• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سانحہ کارساز کو 9 سال مکمل ہونے والے ہیں ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری 9 سال بعد پہلی مرتبہ سانحہ کارساز کے شہداء کی یاد میں ریلی کا انعقاد کرنے جا رہے ہیں ۔ کیا اس عرصے میں حالات تبدیل ہوئے ہیں ، یہ آج کا ایک اہم سوال ہے ۔ 18 اکتوبر 2007 کے تاریخی دن کے واقعات کی میں خود رپورٹنگ کر رہا تھا ۔ اس دن محترمہ بے نظیر بھٹو 8 سالہ جلا وطنی کے بعد وطن واپس آئی تھیں ۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایک ہی دن میں دو ایسے مناظر دیکھوں گا ، جو تاریخ میں شاذ ونادر رونما ہوتے ہیں اور جو ایک دوسرے کا تضاد ہوں گے ۔ ایک منظر یہ تھا کہ عوام کا ٹھاٹھے مارتا ہوا سمندر تھا ، جو محترمہ بے نظیر بھٹو کے استقبال کے لیے کراچی کی سڑکوں پر امڈ آیا تھا ۔ تاریخ میں ایسے مناظر کبھی کبھی رونما ہوتے ہیں ، جو تاریخ کا دھارا بدل دیتے ہیں ۔ یہ عوام کی لازوال طاقت کا منظر تھا ۔ دوسرا منظر اس کے بالکل برعکس تھا ۔ کراچی کی جن شاہراہوں پر صرف انسانی سر نظر آ رہے تھے ، وہاں ’’ ہو کا عالم ‘‘ تھا ۔ کبھی کبھی ایمبولینس گاڑیوں کے سائرن بجنے کی آوازیں سنائی دیتی تھیں اور پھر سناٹا چھا جاتا تھا ۔ کراچی کی شاہراہ فیصل پر کارساز کے مقام پر قتل عام کرکے تاریخ کے دھارے کے آگے بند باندھنے کی کوشش کی گئی ۔ عوام کی طاقت کو کچلنے کے لیے بربریت ، درندگی اور سفاکیت کا ایسا منظر بھی تاریخ میں بہت کم لوگ دیکھ پاتے ہوں گے ۔ رات کو خبریں دینے کے بعد میں نے سوچا کہ میں کارساز والے راستے سے جاؤں گا تاکہ جائے وقوعہ کا جائزہ لے سکوں ۔ شاہراہ فیصل پر صبح تقریباً ساڑھے 4 بجے میری گاڑی اکیلی جا رہی تھی ۔ فضاء بہت سوگوار تھی ۔ کارساز سے کچھ پہلے پولیس نے شاہراہ کو بند کیا ہوا تھا ۔ مجھے کہا گیا کہ آپ آگے نہیں جا سکتے ۔ میں نے پھر دوسرا راستہ اختیار کیا اور مزار قائد اعظم ؒ کے سامنے اس جگہ پہنچا ، جہاں محترمہ بے نظیر بھٹو نے خطاب کرنا تھا اور جہاں لاکھوں لوگ محترمہ کے پہنچنے سے پہلے جلسہ گاہ پہنچ گئے تھے کیونکہ انہیں اندازہ تھا کہ جب محترمہ کا قافلہ وہاں پہنچے گاتو لوگوں کو جلسہ گاہ کے ارد گرد میلوں تک جگہ نہیں ملے گی ۔ اب وہاں بھی مکمل سناٹا تھا ۔ میں نے وہاں گاڑی روکی ۔ یہ صبح کاذب کا وقت تھا ۔ 19 اکتوبر کا سورج طلوع ہونے والا تھا ۔ مشرقی افق پر نمودار ہونے والی سرخی ایک واردات کی طرح وجود میں اتر رہی تھی ۔ اسی لمحے یہ ادراک ہوا کہ قوموں کی تاریخ میں کبھی کبھی اہم موڑ آتے ہیں ۔ 18 اکتوبر کا دن یہی اہم موڑ ( ٹرننگ پوائنٹ ) تھا ۔ اگر اس دن قتل عام نہ ہوتا تو آج پاکستان کے حالات بالکل مختلف ہوتے ۔محترمہ بے نظیر بھٹو نے اس واقعہ کو اسلامی دنیا کی داخلی کشمکش ، اسے درپیش بحرانوں اور وہاں جمہوریت کی افزائش کو روکنے کی کوششوں کا نتیجہ قرار دیا لیکن انہوں نے بین السطور وہ باتیں بھی کہہ دیں ، جنہیں بعد ازاں مزید کھل کر کہنے کی ضرورت تھی ۔ 19 اکتوبر کی شام محترمہ بے نظیر بھٹو نے بلاول ہاؤس میں پریس کانفرنس کی ۔ میں نے ہی ان سے یہ سوال کیا تھا کہ سانحہ کارساز کے بعد کیا وہ اپنی عوامی رابطہ مہم جاری رکھیں گی ۔ محترمہ نے تھوڑے توقف کے بعد پرجوش انداز میں جواب دیا ’’ ہاں میرا جینا مرنا عوام کے ساتھ ہے ‘‘ ۔ 27 دسمبر 2007 کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں دہشت گردی کا ایک اور بہت بڑا واقعہ دراصل 18 اکتوبر کا تسلسل تھا ، جس میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور درجنوں دیگر جمہوری کارکنوں کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا لیکن اپنی شہادت سے پہلے محترمہ بے نظیر بھٹو سانحہ کارساز کے حوالے سے اپنی کتاب ’’ مفاہمت ‘‘ میں کچھ باتیں ریکارڈ پر لے آئیں ۔ اس کتاب کے صفحہ 213 پر وہ لکھتی ہیں کہ ’’ مشرف حکومت اور ایک غیر ملکی مسلم حکومت نے مجھے بتایا تھا کہ 4 خودکش بمبار اسکواڈز مجھے قتل کرنے کی کوشش کریں گے ۔ ان میں طالبان رہنما بیت اللہ محسود ، اسامہ بن لادن کے ایک بیٹے حمزہ بن لادن ، لال مسجد کے عسکریت پسندوں اور کراچی کے ایک عسکریت پسند گروہ کے بھیجے ہوئے اسکواڈ شامل تھے ۔ ‘‘ آگے چل کر بی بی رقم طراز ہیں ’’ میں نے جنرل مشرف کے نام ایک خط لکھا ۔ میں نے انہیں بتایا کہ اگر عسکریت پسندوں نے مجھے قتل کر دیا تویہ ان کی حکومت میں موجود عسکریت پسندوں کے ہمدردوں کی بدولت ہو گا ، جو مجھے ختم کرکے اس خطرے کو ختم کرنا چاہتے ہیں ، جو اقتدار پر ان ( مشرف ) کی گرفت کو میری طرف سے لاحق تھا ۔ ‘‘ محترمہ بین السطور دہشت گردوں اور آمرانہ قوتوں کو ایک ہی صف میں کھڑا کرکے گئی تھیں ۔ اس صف میں انہوں نے ان عالمی قوتوں کو بوجوہ کھل کر شامل نہیں کیا کیونکہ وہ 18 اکتوبر کو ایک ایسا پروگرام لے کر آئی تھیں ، جو عالم اسلام میں داخلی کشمکش ، وہاں جمہوریت کے لیے خطرات اور دیگربحرانوں کو ختم کرنے کے لیے تھا ۔ شاید وہ عالمی طاقتوں سے فوری محاذ آرائی نہیں کرنا چاہتی تھیں۔انہوں نے اپنی کتاب میں کئی جگہ اشارتاً لکھا کہ اسلامی ممالک میں جمہوریت کے لیے رکاوٹیں پیدا کرنے کا مغرب کا اپنا ریکارڈ ہے لیکن 18 اکتوبر نے پاکستان سمیت عالم اسلام میں جاری دہشت گردی اور دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کو بے نقاب کر دیا تھا ۔ یہ جنگ 15 سال سے جاری ہے۔ پاکستان میں آمریت کے دور میں یہ جنگ شروع ہوئی تھی ، جو بعد ازاں بھی جاری رہی لیکن اس جنگ میں سیاسی قوتوں کا فیصلہ سازی کا اختیار نہ ہونے کے برابر رہا ۔ حالات شاید تبدیل ہو گئے ہوں مگر آج بھی پاکستان میں دہشت گردی کا سب سے زیادہ خطرہ پہلے کی طرح پاکستان پیپلز پارٹی اورکچھ ترقی پسند سیاسی جماعتوں کو ہے ۔9سال بعد حقیقت پہلے سے زیادہ واضح ہو گئی ہے ۔ 18 اکتوبر کے واقعہ سے عالم اسلام کے لیے داخلی کشمکش اور بحرانوں سے نکلنے کے امکانات بہت حد تک کم کر دیئے گئے تھے ۔ پاکستان سمیت عالم اسلام بے سبب بحرانوں میں پھنسا ہوا ہے اور ابھی تک یہ بحران ختم ہونے کے امکانات روشن نہیں ہوئے ۔ بلاول بھٹو زرداری سانحہ کارساز کے شہداء کی برسی کے موقع پر 16 اکتوبر کو جو ریلی نکال رہے ہیں ، وہ اس سفر کو آگے بڑھانے میںمددگار ثابت ہو سکتی ہے ، جو 18 اکتوبر کو روکا گیا تھا۔ دعا کرتے ہیں کہ بلاول بھٹو زرداری کی ریلی خیریت سے اختتام پذیر ہو ۔


.
تازہ ترین