سندھ حکومت نے سولر پینلز پر 18 فیصد ٹیکس کی مخالفت کر دی۔
ترجمان وزیرِ اعلیٰ ہاؤس عبدالرشید چنا کے مطابق وزیرِ اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے بعد از بجٹ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کیا، مالی مشکلات کا اعتراف بھی کیا۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کے ذمے اب بھی 422.3 ارب روپے واجب الادا ہیں، سیف سٹی منصوبے کا پہلا مرحلہ ستمبر 2026ء تک مکمل ہو گا، آئی آئی چندریگر روڈ پر لگے کیمروں نے مشتبہ افراد کی شناخت شروع کر دی، کبھی پی ٹی آئی کے دباؤ میں آئے نہ ہی ایم کیو ایم کے ہاتھوں بلیک میل ہوں گے۔
وزیرِ اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے بجٹ کے بعد ایک تفصیلی پریس کانفرنس میں صوبے کے لیے ایک پُرعزم مالی اور ترقیاتی ایجنڈے کا اعلان کیا، ساتھ ہی سنگین مالی چیلنجز اور وفاقی کٹوتیوں پر بھی روشنی ڈالی۔
مراد علی شاہ نے کانفرنس کا آغاز ایران پر حالیہ اسرائیلی حملے کی شدید مذمت سے کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس حملے کے خلاف اپنا احتجاج بجٹ اجلاس میں ہی ریکارڈ کرا چکے تھے اور فوری طور پر ایک اجلاس بلا کر اس جارحیت کے خلاف قرارداد بھی منظور کرائی۔
وزیرِ اعلیٰ سندھ نے اپوزیشن کے جانب سے قرارداد کی منظوری کے دوران پیدا کی گئی ہنگامہ آرائی پر افسوس کا اظہار کیا اور سوال اٹھایا کہ اپوزیشن نے اس کی مخالفت کیوں کی؟ ساتھ ہی حکومت کے دہشت گردی کے خلاف سخت مؤقف کو بھی دہرایا۔
وزیرِ اعلیٰ سندھ نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے اپنا 17 واں مسلسل صوبائی بجٹ پیش کیا ہے جو سیاسی تسلسل اور مؤثر حکمرانی کا ثبوت ہے۔
مراد علی شاہ نے وفاقی حکومت پر مالی وعدے پورے نہ کرنے پر تنقید کی اور انکشاف کیا کہ بجٹ پیش ہونے سے صرف ایک روز قبل سندھ حکومت کو آگاہ کیا گیا کہ متوقع 105 ارب روپے روک لیے جائیں گے، سندھ کو گزشتہ سال سے اب تک قابلِ تقسیم محاصل سے 1478.5 ارب روپے موصول ہوئے ہیں جبکہ 422.3 ارب روپے تاحال واجب الادا ہیں، وزیراعلیٰ نے امید ظاہر کی کہ یہ رقم جون کے اختتام تک جاری کر دی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف پروگرام کے تحت سخت مالی نظم و ضبط کی شرائط کے باوجود سندھ حکومت رواں سال ترقیاتی منصوبوں کے لیے 590 ارب روپے مختص کرے گی، مجموعی بجٹ کا حجم 3.45 کھرب روپے رکھا گیا ہے جس میں 1 کھرب روپے ترقیاتی اور 2.15 کھرب روپے جاری اخراجات کے لیے مختص ہیں، قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ تنخواہوں اور پنشنز کے لیے 1.1 کھرب روپے رکھے گئے ہیں جب کہ نچلے گریڈ کے ملازمین کی تنخواہوں میں 12 فیصد اور اعلیٰ گریڈ کے ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔
مراد علی شاہ نے کہا کہ رواں مالی سال کے بجٹ میں تعلیم کے شعبے کے لیے 18 فیصد اور صحت کے لیے 11 فیصد اضافی فنڈز مختص کیے گئے ہیں جبکہ زراعت، آبپاشی اور بلدیاتی منصوبوں کے لیے بھی بجٹ میں نمایاں اضافہ کیا گیا ہے، کراچی میں انفرااسٹرکچر منصوبوں کے لیے 236 ارب روپے رکھے گئے ہیں جن میں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت چلنے والے منصوبے بھی شامل ہیں۔
