کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر، اس شہر کا شمار دنیا کے زیادہ آبادی والے چند شہروں میں ہوتا ہے۔ دنیا کے تمام بڑے شہروں لندن، نیویارک، شکاگو اور ماسکو وغیرہ میں ٹریفک کوئی مسئلہ نہیں، لیکن کراچی میں ٹریفک ایک بہت بڑا مسئلہ ہے اور دن بدن اس مسئلے میں شدت آتی جارہی ہے۔ کراچی کی سڑکیں کافی چوڑی ہیں لیکن بڑھتا ہوا ٹریفک اور اس کی بدنظمی ان سڑکوں کی چوڑائی کو کھا جاتی ہے۔ کراچی کی سڑکوں پر بسیں، کھٹارا ویگنیں، ٹرک، ٹرالر، کاریں، پک اپ، رکشے اور سب سے زیادہ موٹر سائیکلیں بدنظمی کا سماں باندھ دیتی ہیں۔ اب ٹریفک جام روز کا معمول بن گیا ہے۔ کراچی کو ایک اعزاز یہ بھی حاصل ہے کہ یہ دنیا میں سب سے زیادہ موٹر سائیکلوں کا شہر ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ کی کم یابی کے باعث لوگ موٹر سائیکل خرید کر اپنا سفر مکمل کرتے ہیں۔ لاکھوں لوگ موٹر سائیکلوں پر صبح اپنے کاموں پر جاتے اور پھر ان موٹر سائیکلوں کو سڑک پر کھڑی کرکے سڑک کی چوڑائی کو 20فیصد پر لے آتے ہیں۔ اس کے علاوہ کاریں اور دوسری گاڑیاں بھی سڑکوں ہی کو مشق پارکنگ بناتی ہیں۔ یوں ٹریفک کی رفتار کم ہوجاتی ہے۔ سفر میں وقت دو تین گنا زیادہ لگتا ہے اور پیٹرول کا زیاں الگ ہوتا ہے۔ بدنظمی سے بھرپور ٹریفک کے سیلاب کے سامنے ٹریفک پولیس کے اہلکاربے بسی کی تصویر بنے نظر آتے ہیں۔
دنیا میں بڑی آبادی والے تمام شہروں میں لاکھوں لوگوں کی آمد و رفت کو آسان بنانے کے لئے ریل چلائی جاتی ہے۔ لندن کی ’’انڈر گرائونڈ‘‘ میں لوگ صبح اپنے کاموں پر جاتے ہیں۔ آسانی سے سفر کرتے ہیں اور واپس اسی ٹرین میں بیٹھ کر شام کا اخبار پڑھتے ہوئے گھر چلے جاتے ہیں۔ پیرس میں ’’میٹرو‘‘ اسی خدمت خلق کا مظاہرہ کرتی ہے۔ نیویارک میں اسے ’’سب وے‘‘ کہا جاتا ہے۔ اور اس کے اسٹیشن لوگوں سے ہر لمحہ بھرے ہوئے ہوتے ہیں۔ امریکہ کے دوسرے بڑے شہر شکاگو میں شہری ٹرین کو انڈر گرائونڈ نہیں بنایا گیا بلکہ اسے سڑک کے اوپر تعمیر کیا گیا۔ شکاگو شہر کی تمام اہم سڑکوں پر نیچے ٹریفک چل رہا ہے۔ اور اوپر ریل چل رہی ہے جو اسٹیل کے پل بناکر، اس پر پٹریاں ڈال کر چلائی جاتی ہے۔
شکاگو کے انداز کی فضائی ٹرین کم مدت میں چلنے کے قابل ہوجاتی ہے اور اس کی تعمیر پر لاگت بھی کم آتی ہے۔
