سکھر(بیورو رپورٹ،چوہدری محمد ارشاد)سندھ کے تیسرے بڑے شہر سکھر کا اہم ترین سرکاری سول اسپتال کی حالت میڈیکل کالج قائم ہونے کے باوجود بھی بہتر نہ ہو سکی ۔اس اہم ترین اسپتال میں نہ صرف سکھر بلکہ بالائی سندھ کے مختلف اضلاع سے مریض علاج ومعالجے کے لئے لائے جاتے ہیں ، اسپتال کی بہتری کے لئے حکومت اور منتخب نمائندے بھی مسلسل اعلانات کرتے ہیں لیکن اسپتال میں مریضوں کے لئے موجود وارڈز کی خراب حالت زار ، اسپتال کے اطراف گندگی کے ڈھیر، وارڈ میں مریضوں کی تعداد سے کئی گنازیادہ مریضوں کی موجودگی، بجلی کی بندش، جنریٹر کا نہ چلنا، زیرعلاج مریضوں کو ادویات کی عدم فراہمی، مختلف اقسام کے ٹیسٹ اسپتال سے باہر سے کرائے جانے سمیت متعدد ایسے مسائل ہیں اور اس حوالے سے آئے روز سماجی تنظیمیں ، مریضوں کے ورثاء سول اسپتال انتظامیہ کے خلاف احتجاجی مظاہرے کرتے ہیں ۔ مریضوں کے ورثاء پیڈسٹل فین کرائے پر لے کر آتے ہیں اور کئی کئی گھنٹے بجلی کی طویل بندش، جنریٹر کے نہ چلنے کی وجہ سے لوگ اپنے مریضوں کو دستی پنکھوں سے ہوا دیتے ہیں جبکہ مریضوں کے بیٹھنے کے لئے کوئی خاص انتظام نہیں ہے، بڑی تعداد میں مریضوں کے ورثاء جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہوتے ہیں وہ وارڈوں کے درمیان راستوں میں بیٹھے ہوتے ہیں، او پی ڈی میں بھی صورتحال انتہائی خراب ہے جہاں ڈاکٹروں کی اکثریت صبح بروقت ڈیوٹی پر نہیں پہنچتی، ایک جانب تو اسپتال میں ڈاکٹروں کی تعداد 50فیصد سے کم ہے تو دوسری جانب جو ڈاکٹرا سپتال میں تعینات ہیں ان میں بھی متعدد ڈاکٹر سرکاری اسپتال میں توجہ دینے کے بجائے اپنی نجی کلینکوں اور اسپتالوں کو چمکانے میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