وزیرِ اعلیٰ نے خصوصاً سیلاب متاثرین کے لیے گھروں کی فراہمی سمیت سندھ کی سماجی بہبود کی کامیابیوں کو بھی اجاگر کیا، انہوں نے بتایا کہ اب تک 5 لاکھ گھر تعمیر ہو چکے ہیں جبکہ مزید 8.5 لاکھ زیرِ تعمیر ہیں جو مجموعی طور پر 13 لاکھ بنتے ہیں،اس تیز رفتار عمل کو عالمی سطح پر سراہا گیا ہے اور یہ نیپال میں زلزلے کے بعد کیے گئے اقدامات سے کہیں بہتر ہے۔
دیہی زندگی کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے مراد علی شاہ نے 600 ارب روپے کے واٹر اینڈ سینی ٹیشن منصوبے کا اعلان کیا جس سے 45 لاکھ دیہی افراد مستفید ہوں گے، یہ منصوبہ موجودہ حکومت کے دور میں مکمل کیا جائے گا جس میں دیہاتی اپنی نگرانی میں مقامی این جی اوز کے تعاون سے انفرااسٹرکچر بنائیں گے تاکہ پانی سے پھیلنے والی بیماریوں پر قابو پایا جا سکے، پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اس منصوبے کو ’انقلابی اقدام‘ قرار دیا ہے۔
وزیرِ اعلیٰ نے کہا کہ بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا بلکہ کئی ٹیکس ختم یا کم کر دیے گئے ہیں، تفریحی ٹیکس کا خاتمہ کیا گیا ہے، ریسٹورنٹ ٹیکس میں بھی کمی کی گئی ہے، تھرڈ پارٹی گاڑی انشورنس پر اسٹامپ ڈیوٹی 50 روپے کر دی گئی ہے جبکہ انشورنس ٹیکس 15 فیصد سے کم کرکے 5 فیصد کر دیا گیا ہے، آئی ایم ایف کی ہدایات کے مطابق ٹیکس سے مستثنیٰ اشیاء کی فہرست شائع کی جائے گی۔
مراد علی شاہ نے بتایا کہ سندھ حکومت زمین کے ریکارڈ کو بلاک چین کے ذریعے ڈیجیٹل بنا رہی ہے تاکہ آسان رسائی ممکن ہو سکے، چھوٹے کسانوں کو مفت لیزر لیولر فراہم کیے جائیں گے جبکہ بڑے کسانوں کے لیے سبسڈی دی جائے گی، کلسٹر فارمنگ ٹیکنالوجی بھی متعارف کرائی جا رہی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ تعلیم اور صحت میں اہم پیش رفت میں 34 ہزار نئے کاسٹ سینٹرز قائم کیے جا رہے ہیں، ہیڈماسٹرز کو انتظامی اخراجات کےلیے بجٹ میسر ہو گا، معذور افراد کی سہولتوں میں اضافہ کیا گیا ہے، ذہنی بحالی کے مراکز اور ہر ضلع میں یوتھ ڈیولپمنٹ سینٹرز قائم کیے جائیں گے، سندھ انسٹیٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ کے تحت بچوں کی صحت کا ایک جامع نیٹ ورک قائم کر دیا گیا ہے، سندھ ہاری کارڈ پروگرام کے تحت کسانوں کے لیے 8 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
وزیرِ اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے اپنی پریس کانفرنس میں کے فور واٹر پروجیکٹ کی ساخت پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ وفاقی حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ پانی کینجھر جھیل سے فراہم کرے، جبکہ سندھ حکومت اس پانی کی تقسیم کی ذمے دار ہے اور اس مقصد کے لیے ضروری فنڈز مختص کر دیے گئے ہیں، فیڈر لائن کے لیے 20 ارب روپے رکھے گئے ہیں جبکہ ایک مہنگے 5 ملین گیلن یومیہ صلاحیت کے سمندری پانی کو میٹھا بنانے کے پلانٹ کی بھی منصوبہ بندی کی گئی ہے، مراد علی شاہ نے اعتراف کیا کہ اگرچہ وفاقی فنڈز کی کمی اور آئی ایم ایف کی شرائط چیلنجز پیدا کر رہی ہیں، سندھ حکومت ترقی، سماجی فلاح اور مالی نظم و ضبط پر قائم ہے۔
