• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امیگریشن
ایک زمانہ تھا کہ یہ جو اَب امیگریشن کے ذریعے پردیسیوں کی لتریشن کرتے ہیں، اور مہذب ممالک بھی کہلاتے ہیں، اپنے بنیرے پر نقارہ رکھ کے بجاتے اور بھانت بھانت کے انسانوں کو اپنے ہاں بلاتے تھے، کوئی خاص پوچھ گچھ بھی نہیں ہوتی تھی، جیسے آج کل بالخصوص دو بڑے ملکوں کے ہوائی اڈوں پر جہاز سے اترتے ہی مسافر سے کہا جاتا ہے
مسافر جائے گا کہاں
تیرا کون ہے وہاں
دم لے لے گھڑی بھر
یہ چھیاں پائے گا کہاں
اس کے بعد کسی کو بائیں طرف الگ کھڑا کیا جاتا ہے اور کسی کو دائیں طرف یہ دائیں طرف والے کلیئر ہو چکے ہوتے ہیں اور بائیں طرف والوں کی خوب دھلائی ہوتی ہے، صاف ستھرا، استری کر کے ان کی کریز نکال کر باہر کھڑے اس کے استقبال کو آنے والوں کے حوالے کر دیا جاتا ہے، اور دو ملک ایسے ہیں کہ ان میں تو داخل ہونا جیسے دن دیہاڑے نقب لگانے کے مترادف ہے، ہماری گزارش حکومت پاکستان سے اتنی سی ہے کہ پاکستان کے اصل محسن اور اس کو زرمبادلہ کما کر بھیجنے والے یہی کئی طرح کی مار کھانے والے تارکین وطن ہوتے ہیں، جن کی امیگریشن کو آسان بنایا جائے، جب وہ اپنے ملک آئیں تو ہمارے امیگریشن والے ان کو عزت و احترام کے ساتھ وصول کر کے جلد از جلد ہوائی اڈے سے باہر جانے دیا کریں، اور ان کے سامان میں بھی کوئی کمی بیشی نہ کی جائے کیوں اکثر وطن آنے والے کہتے ہیں میرا او پرفیوم کتھے جو میں اسپیشل ’’تیرے‘‘ لئی خریدیا سی!
٭٭٭٭
ابلیس کی حکمرانی
مقبوضہ کشمیر میں اسکول سے نکلنے والے ایک 14سالہ لڑکے نے زور دار نعرہ لگایا، اسکول کے دروازے کے سامنے کھڑے بھارتی درندے نے اس کے تنے ہوئے سینے میں گولی مار دی، اور آزادی کا نوخیز سورما شہید ہو گیا، غصب کئے گئے کشمیر میں 12مہینے 70برسوں سے ہر روز، ہر رات ظلم و بربریت کے واقعات ہوتے رہتے ہیں، پوری دنیا کے انسانوں کو اس کی خبر ہے، مگر وہ کچھ نہیں کر پاتے کہ اس وقت دنیا پر ابلیس کی حکومت ہے، اور اس نے چن چن کر اپنے مطلب کے حکمران ہر ملت ہر قوم پر مسلط کر دیئے ہیں، یہاں تک کہ وہ عالمی ادارے جو انسانی حقوق کے کسٹوڈین ہیں وہ بھی مقبوضہ کشمیر میں اپنے حق سے محروم انسانوں کے لئے کچھ نہیں کرتے، اس پر تو عالمی برادری کا اجماع ہے کہ کشمیریوں پر ظلم ہو رہا ہے، مگر ظلم بند کرنے والا کوئی نہیں، عراق، افغانستان کی انسانی حقوق کی پاسداری کے بہانے اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی، لاکھوں انسان شہید کر دیئے گئے، جبکہ دونوں جگہ غاصبانہ قبضہ نہیں تھا، دہشت گردی بھارت کر رہا ہے، ڈو مور پاکستان سے کہا جاتا ہے جبکہ وہ پہلے ہی دہشت گردوں سے نبرد آزما ہے، ’’تلبیس‘‘ ایک اصطلاح ہے جس کا مفہوم، ابلیس کی پالیسی پر چلنا ہے، کئی دجال اس کے ماتحت اس کا مشن چلاتے ہیں اور وہ عزازیل پلیس میں آرام کی زندگی بسر کر رہا ہے، شیطان اب فارغ التحصیل ہے جو کرتے ہیں اس کے شطونگڑے اس کی مرضی سے بڑھ کر کر دیتے ہیں، گویا جب سے اس سے فرشتوں کو پڑھانے کی پوسٹ لے لی گئی ہے، اور اسے پرسن نان گریٹا قرار دیا گیا ہے وہ بہت ہی آرام سے ہے، مقبوضہ کشمیر میں ظلم تب سے بہت بڑھ گیا ہے جب سے ہم نے آدھا ملک گنوا دیا ہے اور بھلا دیا ہے، نمرود کی خدائی نام بدل کر آج بھی قائم دائم ہے، وہ بھی ’’ابلیس‘‘ کا بہت بڑا آہنی چمچہ ہے، جو نہتے کشمیریوں کو دیگ میں ڈال کر گھمایا جاتا ہے، اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل نہ کرا کے یہ ’’بریانی‘‘ مزے لے لے کر کھا رہا ہے۔ فاعتبروا!
