب میں کھوٹے سکوں کا اعتراف کرنا پڑا، جن کی تعداد وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتی چلی گئی۔ پاکستان روز اول ہی سے بین الاقوامی ریشہ دوانیوں کے پیش نظر داخلی عدم استحکام کا شکار رہا۔ بھارت میں جواہر لال نہرو 1947ء سے تادمِ مرگ یعنی 1964ء تک مسلسل وزیراعظم رہے جب کہ اِس عرصے کے دوران پاکستان میں ایک درجن کے قریب گورنر جنرل اور وزیراعظم تبدیل ہوتے رہے۔ اِس بدانتظامی اور نہایت برے طرزِ حکمرانی میں محمد ایوب خان، یحییٰ خان،ضیاء الحق اور پرویز مشرف جیسے حکمران سیاہ و سفید کے مالک ہونے کے باعث بہت بہتری پیدا کرسکتے تھے لیکن یہ بھی اپنے آپ کو ہردلعزیز جمہوری حکمران ثابت کرنے کی کوشش میں ملک کے اندر مزید بگاڑ اور ابتری کا سبب بنتے چلے گئے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی محاذآرائی بھی ایک طویل عرصہ چلتی رہی۔
اقتدار کی رسہ کشی میں کئی دہائیاں گزر گئیں۔ نقصان ملک کا ہوا۔ عوام تباہ حال ہوئے۔ادارے ٹوٹ پھوٹ گئے۔ بدعنوانی اور رشوت ستانی کو حکومتی کارپردازوں نے اپنا حق سمجھ کر عام آدمی کو خوب لوٹا بلکہ آج بھی یہ عمل جاری ہے۔ اسی دوران ملک کی دو بڑی جماعتوں پی پی پی اور مسلم لیگ ن کے قائدین نے جمہوری عمل کو جاری اور ہر حال میں مستحکم رکھنے کا فیصلہ کیا ۔ یہ عہد نامہ بلاشبہ ملکی اداروں کی مضبوطی اور استحکام کیلئے سنگ میل ثابت ہوا ۔ پی پی پی حکومت نے دیگر جماعتوں کی معاونت سے بہت سی آئینی اصلاحات کیں۔ قیام پاکستان کے 66سال بعد پہلی مرتبہ ملک میں پُرامن اور جمہوری انداز میں انتقال اقتدار ممکن ہوا۔ اِس پس منظر میں آج ملک میں مسلم لیگ ن کی حکومت قائم ہے۔
مسلم لیگ ن کے قائد میاں محمد نواز شریف نے انتخابی مہم کے دوران پاکستانی عوام سے وعدہ کیا تھا کہ’’ اُن کے لئے اقتدار کوئی اہمیت نہیں رکھتا وہ ماضی میں دو مرتبہ وزیراعظم رہ چکے ہیں اور وہ اِس لئے عوام سے مینڈیٹ چاہتے ہیں کہ اقتدار میں آکر ان کا طرز زندگی بدل سکیں۔ اُن کے شب و روز میں خوشحالی لاسکیں‘‘۔ موجودہ حکومت نے افواج پاکستان کی بھرپور مدد اور لگن کیساتھ جس طرح ملک سے دہشت گردی کے ناسور کو ختم کیا، انرجی بحران پر قابو پانے کیلئے متعدد منصوبوں کا آغاز کیا نیز انفراسٹرکچر کے حوالے سے کئی بڑے پروجیکٹ ریکارڈ مدت میں مکمل کئے یا زیر تعمیر ہیں اس کارکردگی کے پیش نظر پاکستانی عوام بہت پر امید ہیں کہ موجودہ حکمراں ملک میں احسن طرز حکمرانی کی عمدہ مثال بھی قائم کریں گے۔ اس حقیقت کا ہر شخص معترف ہے کہ ماضی کی نسبت صورت احوال میں کافی بہتری پائی جاتی ہے۔ اداروں کے سربراہوں کی اسامیاں نیلام نہیں ہوتیں۔ ٹھیکے من پسند لوگوں کو دینے کی بھی مصدقہ شکایات نہیں ہیں۔ اعلیٰ حکام کے ایسے آلہ کار بھی سرعام نہیں ملتے جو ہر جائز اور ناجائز کام کروانے کے دام وصول کرتے ہوں۔ حالات بہتر ضرور ہیں لیکن ان میں بہت زیادہ بہتری کی ضرورت ہے۔ افسر شاہی اور کلرک بادشاہ آج بہت زیادہ طاقتور ہیں۔ قدم قدم پر کھلے عام کرپشن اور بدعنوانی کی ہوشرباشکایات ملتی ہیں۔ بیوروکریسی بھی قیام پاکستان کے بعد پیش آنے والے حالات کے پیش نظر سیاست زدہ ہوگئی۔ افسر شاہی نے حکومتی جماعت اور دیگر جماعتوں کے قائدین سےبھی یکساں تعلقات استوار کر رکھے ہیں۔ اُنہیں کسی کی پروا نہیں۔ آج سیاستدان، سیاست نہیں کررہے بلکہ یہ شاہی طبقہ سیاست کررہا ہے۔