وزیرِ اعلیٰ سندھ نے بتایا کہ گریڈ 1 سے 4 تک کی 20 سے 25 ہزار نوکریاں خالی ہیں، جنہیں جلد پر کیا جائے گا، گریڈ 5 سے 7 کی بھرتیاں آئی بی اے کے تحت ٹیسٹ کے ذریعے ہوں گی جبکہ گریڈ 16 کی اعلیٰ ملازمتوں کے لیے بھی تقرریوں کا عمل شروع کیا جا رہا ہے۔
مراد علی شاہ نے وفاقی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جب پی ڈبلیو ڈی اسکیمیں صوبوں کو منتقل ہوئیں تو سندھ کو صرف 18 منصوبے دیے گئے جو ناانصافی ہے، انہوں نے وفاقی بجٹ کی مشروط حمایت کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ترقیاتی منصوبوں کی منصفانہ تقسیم اور تعلیمی اداروں کی فنڈنگ بحال نہ کی گئی تو پاکستان پیپلز پارٹی بجٹ کی حمایت نہیں کرے گی، یونیورسٹی فنڈنگ میں 4 ارب سے کٹوتی کرکے 2 ارب روپے کر دیے گئے ہیں جس کے خلاف احتجاج جاری ہے۔
وزیرِ اعلیٰ نے سکھر-حیدرآباد موٹر وے پر بھی تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ اس منصوبے کے لیے وفاقی فنڈز 30 ارب روپے سے کم کرکے 15 ارب کر دیے گئے ہیں، اگر وفاق 25 ارب روپے برابر کا حصہ ڈالے تو سندھ بھی اتنی رقم دینے کو تیار ہے مگر وفاق نے یہ پیشکش رد کر دی، البتہ اسلامی ترقیاتی بینک 3 حصوں کے لیے فنڈنگ پر آمادہ ہے جب کہ باقی حصوں کے لیے بین الاقوامی مالی معاونت کے لیے مذاکرات جاری ہیں۔
مراد علی شاہ نے افسوس کا اظہار کیا کہ بڑے منصوبے وفاقی پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) میں شامل ہی نہیں کیے گئے اور سولر پینلز پر 18 فیصد ٹیکس کو ناانصافی قرار دیا، انہوں نے واضح کیا کہ اگر یہ مسائل حل نہ ہوئے تو پیپلز پارٹی وفاقی بجٹ کی حمایت نہیں کرے گی۔
وزیرِ اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے اپنی بعد از بجٹ پریس کانفرنس میں اعتراف کیا کہ کراچی میں 150 بسوں کی آمد میں تاخیر وسائل کی کمی کے باعث ہوئی تاہم انفرااسٹرکچر اور صفائی ستھرائی کے متعدد منصوبے جاری ہیں۔
مراد علی شاہ نے بتایا کہ زمینوں کے ریکارڈ کو مکمل طور پر ڈیجیٹلائز نہیں کیا جا سکا تاہم بلاک چین پراجیکٹ کو ماتلی اور سکھر میں تجرباتی بنیادوں پر شروع کر دیا گیا ہے، سیف سٹی منصوبے کے پہلے مرحلے کی تکمیل ستمبر یا اکتوبر 2026ء تک متوقع ہے جو کراچی کے اہم علاقوں پر مشتمل ہو گا، ابتدائی نتائج حوصلہ افزا ہیں اور کیمرے سیکیورٹی خدشات کی نشاندہی کر رہے ہیں، دوسرے مرحلے کے لیے 2026ء کے بجٹ میں فنڈز مختص کر دیے گئے ہیں۔
وزیرِاعلیٰ نے کہا کہ سندھ حکومت کی کارکردگی عوام کے سامنے ہے اسی لیے پاکستان پیپلز پارٹی کے ووٹ بڑھے ہیں، انہوں نے دعویٰ کیا کہ عالمی مالیاتی ادارے وفاق کے مقابلے میں سندھ حکومت پر زیادہ اعتماد کرتے ہیں، اگست 2022ء کے سیلاب کے بعد ورلڈ بینک نے ہنگامی فنڈز فوری طور پر جاری کیے جو سندھ حکومت پر اعتماد کا ثبوت ہے۔
مراد علی شاہ نے واضح کیا کہ پیپلز پارٹی وفاقی حکومت کی باقاعدہ اتحادی نہیں تاہم سندھ نے تاریخی فنڈز کی کمی پر مؤثر مؤقف پیش کیا جس کے نتیجے میں 86 ارب روپے سندھ کو دیگر صوبوں کے برابر لانے کے لیے دیے گئے۔