کراچی جیسے شہر میں جہاں روزانہ لاکھوں لوگ موٹر سائیکل پر سوار ہوکر، پیٹرول خرچ کرکے، حادثوں کا رسک لے کر اپنے کام پر جانے پر مجبور ہوتے ہیں وہاں ریل ایک اہم ضرورت ہے۔ اگر کراچی میں ٹرین چلے گی تو نہ صرف یہ لاکھوں لوگ آرام اور حفاظت سے اپنے کاموں پر پہنچ جائیں گے بلکہ کراچی کا ٹریفک بھی آسودہ ہوجائے گا۔ اسی طرح بے شمار لوگ جو کاروں میں اپنے کام پر جاتے ہیں اور ایسے ہی ٹریفک مسائل پیدا کرتے ہیں، یہ لوگ بھی لندن اور نیویارک کے لوگوں کی طرح آرام سے بحفاظت سفر کرسکتے ہیں۔
کراچی میں ٹریفک کے بوجھ کو کم کرنے کے لئے آئے دن بڑی بسیں چلائی جاتی ہیں۔ ان بسوں کی عمر دو سال سے زیادہ نہیں ہوتی۔ اس طرح یہ ملکی معیشت پر بوجھ بنتی ہیں۔
بلاشبہ بسیں بھی شہری زندگی کی ضرورت ہیں، لیکن ان کے لئے رواں ٹریفک والی سڑکوں کی ضرورت ہوتی ہے جن شہروں میں ٹرین چلتی ہے وہاں بسیں ان روٹس کی ضرورتیں پوری کرتی ہیں جہاں ٹرین کی رسائی نہیں ہوتی۔
کراچی کے لئے حکومت نے گرین بسیں چلانے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن یہ بہت زیادہ خرچ والا منصوبہ ہے جو ہر سال اربوں روپے کھاتا رہے گا اس کے باوجود کراچی شہر کی سڑکیں ٹریفک کے شدید مسائل کا شکار رہیں گی۔ اس کے مقابلے میں اگر فضائی ٹرین کا منصوبہ بنایا جائے تو یہ کم مدت میں کراچی کے ٹریفک کے مسائل کو آسانی سے حل کردے گا جبکہ گرین بسیں سڑکوں پر گاڑیوں کے ہجوم میں اضافہ ثابت ہوں گی ۔
کراچی میں شاہراہ فیصل کے اوپر یہ فضائی ٹرین آسانی سے چلائی جاسکتی ہے۔ شاہراہ فیصل کے آئی لینڈ پر ستونوں کی تعمیر آسانی سے ہو سکتی ہے۔ اس کے بعد ان ستونوں پر لوہے کی برج اور پٹریاں ڈالی جاسکتی ہیں۔ محمد علی جناح روڈ، پھر تین ہٹی سے سہراب گوٹھ تک، کورنگی روڈ، لسبیلہ پل سے نیوکراچی تک، اور شاہراہ فیصل پر اسٹیل ٹائون تک فضائی ریل کی لائنیں ڈالی جاسکتی ہیں۔ کم از کم 5لائنیں کراچی کے ٹریفک کے مسئلے کو بڑی حد تک حل کردیں گی۔ ان تمام سڑکوں کے درمیان چوڑے آئی لینڈ موجود ہیں ان پر بڑی تیزی سے ستون بنائے جاسکتے ہیں۔ ستونوں کے مکمل ہونے کے بعد برج اور ریلوے لائن ڈالنے کا کام بہت آسان ہوجائے گا اور تیزی سے مکمل بھی ہوجائے گا۔
فضائی ریل کی ایک ٹرین میں بیک وقت 10 بارہ بوگیاں مسافروں کو لے کر جائیں گی۔ ان کی رفتار تیز ہوگی، راستے میں کوئی رکاوٹ نہ ہوگی۔ اور ان بوگیوں کو صرف ایک انجن چلا رہا ہوگا۔ اس کے برعکس بسوں میں ہر بس کا انجن خوب پیٹرول یا ڈیزل کھا رہا ہوتا ہے۔
کراچی کی گرین بسوں کا منصوبہ ابھی فائلوں تک محدود ہے۔ اس موقع پر حکومت کو جائزہ لینا چاہئے کہ کراچی کے مسئلے کا حل گرین بسیں ہیں یا فضائی ٹرین، جو کم خرچ بھی ہوگی، دیرپا بھی اور آرام دہ بھی۔