گڈ گورننس کیلئے احتساب اور کڑی نگرانی کا نظام وزراء کی اہلیت ، سیکریٹریوں اور محکموں کے سربراہان، آئی جی پولیس اورکمشنروں کی کارکردگی سے کرنا ہوگا۔ جس محکمے میں بدعنوانی ہو۔ کارکردگی کے حوالے سے عوام سوال اٹھائیں۔ اس محکمے کے سربراہ کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایاجائے۔ حقیقی تبدیلی تب ہی آئے گی جب عام آدمی کو ریلیف ملے گا۔ اسے اپنے جائز کام اور آئین و قانون میں دیئے گئے بنیادی حق کیلئے دربدر کی ٹھوکریں نہیں کھانا پڑیں گی۔
ماضی کی تاریخ اور حال کا مشاہدہ گواہ ہے کہ تمام معاشروں میں قانون کی حکمرانی قائم کرنے کیلئے احسن طرز حکمرانی اور گڈ گورننس کے خواب کو تعبیر صرف ایک ہی صورت میں ملتی ہے کہ حکمراں خود رعایا کیلئے ایک مثال بن جائیں۔ اگر حکمراں تبدیل ہوجائیں تو قوموں کی تبدیلی کا سفر جلد تکمیل کو پہنچ جاتا ہے۔ تمام انبیاء کرام اور بالخصوص ہمارے پیارے نبیﷺکی سیرتِ پاک اس سنہری اصول کی جیتی جاگتی تصویر ہے۔ جن کے نقشِ پاء پر چل کر ریاست مدینہ نے پوری دنیا پر صرف حکمرانی نہیں کی بلکہ احسن طرز حکمرانی کی مثال قائم کی۔ ماضی قریب کی تاریخ سے چین کے مائوزے تنگ، فرانس کے جنرل چارلس ڈیگال اور ملائشیا کے مہاتیر محمد جیسے حکمرانوں کی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ ایک واقعہ آپ کی خدمت میں پیش کرتا چلوں ۔ ہم آئے روز مشاہدہ کرتے ہیں کہ عام سڑکوں پر لوگ ٹریفک اُصولوں کی بالکل پروا نہیں کرتے۔ اگر پولیس والا موجود نہیں ہے تو اکثر لوگ ٹریفک سگنل کو خاطر میں نہیں لاتے۔ سیٹ بیلٹ باندھنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ پارکنگ کرتے وقت اس بات کا خیال نہیں کرتے کہ اس جگہ پارکنگ ہو سکتی ہے یا نہیں۔ مقررہ رفتار سے بہت زیادہ رفتار سے گاڑی دوڑانا تو ایک عام معمول ہے لیکن موٹروے پر جاتے ہی ہمارا طرز عمل یکسر بدل جاتا ہے۔ سیٹ بیلٹ، سگنل، پارکنگ اور اسپیڈ سب کچھ بین الاقوامی معیار کے مطابق ہوجاتا ہے۔ موٹر وے پر کوئی اعلٰی سے اعلٰی افسر بھی مقررہ رفتار سے زیادہ گاڑی چلانے کا تصور نہیں کرسکتا۔ موٹر وے پر قانون کی حکمرانی کا پس منظر یہ ہے کہ موٹروے کا افتتاح ہونے کے صرف چند دنوں کے بعدموٹر وے پولیس نے وزیر اعظم کی گاڑی کا اوور اسپیڈنگ کے باعث چالان اور جرمانہ کردیا تھا۔ وزیراعظم کی گاڑی کے چالان کو چند دن ہی گزرے تھے کہ موٹر وے پولیس کے پہلے انسپکٹر جنرل افتخار رشید کی گاڑی کا بھی اوور اسپیڈنگ پر چالان کردیا گیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ دونوں چالان ملک کے بالا طبقات کو پیغام دینے کیلئے کئے گئے ہوں گے لیکن اس کے اثرات آج بھی اسی طرح قائم ہیں۔
جی ہاں ۔ جناب وزیر اعظم اگر آپ ملک میں قانون اور میرٹ کی حکمرانی کو یقینی بنادیں گے تو پھر آپ اَمر ہوجائیں گے۔ تاریخ کے اوراق آپ کو یاد رکھیں گے۔ آپ کو آج بھی نااہلی یا کرپشن کی شکایت پر اپنے کسی وزیر، سیکریٹری یا کسی محکمے کے سربراہ کا چالان کاٹنا پڑے گا پھر دیکھئے تبدیلی کیسے آتی ہے۔ گڈگورننس کیلئے تبدیلی صرف ایک ہی صورت میں ممکن ہے۔ وہ ہے احتساب کا سفراُوپر سے نیچے کی جانب۔