1979 ء کو جب سوویت یونین نے اپنی عظیم فوجی طاقت کے بل پر افغانستان پر قبضہ کر لیا تو بظاہر اس کی فوری واپسی کا کوئی امکان نظر نہیں آتا تھا ۔ اس زمانے میں یہ بات ضرب المثل بن چکی تھی کہ سوویت یونین جہاں بھی گیا ہے، وہاں سے واپس نہیں آیا ہے۔ امریکہ اور یورپ کو کچھ سمجھ نہ آرہا تھا۔ آج اس امر کے ٹھوس شواہد سامنے آچکے ہیں کہ جنرل اختر عبدالرحمٰن تھے، جنہوں نے سب سے پہلے جنرل ضیاالحق کو یہ پلان پیش کیا کہ پاکستان اس جنگ میں براہ راست ملوث ہوئے بغیر بھی سوویت یونین کی پیش قدمی روک سکتا ہے۔ جنرل اختر عبدالرحمٰن ہی نہیں، جنرل ضیاالحق بھی یہ بات سمجھتے تھے کہ سوویت یونین کو افغانستان میں نہیں روکا گیا ، تو اس کا اگلا نشانہ لازماً پاکستان ہوگا۔ افغانستان کی تسخیر کے بعد ، سوویت یونین اور بحیرہ عرب کے گرم پانیوں کے درمیان صرف بے آب وگیاہ بلوچستان ہی رہ جائے گا ، اور سوویت یونین ، افغانستان کے بعد اس آخری رکاوٹ کو عبور کرنے کی کوشش ضرور کرے گا۔ اس پس منظر میں جنرل اختر عبدالرحمٰن اور جنرل ضیاالحق کی یہ متفقہ رائے تھی کہ سوویت یونین کو افغانستان میں روکنا ، پاکستان کی سلامتی کے نقطہ نظر سے ناگزیر ہے۔
جنرل اختر عبدالرحمٰن کے پاس کیا پلان تھا ، اس کے بارے میں عسکری امور کے عالمی ماہر stephen tanner اپنی تحقیقی کتاب ’’الیگزینڈر دی گریٹ سے طالبان تک ، عسکری و تاریخی جائزہ ‘‘ میں لکھتے ہیں ، ’’جنرل اختر عبدالرحمٰن نے جنرل ضیاالحق سے کہا کہ سوویت یونین کے خلاف لڑیں گے تو افغان ہی، لیکن یہ امر البتہ ملحوظ رکھا جائے گا کہ سوویت یونین ، پاکستان کے خلاف براہ راست جنگ پر نہ اتر آئے ، یعنی جنگ کا درجہ حرارت ایک معین سطح پر رکھا جائے گا۔ ‘‘ اس طرح تاریخی طور پر، یہ بات اب تسلیم کر لی گئی ہے کہ ہر فیصلہ ، پاکستان نے خود کیا تھا۔ امریکہ اور یورپ اس میں بہت بعد میں کودے ہیں ۔ یہ اعتراف بروس رائیڈل نے بھی اپنی نئی کتاب America's Secret War in Afghanistan, 1979-89 میں کیا ہے جنرل اختر عبدالرحمٰن افغان عوام کی جنگی نفسیات سے بخوبی آگاہ تھے ۔ انہیں معلوم تھا کہ اس مرحلے پر جبکہ سوویت فوج پسپائی اختیار کرتے ہوئے واپس جا رہی ہے، امریکہ اور سوویت یونین سے افغانستان میں مستحکم حکومت کے قیام کا مطالبہ منوانا ضروری ہے۔ یہ مطالبہ اگر نہ منوایا گیا، تو سوویت فوجوں کے انخلا کے فوراً بعد افغانستان میں خانہ جنگی چھڑ جائے گی۔ جنرل اختر عبدالرحمٰن کی اصابت رائے کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ آج امریکہ خود تسلیم کرتا ہے کہ سوویت فوجوں کی واپسی کے بعد امریکہ نے افغانستان میں مستحکم حکومت کے قیام کی اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی۔ یہ ذمہ داری اگر اس وقت پوری کی جاتی، تو اس کے بعد افغانستان میں وہ انتشار برپا نہیں ہوتا ، جو ہوا ، اور آج تک افغانستان اس آگ میں سلگ رہا ہے ۔
جنرل اختر عبدالرحمٰن کو اگست 1987 ء میں آئی ایس آئی چیف کے عہدے سے الگ کرکے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف بنا دیا گیا۔ لیکن پھر نہ جانے کیوں ان کو اس عہدے سے الگ کردیا گیا ، یہ وہ سوال ہے ، جس کا آج تک جواب نہیں دیا جا سکا ۔ امریکہ سوویت یونین کو واپسی کا محفوظ راستہ دینا چاہتا تھا۔ سوویت فوجوں کی واپسی کے بعد افغانستان میں کیا ہوتا ہے ، امریکہ اس سے مکمل طور پر لا تعلق ہو چکا تھا۔ ایک رائے یہ ہے کہ ان حالات میں امریکیوں کیلئے سوویت یونین کو safe passage کی گارنٹی دینا مشکل تھا ۔ جنرل اختر عبدالرحمٰن جنیوا سمجھوتے پر دستخط کرنے کے مخالف تھے ۔ جنرل ضیاالحق کی بھی یہی رائے تھی۔
17 اگست1988ء جنرل ضیاءالحق اور جنرل اخترعبد الرحمٰن کو اپنے دوسرے ساتھیوں سمیت شہید کر دیا گیا ۔ یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ یہ ایک گہری سازش تھی جو بعض حلقے جنرل ضیاالحق سے خائف تھے، وہ جنرل اخترعبدالرحمٰن سے بھی خائف تھے۔ جنرل اختر عبدالرحمٰن خان،اگرچہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف تھے، لیکن ان کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف بننے سے یہ عہدہ پہلے کی طرح غیر اہم نہیں رہا تھا ۔ کچھ اس وقت کے خاص حالات ،اور کچھ اس وجہ سے کہ افغان جنگ کے بارے میں جنرل ضیاالحق،جنرل اختر عبدالرحمٰن پر بہت انحصار کرتے تھے، یہ عہدہ غیر معمولی اہمیت اختیار کر گیا تھا ۔ بریگیڈیر ( ر ) محمد یوسف ( مرحوم ) ، جو1981سے 1987 تک آئی ایس آئی کے افغان سیل کے انچارج رہے ہیں ، وہ لکھتے ہیں ، ’’17 اگست 1988 ء کی سہ پہر تک بہت کم لوگ جنرل اختر عبدالرحمٰن کے نام اور کام سے واقف تھے ۔ فوج کے اندر بھی گنے چنے لوگ ان کی غیر معمولی خدمات سے آگاہ تھے ۔ اس کا سبب یہ تھا کہ جنرل اختر عبدالرحمٰن کے کام کی نوعیت خفیہ تھی ۔ پھر ، وہ مزاجاً بھی اپنے نام اور اپنے کام کی تشہیر سے گریز کرتے تھے ۔ لیکن جیسے ہی جنگ افغانستان اختتام پذیر ہوئی ، تو یہ پاکستان کے جنرل اختر عبدالرحمٰن تھے ، جو جدید دنیا کی فوجی تاریخ میں واحد ایسے جنرل بن کے ابھرے ، جس نے دوسری جنگ عظیم کے بعد کسی بڑی فوجی طاقت کا نہ صرف مقابلہ کیا ، بلکہ اس کو شکست سے بھی دوچار کیا۔