وزیرِ اعلیٰ نے چیف منسٹر آفس کے لیے ہیلی کاپٹر اور گاڑیوں کی خریداری پر تنقید کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ ہیلی کاپٹر 36 سال پرانا ہے جبکہ گاڑیاں کئی برسوں سے اپ ڈیٹ نہیں کی گئیں، انہوں نے اعلان کیا کہ آئندہ مالی سال میں غیر ضروری اخراجات روکنے کے لیے نئی گاڑیوں کی خریداری پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ حکومت زرعی شعبے میں کارپوریٹ فارمنگ کی جانب جا رہی ہے مگر مقامی کسان نیٹ ورکس کو شامل کر کے شفاف شرکت کو یقینی بنایا جا رہا ہے۔
مراد علی شاہ نے بے قابو آبادی کو سندھ کا اہم مسئلہ قرار دیا اور بتایا کہ صحت اور پاپولیشن ویلفیئر محکموں کو ضم کر دیا گیا ہے تاکہ بہتر سہولتیں فراہم کی جا سکیں، وفاقی حکومت نے اب تک بڑے ڈیمز کےلیے کوئی فنڈز نہیں رکھے، جب رکھا گیا تو دیکھا جائےگا۔
مراد علی شاہ نے وزیرِ اعظم کی جانب سے متنازع ڈیم منصوبوں کی مخالفت کو سراہا۔
وزیرِاعلیٰ نے انکشاف کیا کہ سندھ حکومت نے 25 ارب روپے کے سولر منصوبے رکھے ہیں اور شجرکاری مہم بھی شروع کی جا رہی ہے، انہوں نے اعتراف کیا کہ اس حوالے سے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ سرکاری ملازمتوں کے لیے عمر کی بالائی حد 35 سال سپریم کورٹ نے مقرر کی ہے اور کوئی صوبہ اسے تبدیل نہیں کر سکتا۔
وزیرِ اعلیٰ سندھ نے انکشاف کیا کہ سندھ نے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے 25 ارب روپے سولر منصوبوں کے لیے مختص کیے ہیں تاہم انہوں نے اعتراف کیا کہ صوبے میں غربت بڑھ رہی ہے اور اس کی بڑی وجہ آئی ایم ایف پروگرام کی وجہ سے حکومتی اخراجات پر لگنے والی پابندیاں ہیں۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ بجٹ میں شفافیت کو یقینی بنایا گیا ہے اور اپوزیشن کو بریفنگ دی گئی، اگرچہ کچھ تجاویز کو شامل نہ کرنے پر تنقید کی جا رہی ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ نے اسرائیلی جارحیت کے خلاف قرارداد پر پیدا ہونے والے تنازع پر کھل کر بات کی، ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن جماعتوں نے اس حساس مسئلے کو سیاسی فائدے کے لیے استعمال کیا، ان کا رویہ حقیقی کارروائی کے بجائے محض شور شرابے پر مبنی تھا، اپوزیشن نے مظاہروں میں حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا اور اسرائیلی جارحیت جیسے انسانی مسئلے کو بھی سیاسی ہتھیار بنا کر استعمال کیا۔
مراد علی شاہ نے واضح کیا کہ سندھ حکومت اپوزیشن سے رابطہ رکھنے اور ان کے تحفظات سننے کی خواہشمند ہے تاہم افسوس ظاہر کیا کہ اکثر بات چیت ذاتی شکایات کی نذر ہو جاتی ہے، بجٹ سازی کے عمل میں اپوزیشن سے باضابطہ مشاورت کا کوئی طریقہ کار موجود نہیں حالانکہ سندھ حکومت نے ان سے بات چیت کی کوشش ضرور کی۔
پریس کانفرنس کا اختتام کرتے ہوئے مراد علی شاہ نے دو ٹوک اعلان کیا کہ پاکستان پیپلز پارٹی، تحریکِ انصاف یا ایم کیو ایم کے کسی بھی دباؤ یا بلیک میلنگ کو خاطر میں نہیں لائے گی اور عوامی مفادات کا دفاع اولین ترجیح رہے گی۔