• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’برا جو دیکھن میں چلا برا نہ دیکھا کوئے‘‘

ہم زندہ قوم ہیں اور نان سٹاپ اپنی زندگی کا ثبوت پیش کرتے رہتے ہیں۔ جب یونیورسٹی طلبہ اپنے اساتذہ پر ’’الٹنا پلٹنا پلٹ کر جھپٹنا‘‘ کی پریکٹس کرتے ہیں تو میرا مغز سے خالی سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے، جب وکلاء ججوں پر یلغار کرتے ہیں تو طبیعت خوش ہو جاتی ہے، اسمبلی میں کبڈی ہوتے دیکھ کر میری جمہوری خوشی کا ٹھکانہ نہیں رہتا۔ اب ماشاء اللہ ینگ ڈاکٹرز اور سینئر پروفیسرز کے درمیان گھمسان کا رن دیکھ کر تو میں نہال ہو گیا ہوں۔ یہ ہاتھا پائی، مارکٹائی اور گھسن مکی کچھ اور نہیں درحقیقت صرف ’’لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ‘‘ کیونکہ ’’تیغوں کے سائے میں ہم پل کر جواں ہوئے ہیں‘‘ اسی لئے ہم سب ایک دوسرے کے لئے شمشیران برہنہ ہیں۔ ہمیں برہنگی ناپسند ہے لیکن شمشیر برہنہ ہمارے ڈی این اے کا حصہ ہے۔ گدھے کے گوشت کا برا منانے والے دراصل خود گدھے ہیں جو اسے حرام کہتے ہیں کیونکہ جس جانور کی کمائی’’ حلال‘‘ ہو وہ خود کیسے ’’حرام‘‘ ہو سکتا ہے؟ اور پروٹین سے بھرپور گدھا تو یوں بھی امریکہ جیسی سپر پاور کی لیڈنگ سیاسی پارٹی کا نشان ہے۔ قومی غیرت سے بھرپور ہمارے ایسے ہی لاتعداد مظاہروں پر معترض ہونا ہمارے خلاف اہل مغرب کی سازش ہے لیکن ایسی مکروہ سازشیں ہمیں اپنے عظیم مقصد کے حصول سے باز نہیں رکھ سکیں گی۔ پورے یورپ، امریکہ، کینیڈا میں سے کوئی ایک ہے جو ہمارا مقابلہ کر سکے؟ کوئی ایک ملک بتائو جہاں پینے کا صاف پانی تو ہو نہ لیکن میٹرو چل رہی ہو؟ ہم زندہ قوم ہیں اور کبھی کبھی تو زندگی کا ثبوت دیتے دیتے درندگی پر سوار ہو کر قصور کے گنڈا سنگھ والا تک بھی پہنچ جاتے ہیں۔ کوئی ہے جو بچوں کی ریڑھ کی ہڈی میں انجیکشن لگا کر منہ کالا کرنے کی ٹیکنالوجی میں ہمارا مقابلہ کر سکے؟ یہ صرف ہم ہی ہیں جو دل کے مریضوں کو دو دو سال بعد کی تاریخیں دے کر ان کا تاریخی علاج کرتے ہیں؟قارئین!اتنی خوشیاں پنجے نکالے دانت نکوسے میرے اردگرد مجنونانہ رقص کر رہی ہیں کہ میں تھک سا گیا ہوں کیونکہ مسلسل جشن کی سی کیفیت بھی انسان کو بے حال اور نڈھال سا کر دیتی ہے۔ مدت ہوئی میں نے شاعری اور فکشن کی عیاشی کو اپنے اوپر حرام کر رکھا ہے لیکن جب ضرورت سے زیادہ تھک جائوں، بے حساب خوشی کے جواب میں اعصاب جواب دینے لگیں تو سیلف ٹریٹمنٹ کے لئے خاص قسم کی شاعری کو تھیرپی کے طور پر استعمال کرتا ہوں۔ اگر آپ بھی میری طرح اس جشن مسلسل سے تھک گئے ہیں تو میرے والا نسخہ آزمایئے اور تازہ دم ہو جائیے کہ دو دن بعد چودہ اگست ہے۔ تازہ دم نہیں ہوں گے تو جشن آزادی کیسے منائیں گے؟’’راجہ دکھیا پرجا دکھیا جوگی کو دکھ دو نارےکہت کبیر سنو بھئی سادھو اک مندر نہیں سونارے‘‘یعنی راجہ بھی دکھی، رعایا بھی دکھی۔ جوگی ان دونوں سے دوگنا دکھی لیکن ایک مندر بھی ایسا نہیں جو آباد نہ ہو۔’’