گزشتہ دنوں اسلام آباد سے بہاولپور جانے کیلئے روانہ ہوا تو دوران سفر مطالعہ کیلئے کچھ کتابیں اور سرکاری اعداد و شمار پر مبنی کچھ تفصیلات بھی گاڑی میں رکھ لیں، آسمان پرچھائے سیاہ گھنے بادلوں اور ٹھنڈی ہوائوں نے موسم کو خاصا خوشگوار بنادیا تھا۔ ایسے میں موٹر وے کا دلفریب نظارہ اور پچاس ارب روپے کی لاگت سے جاری سڑک کے بنائو سنگھارنے سفر کو مزید آرام دہ بنا دیا ہے۔ یوں محسوس ہوا کہ جیسے میں کپاس کے نرم ریشوں سے بنی کسی دبیز سطح پر جارہا ہوں۔ مجھے اپنے مقدر پر رشک آیا کہ ہمارے لئے حکمرانوں نے کیسے کیسے پر آسائش سامان فراہم کئے ہیں، لیکن ایسی کسی بھی آسائش کو محسوس کرنے کیلئے ہمیں کپاس پیدا کرنے والے پسماندہ بہاولپور کے پاکستان سے نکل کر حکمرانوں کے خوشحال پاکستان میں آنا پڑتا ہے۔ وہ بہاولپور کہ جس کے فرمانروا نے 1946میں قائد اعظم محمد علی جناح کو لکھا تھا کہ آپ کبھی پاکستان کے قیام کے بارے میں رنجیدہ نہ ہوں کیونکہ ریاست بہاولپور کی شکل میں ایک پاکستان اب بھی موجود ہے۔
آرام دہ سفر کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میں کار کی پچھلی نشست پرپڑی ہوئی کتاب کی ورق گردانی کرنے لگا، معاً میری نظر ایک صفحے پر رک گئی 12اگست1947کو قائداعظم محمد علی جناح کراچی میں نواب آف بہاولپور سر صادق محمد خان عباسی پنجم کی رہائش گاہ القمر پیلس تشریف لاتے ہیں فقید المثال استقبال کے بعد ریاست بہاولپور کی فرسٹ انفنٹری رجمنٹ پاکستان کے نامزدگورنر جنرل کو پہلا اسٹیٹ گارڈ آف آنر پیش کرنے کا اعزاز حاصل کرتی ہے اور پورے بہاولپور میں خوشی کے شادیانے بجتے ہیں۔ دو روز بعد قائداعظم BWP-72نمبر والی رولز رائس کار جسے نواب آف بہاولپور کا ذاتی ڈرائیور عبدالرحمٰن چلا رہا ہے، میں بیٹھ کر گورنر جنرل کا حلف اٹھانے جاتے ہیں۔ یہ وہی کار ہے جو آج بھی قائداعظم میوزیم کراچی میں موجود ہے۔
1906 میں مسلم لیگ کے قیام کے موقع پر خطیر مالی تعاون سے لے کر تحریکِ پاکستان اور قیامِ پاکستان کے بعد استحکام ِ پاکستان کیلئے متحدہ ہندوستان کی امیر ترین ریاست نے اپنے تمام وسائل بانی پاکستان اور مملکتِ پاکستان پر نچھاور کردئیے اور سب سے پہلے پاکستان کے ساتھ الحاق کرکے ثابت کردیا کہ واقعی بہاولپور، پاکستان سے پہلے بھی پاکستان تھا۔ اسی لئے 7اکتوبر1947کو قائداعظم نے بہاولپور کے پاکستان کے ساتھ الحاق کی توثیق کرتے وقت اسے فیڈریٹنگ یونٹ آف پاکستان کا درجہ دے کر اس خطے کو محسن ِ پاکستان ہونے کا اعزازدیا۔
شیشے کی مانند سڑک کی روانی اور قیامِ پاکستان کے وقت پھیلی ہوئی امید کی روشنی کے تصور نے وقت گزرنے کا احساس ہی نہ ہونے دیا، میں تاریخ پاکستان کی خوبصورت گزرگاہوں میں گم تھا کہ اچانک شدید جھٹکوں نے حسین یادوں کے تسلسل کو توڑ دیا، کیوں نہ ٹوٹتا، گاڑی لاہور ملتان ایکسپریس وے سے اتر کر خانیوال بہاولپور لنک روڈ (N-5 A ) پر آچکی تھی ۔
یہ سڑک لاہور سے کراچی کے فاصلے کوتقریباً پچاس کلومیٹر کم کرتی ہے وگر نہ خانیوال سے ملتان ایک لمبا چکر کاٹتے ہوئے بہاولپور، کراچی روڈ پر آنا پڑتا ہے۔ جگہ جگہ سے ٹوٹی ہوئی سٹرک، ٹرالوں، بسوں، گاڑیوں، رکشوں اور موٹر سائیکلوں کے بے ہنگم رش اور جگہ جگہ ٹریفک کی بندش کے باعث انتہائی سست رفتاری سے کٹتے سفرنے مجھے 10جنوری 2012کو بہاولپور کے سرکٹ ہائوس میں ہونے والی پسماندہ علاقوں کے مسائل کے بارے میں قائم سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی کی میٹنگ یاد دلا دی۔ کمیٹی کے چیئرمین ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ (موجودہ وزیرِاعلی بلوچستان) اور تمام ممبران کمیٹی لمبا سفر کرکے بہاولپور کے عوام کی شکایات اور محرومیوں کا جائزہ لینے کیلئے خود بہاولپور تشریف لائے تھے۔ اس موقع پر مرکزی حکومت کے اداروں نے علاقے سے متعلق اپنی رپورٹس پیش کیں۔ نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے سینئر افسر بریفنگ دے رہے تھے کہ ’’فیصل آباد خانیوال موٹر وے M-4 اور لاہور خانیوال ہائی وے N-5 کو بہاولپور سے ملانے والی ایکسپریس وے کو E-5 کا نام دیا گیا ہے جو سکھر تک جائے گی ECNEC نے اسے قومی تجارتی راہداری کا حصہ قرار دیا ہے،بعد میں اسے موٹروے بنا دیا جائے گا۔ یہ منصوبہ دومراحل میں مکمل ہوگا، پہلے مرحلے میں خانیوال سے بہاولپور براستہ لودھراں 100 کلومیٹر کا پی سی ون ECNEC سے منظور ہوچکا ہے ۔Row Makers لگائے جاچکے ہیں۔چوالیس دیہات کی 2167 ایکڑ زمین حاصل کرنے کیلئے سیکشن 4کے تحت ایل اے اے سرکاری گزٹ میں شائع ہوچکا ہے اور لینڈ ایکوزیشن کیلئے کچھ فنڈز بھی منتقل کئے جاچکے ہیں ، انوائرنمنٹل اور سوشل ایمپیکٹ رپورٹس فائنل ہوچکی ہیں۔ منصوبے پر 21.14ارب روپے لاگت آئے گی جس کا 80 فیصد ورلڈ بینک اور 20فیصد حکومتِ پاکستان دے گی۔ اس منصوبے کا دوسرا حصہ (بہاولپور سے سکھر) بھی ورلڈبینک نے منظور کرلیا ہے، E-5 کی کل لمبائی 424 (100+324) کلومیٹر ہوگی اورسکھر سے اسے ایک موٹر وے کے ذریعے کراچی اور دوسری موٹر وے کے ذریعے خضدار اور گوادر سے ملایا جائے گا۔یہ سڑک پاکستان کی دفاعی وا سٹرٹیجک ضروریات کو پورا کرنے اورخطے کی خوشحالی کے ساتھ ساتھ بہاولپور کے پسماندہ علاقوں کی ترقی میں اہم کردار ادا کرے گی۔اس سڑک کو ہر حال میں بننا چاہئے‘‘ بریفنگ دینے والے سرکاری افسر کی زبان اس سے آگے اور کچھ نہ کہہ سکی۔( اس بریفنگ کی پوری تفصیل جلد ہماری ویب سائٹ پر فراہم کردی جائے گی)۔
منصوبے کی تمام تر اہمیت و افادیت کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ جس منصوبے کی تمام جزئیات مکمل اور منظور ہو چکی تھیں وہ آج تک مکمل نہیں کیا گیا ۔کیونکہ 2012میں اس وقت کے وزیرِاعظم نے اپنی ذاتی خواہش پر حکومتِ پاکستان کی طرف سے مختص کئے گئے20فیصد فنڈز پہلے سے تعمیر شدہ خانیوال ملتان ایکسپریس وے کے متوازی، نئی موٹر وے کی تعمیر کیلئے منتقل کردئیے ۔ اس اقدام کے بعد ورلڈ بینک نے رقم کی فراہمی روک لی۔
انگریزوں نے کراچی کو لاہور سے ملانے والی ریلوے لائن بنائی تو اسے بہاولپور سے گزارا ۔ کراچی ہو یا گوادر اسے لاہور سے ملانے کیلئے مختصر ترین راستہ بہاولپور سے ہوکر گزرتا ہے اسی لئے ماضی کے بدیسی حکمرانوں نے بھی ہمیشہ اسی راستے کو ترجیح دی لیکن ہمارے حکمرانو ں کو خطہ بہاولپور سے معلوم نہیں کیا دشمنی ہے کہ1960میں اس کے دریا، ستلج اور بیاس بیچ دیئے گئے، یحییٰ خان نے اس کی صوبائی حیثیت ختم کردی اور اسے پسماندگی کی راہ پر ڈال دیا (1970 سے آج تک کے بجٹ اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ اس خطے کو غربت کی طرف دھکیلا جارہا ہے) اور سابقہ حکومت نے E-5 کی تعمیر روک کر قومی جرم کا ارتکاب کیا۔ اب بہاولپور سے قومی اسمبلی کی پندرہ میں سے بارہ نشستیں جیتنے والی موجودہ حکومت نے جب خانیوال سے کراچی اور گوادر تک اقتصادی راہداری بنانے کا فیصلہ کیا تو ECNEC کی سفارشات کو رد کرکے اور سابقہ فیصلوں کو بدلتے ہوئے اس بات کا خصوصی اہتما م کیا کہ بہاولپور کے پسماندہ علاقے کو ان منصوبوں سے کوئی فائدہ نہ پہنچ پائے اور اسے بہاولپور سے کاٹ کر متبادل راستوں سے گزارنے کا فیصلہ کیا گیا خواہ اس سے سفر کتنا ہی طویل کیوںنہ ہوجائے۔ اب موٹر وے اور اقتصادی راہ داری بہاولپور کو چھوئے بغیر ملتان سے براہِ راست سکھر جائے گی۔ ایک تسلسل سے اسی انداز میں کئے جانے والے اقدامات کی وجہ سے بہاولپور آج پنجاب کا پسماندہ ترین ڈویژن ہے، جہاں 52فیصد لوگ خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں، یہاں کے غریب لوگ زندگی سے اپنا ناطہ جوڑے رکھنے کیلئے ملک کے طول و عرض میں مزدوری کرتے نظر آتے ہیں۔ پاکستان کے قیام اور اس کی ترقی کیلئے سب کچھ قربان کرنے کی، اور قائد اعظم کی اس خطے سے والہانہ محبت کی سزا خطہ بہاولپور میں بسنے والے آخر کب تک بھگتیں گے؟