٭٭٭٭
آندا تیرے لئی میں ریشمی رُومال
برصغیر پاک و ہند میں عشق بڑا رسوا ہو رہا ہے، ایک ریشمی رومال کو نادان عشق سمجھ بیٹھے ہیں، جب سے رشتے ملنے کا قحط پڑا ہے، عشق نے بڑی ترقی کی ہے، نوجوان جسے عشق سمجھ بیٹھے ہیں وہ اچھے رشتے کی تلاش ہے جو لڑکے کو نہیں لڑکی کو ہے، اور گویا لڑکیاں اپنے والدین کا ہاتھ بٹا رہی ہیں، یاد رکھیں خاتون کسی اچھے ذمہ دار برسرروز گار کے ساتھ زندگی کا شریفانہ سفر کاٹنا چاہتی ہے اور جہاں اس کے ’’عشق‘‘ کی سوئی ٹک جاتی ہے اتنا کہہ دیتی ہے اپنے والدین کو بھیج دو، اور یار لوگ اس کو لو میرج کہتے ہیں، یہ
آندا تیرے لئی میں ریشمی رومال
اُتے تیرا ناں کڈھیا بڑے ہی چاہواں نال
اس وقت برپا ہوتا ہے جب لڑکا، ’’عشق‘‘ کا انٹرویو پاس کر لیتا ہے، پھر والدین آتے جاتے ہیں، ہاں ہو جاتی ہے، منگنی طے پاتی ہے، پھر نکاح ہوتا ہے، پھر مصائب بیاہ شروع ہوتے ہیں، جہیز، والی، کھانے پینے کے اخراجات کی تیاری الغرض ایک آسان سے دو کھجور مارکہ فنکشن کو اتنا لمبا کر دیا جاتا ہے، کہ عشق بھی لنگڑا جاتا ہے، بہرحال شادی بعد از نام نہاد عشق ہو جاتی ہے پھر مقامات آہ و فغاں شروع ہوتے ہیں، اور بعد میں کہیں جا کر جوڑا کہتا ہے؎
ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانہ یاد ہے
پھر فیز تھری آتا ہے، اس میں لڑکے کا عشق پنکچر ہو جاتا ہے، یا یوں سمجھئے کہ گھڑی مڑی قبلہ بدلنے لگتا ہے، اسلام نے بھی اسی خدشے کو بھانپ کر چار تک کی اجازت دی ہے، کہ قبلہ بدل کر بھی مسلمان ہی رہے۔
٭٭٭٭
سترہ کا پہاڑا
....Oعمران خان نے 30؍ اکتوبر کو اسلام آباد بند کرنے کا عزم ایک بار پھر دہرایا ہے،
یہ سترہ کا پہاڑا ہے جتنا بھی دہرائیں یاد نہیں ہو گا۔
بلاول زرداری بھٹو کو بعض لوگ پیار بھرے اندازمیں بین السطور یہ سمجھا رہے ہیں کہ والد گرامی کا بیحد احترام کرو، مگر کرو اپنی،
سمجھانے والے نادان یہ نہیں جانتے کہ جو والد صاحب کہتے وہی تو ان کی اپنی بات ہوتی ہے، کیوں کہ
ہزاروں سال زرداری اپنی بے نوری پہ روتے ہیں
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں بلاول دیدہ ور پیدا
....Oاکثر کہا جاتا ہے کہ خواتین باتونی ہوتی ہیں،
جبکہ وہ مردوں سے بہت کم بات کرتی ہیں، البتہ خواتین آپس میں کسی دوسری کو باری نہیں دیتیں، مرد کیوں انہیں اس ڈھرلے پر لانے کے لئے بے بنیاد پروپیگنڈہ کرتے ہیں،
....Oاپنی کمزوری صرف اپنے پاس رکھیں تو بے ضرر ہے جونہی دوسرے کے حوالے کی واپس اپنے ہی منہ پر آ لگتی ہے ٹھا کر کے، اور بندہ کچھ عرصے کے لئے چبھا ہو جاتا ہے،
....Oیہ سوال ان دنوں بکثرت اٹھ رہا ہے کہ آئندہ الیکشن کون جیتے گا،
نیم حکیموں کے اس جھمیلے میں کم نیم حکیم ہی جیتے گا، اس بارے زیادہ فکر مند نہ ہوا کریں حسب معمول ’’انے وا‘‘ پرچی ڈال آئیں کوئی نہ کوئی تو آ ہی جائے گا، اور دو کا پہاڑا، یاد کرائے گا، جب بیج اگتا ہی نہیں تو فصل کا اتنا انتظار کیوں؟


.
تازہ ترین