کر کانپے لیکھن ڈگے اور روم روم تھرائےسدھ آوے تو چھاتی پھٹے، جو پاتی لکھی نہ جائے‘‘حالات ایسے ہیں کہ ہاتھ سے قلم گر گر جاتا ہے، جب ہوش آئے تو سینہ پھٹتا ہے اور (خالق کے نام) چٹھی نہیں لکھ پاتا۔’’راما مر گئے کرشنا مر گئے مر گئی لکھو بائیاس کو سادھو کیوں ناہیں پوجو جس کو موت نہ آئی‘‘رام اور کرشن جیسے اوتار مر گئے ، لکھو بھائی جیسی بدکار مر گئی تو جوگی اس کو کیوں نہ پوجے جس کو کبھی موت نہ آئے گی۔’’جاکی جیسی سبھائو جائے کبھی نہ جی سےنیم نہ میٹھی ہو گی چاہے سینچئے گڑ اور گھی سےبدکار اپنی عادت کے ہاتھوں مجبور ہوتا ہے جیسے نیم کے درخت کو گڑ شکر گھی سے بھی سینچو تو وہ کڑوا ہی رہے گا۔’’نیچ اتم پرکرت سے کیا کوئی کرے کسنگبِکھ چندن لاگی نہیں جو چاہےلپٹے رہے بھبنگ‘‘رذیل بھلے آدمی کو برا نہیں بنا سکتا جیسے سانپ صندل کی شاخ سے لپٹا بھی رہے تو اسے زہریلا نہیں کر سکتا۔’’تلسی بھروسے رام کے رہو کھاٹ پر سوئےان ہونی ہونی نہیں، ہونی ہو سو ہوئے‘‘اے بندے! اللہ کے بھروسے سکون لے کیونکہ انہونی تو ہو گی نہیں اور جو ہونی ہے وہ ہو کے رہے گی اور کوئی نہ روک سکے گا۔’’جھوٹے گھر کو گھر کہیں سانچے گھر کو گورہم تو چلے گھر آپنے یہ لوگ مچاویں شور‘‘انسان وقتی اور عارضی ٹھکانے کو تو گھر کہتا ہے جبکہ اصلی دائمی گھر کو قبر سمجھتا ہے، ہم اپنے اصلی گھر کو جا رہے ہیں تو لوگ شور مچا رہے ہیں۔’’یہ تن وش کی بیل ہے، گورو امرت کی کھانسیس دیئے جو گورو ملیں تو اس کو سستا جان‘‘یہ جسم تو زہر کی بیل ہے (جو خود ہی خود کو کھا جائے گا) لیکن مرشد تو آب حیات کا چشمہ ہے جو سردے کر بھی مل جائے تو سودا سستا ہے۔’’خوب پرکھ کی دیکھ کبیرا یہ مُردوں کا گائوںاس میں جُگ بھر کوئی جیا ناں، کس کا لیجیے نائوں‘‘یہ دنیا تو مُردوں کی بستی ہے جہاں کبھی کوئی ہمیشہ زندہ نہ رہا۔ بڑے بڑے مر گئے تو کس کس کا نام لوں۔’’جاکو راکھے سائیاں مار سکے نہ کوئےبال نہ بانکا کر سکے جو جگ بیری ہوئے‘‘جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے چاہے ساری دنیا ہی اس کی دشمن کیوں نہ ہو جائے۔’’پریم بھائو اک چاہیے بھیک انیک بنائےچاہے گھر میں باس کرے تو چاہے بن میں جائے‘‘محبت اور خلوص درکار ہے چاہے بھیس اور حلیہ جیسا بھی ہو اور اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کہ تم گھر میں رہ رہے ہو یا جنگل میں ۔’’دھن اور جوبن کا گز کبھو بھی کریئے ناہیںدیکھت ہی مٹ جاوت ہیں جو بادر کی چھائیںدولت حسن جوانی پر کبھی غرور نہ کریں کہ یہ تو بادلوں کی طرح چھٹ کر غائب ہونے والی ہیں۔’’جنم مرن دکھ یاد کر، کوڑے کام نوارجن جن پنھتوں چالنا سونی پنتھ سوار‘‘اپنی پیدائش اور موت کی تکلیف یاد کر، گندے جھوٹے کام ترک کر دے اور جن رستوں پر دائم چلنا ہے اس کی تیاری کر۔’’برا جو دیکھن میں چلا برا نہ دیکھا کوئےجو دل کھوجا آپنا مجھ سے برا نہ کوئے‘‘میں برے ڈھونڈنے نکلا تو بھید کھلا کہ مجھ سے برا تو ہے ہی کوئی نہیں۔
تازہ ترین