ہجرت یا مہاجرت کا سفر تخلیقِ انسانی کے ساتھ ہی شروع ہوگیا تھا۔ یہ عمل تاریخ کے ہر دور اور ہر زمانے میں جاری رہا۔ ہجرت کبھی بھی خوش دلی کے ساتھ نہیں ہوئی۔ یہ ایک جبری عمل ہے جو ناموافق حالات اور ناسازگار صورتِ حال کے تابع ہوتا ہے۔ تخلیقِ آدم ؑ سے لیکر زمانہ حال تک ہجر کی داستانوں سے تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں۔ جنگ و جدل اِس کا بنیادی سبب بنتے رہے۔ فاتح حکمرانوں کی قتل و غارت یا لوٹ مار کے باعث مغلوب ہوجانے والی اقوام کے افراد ہجرت کرنے پر مجبور ہوتے رہے نیز غربت و افلاس، غلامی،بیروزگاری،بدامنی،قحط ،قدرتی آفات، امتیازی سلوک، نسل کُشی اور عقائد پر عمل کی پابندی جیسی کارروائیاں بھی ہجرت کے بنیادی اسباب میں شامل رہی ہیں۔ تاریخ کے اوراق شاہد ہیں کہ کسی بھی وجوہ کی بناء پر ہجرت کرنے والے مہاجر اپنی مستقل آباد کاری کے بعد اپنی مہاجر پہچان کھو دیتے ہیں اور نئے دیس کی مٹی سے ہی شناخت پاتے ہیں اُسی سے جانے اور پہچانے جاتے ہیں۔ ماضی میں خشک سالی اور قحط کے باعث وسط ایشیاء کے آریہ قبائل نے بہتر روزگار اور خوشحالی کے نئے مواقعوں کی تلاش میں اپنے آبائی دیس کو چھوڑ کر ہندوستان کی جانب ہجرت کی۔ بدیسی تہذیب میں اپنی ثقافت کے رنگ سموئے۔ جسے اِس قدر پذیرائی ملی کہ یہ ملک آریہ ورت کے نام سے جانا پہچانا جانے لگا۔ وادیِ سندھ کی ثقافت اُن کی پہچان بن گئی۔ تاریخ میں اُن کی جانب سے وسط ایشیائی شناخت کو شعوری طور پر قائم رکھنے کا کہیں ذکر نہیں ملتا۔ وہ وسط ایشیاء سے آنے والے مہاجر نہ رہے۔ اُنہوں نے اپنی قدیمی پہچان کو ختم کردیا وہ وسط ایشیائی نہ رہے بلکہ ہندوستانی شناخت میں گُم ہوگئے۔
مکہ معظمہ میں آقائے نامدار حضرت محمدﷺ پر ایمان لانے والوں کیلئے جسم و جان کا ناطہ قائم رکھنا دو بھرہو گیا۔سیدنا بلال بن رباحؓ کا مالک اُمیہ بن خلف اُن کے گلے میں رسی ڈال کر بچوں کے حوالے کردیتا،جو گھسیٹتے پھرتے۔ چلچلاتی دھوپ میں جلتی ریت پر لٹا کر اُن کے سینے پر بھاری پتھر رکھ دیتا۔ عامر بن فہیدہؓ کو اِس قدر تشدد کا نشانہ بنایا جاتا کہ اُن کی عقل جاتی رہتی۔ ابو فکیھہؓ کے پائوں میں بیڑیاں پہنا کر سخت دھوپ میں ننگے پائوں چلایا جاتا۔گھسیٹاجاتا۔خباب بن ارتؓ کی مالکن اُم انمار بنت سباع اُن کے جسم کو گرم لوہے سے داغتی۔ کفارِ مکہ کی انتقامی کارروائیوں میں اِس قدر اضافہ ہوتا چلاگیا کہ انہوں نے حضرت محمدﷺ کی شان میں گستاخی کرنا شروع کردی۔ آپ ﷺسجدے میں جاتے تو اُونٹ کی اوجھڑی کمر پر رکھ دیتے۔ کفار کی جانب سے ہنسی، ٹھٹھا، تحقیر ، گالم گلوچ اور یتیمی کے طعنے معمول بن گئے۔ یہ سلسلہ اِس قدر شدت پکڑتا چلا گیا کہ سورۃ الحجر میں اللہ تعالیٰ نے اِنہی واقعات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’ ہمیں معلوم ہے کہ اُن کی باتوں سے آپ کا سینہ تنگ ہورہاہے‘‘۔ جب مکہ معظمہ میں اسلام کی ترویج و اشاعت ممکن نہ رہی تو آپﷺ نے اپنے آبائی شہر مکہ کو چھوڑ کر مدینہ ہجرت کافیصلہ کر لیا۔ تمام اہل ایمان بھی مدینہ منورہ ہجرت کر گئے۔ مدینہ منورہ میں اسلام کے نام پر پہلی ریاست کی بنیاد رکھ دی گئی۔ موسمی حالات میں تغیر و تبدل کے باعث صحابہ کرامؓ بیمار پڑنے لگے تو آپﷺ نے دعا فرمائی کہ ’’اے اللہ ہمارے نزدیک مدینہ کو اِس طرح محبوب کردے جیسے مکہ محبوب تھا یا اُس سے بھی زیادہ۔ مدینہ کی فضا صحت بخش بنادے‘‘۔ نبی پاک ﷺ نے کبھی بھی اپنے آپ کو مکہ کا مہاجر نہیں کہلوایا بلکہ مدنی شناخت کو رواج دیا۔ بہادر شاہ ظفر کی 19ستمبر1857 ء میں گرفتاری کے ساتھ ہی دہلی دوبارہ انگریزوں کے تسلط میں چلا گیا۔ہندوستان میں آباد سرمستانِ حریت کو بدترین انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایا جانے لگا۔ جائیدادیں ضبط کرلی گئیں۔ مخبراور انگریزوں کی مدد کرنے والے مزارعے مالک ٹھہرے۔
انگریز کے ظلم و ستم اور شرمناک انتقام کے باعث ’’علماء ہند کا شاندار ماضی‘‘ کے مئولف مولانا سید محمد میاں کے مطابق حضرت مولانا عبدالغنی محدث ِ دہلویؒ، مولانا رحمت اللہؒ، مولانا شاہ محمد اسحاقؒ، حاجی امداد اللہؒ، مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ اورڈاکٹر وزیر علی خانؒ سمیت بے شمار علماء کرام اور جنگِ آزادی کے بے شمار مجاہدین پہلے تو رو پوش ہوگئے اور پھر دور دراز جنگلوں اور دشوار گزار پہاڑی علاقوں سے ہوتے ہوئے مکہ معظمہ ہجرت کرگئے۔ یہ لوگ ہجرت کرنے کے بعد سعودی عرب یا جزیرہ عرب کی ریاستوں میں کچھ اِس طرح آباد ہوئے کہ اُنہوں نے عربی شناخت کو مکمل طور پر اپنا لیا۔ ہندوستان کے مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد انگریزوں کی نسل کُشی سے بچنے کیلئے شمالی اور شمال مغربی ہندوستان کے پہاڑی سلسلوں، جموں و کشمیر، ایران اور افغانستان سمیت دیگر ملکوں میں آباد ہوئی لیکن وہ لوگ بھی اُن علاقوں میں اِس طرح گھل مِل گئے کہ آج اُن کی بطور مہاجر الگ شناخت تلاش کرنا مشکل ہو گا۔
آل انڈیا مسلم لیگ کے پرچم تلے طویل جدوجہد کے نتیجے میں ہندوستان کے مسلمانوں نے آزادی حاصل کی اور تقسیم ہند کا اعلان ہوتے ہی تقریباً ایک کروڑ بیس لاکھ سے زائد مسلمانوں نے اپنا گھر بار چھوڑ کر پاکستان کی جانب ہجرت شروع کردی۔ اِن میں سے دس لاکھ کے لگ بھگ اُردو بولنے والے مہاجرین یو پی سے کھوکھراپار بارڈر کے ذریعے کراچی پہنچے جبکہ نوے فیصد سے زائد مسلمانوں کو پنجاب میں قائم مہاجر کیمپوں کا رُخ کرنا پڑا۔ اُس وقت کے وزیراعظم نوابزادہ لیاقت علی خاں نے اِن مہاجرین کی آبادکاری میں خصوصی دلچسپی لی۔ اعلیٰ تعلیمافتہ ہونے کے سبب 1951ء میں پاکستان کے اعلیٰ افسران میں سے ایک تہائی سے زیادہ بیوروکریسی کا تعلق اُردو بولنے والے مہاجرین سے تھا جب کہ دو تہائی افسران کا تعلق کراچی شہر کے علاوہ چاروں صوبوں اور جموں و کشمیر سے تھا۔ اِس طرح 3فیصد سے بھی کم آبادی کے افراد کے پاس 21فیصد سے زیادہ اعلیٰ ملازمتیں تھیں۔ وفاقی سیکریٹریوں کی اکثریت کے ساتھ ساتھ کم و بیش تمام سرکاری اداروں اور کارپوریشنوں کے سربراہوں کا تعلق بھی یو پی سے ہجرت کرکے آنے والے مہاجرین سے تھا۔ پاکستان کے پہلے وزیراعظم سے لیکر جنرل محمد ضیاء الحق اورجنرل پرویز مشرف تک نیز1984 ء میں سرکاری سرپرستی میں ایم کیو ایم کی تشکیل سے لیکر آج تک اُردو بولنے والا مہاجر طبقہ کسی نہ کسی صورت میں مسندِ اقتدار پر متمکن رہا ۔ اِن تمام تر موافق اور ساز گار حالات کا تقاضا تھا کہ یو پی سے ہجرت کرکے آنیوالے اپنی مہاجر پہچان کو بھلا کر صرف اور صرف پاکستانی شناخت اپنا لیتے تو یہ ملک و قوم کیلئے اچھا شگون اور خود اُن کے اپنے حق میں بھی بہتر ہوتا۔
قیامِ پاکستان کے وقت بھارت سے آنیوالے نوے فیصد سے زائد مہاجرین کا تعلق مشرقی پنجاب سے تھا۔ لارڈ مائونٹ بیٹن اور نہرو کے زیرِ اثر بائونڈری کمیشن کے چیئرمین ریڈکلف نے 1941ء کی مردم شماری کے مطابق غالب مسلم اکثریت کی حامل پنجاب کی تحصیلوں گورداسپور، بٹالہ، فیروزپور، زیرہ، نکودر، جالندھر، انبالہ، فاضلکا، مکتاسر، جگرائوں، لدھیانہ، سمرالہ، نواں شہر، پھلور، تھانہ مجیٹھ اور پونا کو تقسیم ہند کے اُصولوں کی صریحاً خلاف ورزی کرتے ہوئے بھارت میں شامل کردیا تھا۔ مشرقی پنجاب سے آنیوالے مہاجرین کے قتل عام کی سازش میں کانگریس قیادت، ہندومہاسبھا، راشٹریہ سیوک سنگھ اور سکھ جتھے شامل تھے۔ انگریزوں اور سرکاری فوج نے اِن روح فرسا حالات سے چشم پوشی کرلی۔ بارہ لاکھ سے زائد مہاجرین کو موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا۔ نہتے افراد کو گولیاں ماری گئیں۔ عورتوں کو رُسوا کیا گیا۔ معصوم بچوں کے اعضاء ہوا میں بکھیرے گئے۔ گھروں میں بند کرکے زندہ جلا دیا گیا۔ قافلوں کو لٹنے کے بعد تہ و تیغ کردیا گیا۔ جب یہ لٹے پٹے اور زخموں سے گھائل قافلے سرزمیں پاک پر پہنچے تو کوئی ایک گھرانہ بھی ایسا نہیں تھا جو صحیح سلامت اپنے خوابوں کی سرزمیں پر پہنچ گیا ہو۔ ہر گھرانے میں کئی کئی شہادتیں تھیں۔ مشرقی پنجاب کے مہاجرین نے قربانیوں کی ایک منفرد تاریخ رقم کی ہے۔ مشرقی پنجاب سے ہجرت کرکے آنے والے مسلمانوں کی غالب اکثریت آج بھی صحیح طور پر اپنے قدموں پر کھڑی نہیں ہو پائی لیکن وہ کسی سے شکوہ نہیں کرتی۔ کسی کو موردِ الزام نہیں ٹھہراتی۔ یہ لوگ بھی اپنے کاروبار اور سرسبز لہلہاتے کھیت اور مرغزار چھوڑ کر آئے تھے۔ اِن مہاجرین کی تعداد بھی بہت زیادہ تھی۔ یہ لوگ بھی مہاجر کے نام سے سیاست کا بازار گرم رکھ سکتے تھے لیکن اِن مہاجروں نے اپنا مہاجر تشخص بھلا دیا اور تعمیر وطن کیلئے مصروف عمل ہوگئے۔ کاش کراچی سمیت تمام مہاجرین بھی صرف اور صرف پاکستانی کہلائیں۔