• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایگزٹ کنٹرول لسٹ کیا ہے؟ ایگزٹ کنٹرول لسٹ یا فہرست برائے پابندیٔ بیرون ملک سفر وہ طاقتور بیل ہے جس میں سے پرویز مشرف جیسا سابق فوجی آمر باوجود ملکی آئین توڑنے کے الزامات کے اس کو لات مارتے ہوئے بریف کیس لہراتا ملک سے نکل جاتا ہے لیکن سرل المیڈا جیسا بے ضرر سچا کھرا لکھاری، کالم نویس و صحافی اس میں مکھی کی طرح پھنس جاتا ہے۔ پرویز مشرف جو آج کل مکیش کے گانے کی طرح بنے ہوئے ہیں کہ ’’چاہے تم کتنا بلائو پکارو پھر نہیں نہیں آئیں گے ہم‘‘۔ پرویز مشرف اور سرل الميڈا میں محض ایک قدر مشترک یہ ہے کہ دونوں کراچی کےسینٹ پیٹرکس اسکول کے پڑھے ہوئے ہیں۔ای سی ایل کی فہرست میں یا تو پھر ایان علی پھنستی ہے یا پھر سرل الميڈا۔ سرل المیڈا شاید ماضی قریب میں ملک کے موقر انگریزی روزنامے میں اردیشر کاوسجی کے بعد سب سے زیادہ پڑھے جانے والے کالم نگار ہیں جن کو لوگ ان کے قلم کی کاٹ اور بیباکی کی وجہ سے پڑھتے ہیں۔ وہ کسی بھی ڈاڈھے ادارے کا نام لئے بغیر حقیقت بیان کر جاتے ہیں۔ وہ جدید انداز میں سپاہ کو ’’بوائز‘‘ لکھتے ہیں۔ تاثر ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کراچی کے اس اچھے لڑکے سےاس خبر پر ناراض ہے۔ سرل سے یہ ہوا کہ انہوں نے کالم کی جگہ خبر لکھ لی۔ وہ خبر جس کی تین مرتبہ تردید ہوچکی ہے اور جس کو ’’لغو‘‘ اور ’’غلط‘‘ قرار دینے پر ملک کی سب سے طاقتور شخصیات کی ملاقات ہوچکی ہے۔ حالانکہ ملاقات کرنے والی شخصیات دونوں کو خبر ہے کہ یہ خبر ہرگز جھوٹی نہیں۔ لیکن اب صحافیوں کو صحافت کے عالم معیار سکھانے کے لئے وہ لوگ میدان میں بہت دنوں سے اترے ہوئے ہیں جن کا اصل کام قرطاس اور قلم کی حدود کی حفاظت کرنا نہیں تھا۔ سرل ایاز امیر نہیں نہ ہی شاہین صہبائی ہیں سرل سرل ہے۔ پھر وہی سندھی کہاوت یاد آتی ہے کہ ’’جھیل کے قریب لڑکا کھیلے آج نہ ڈوبے تو کل ڈوبے‘‘۔ کاش ملک اپنی آج کل کی عالمی تنہائی سے سرل کا نام ایگزٹ کنٹرل پر آنے سے نکل سکتا۔ بلکہ اسکے الٹا ہوا ہے کہ :مریض عشق پر رحمت خدا کی ، مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔’’اب سرل پاکستان کی انگریزی صحافت کا ’’حامد میر‘‘ ہے۔
لیکن مجھے ڈر یہ ہے کہ سرل کا تعلق بڑے صوبے سے نہیں۔ اس کا تعلق کراچی سے ہے۔ اس کے آبا کا تعلق گوا سے تھا اور اس کا جم پل کراچی صدر کی گلیاں ہیں۔ وہاں ایک مینسفیلڈ اسٹریٹ بھی ہے۔ مینسفیلڈ ہی آج کے پاکستان اور کل کے کراچی میں انگریزی صحافت یا انگریزی اخبار شروع کرنے والا پہلا انگریزی سے بلد شخص تھا۔ یہ نہ پوچھیں کہ اس کا اصل پیشہ کیا تھا۔ سرل کا تعلق گوون اقلیتی کمیونٹی سے ہے۔ گوون کمیونٹی قیام پاکستان سے بھی قبل کراچی میں آکر آباد ہوئی ۔ یہ کمیونٹی بھی جدید کراچی کی بانی کمیونٹیوں میں شامل ہے جس کے لوگ آج تک ملک اور کراچی کے مختلف شعبوں میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ یہ لوگ ٹیچرز ہیں، پولیس میں ہیں، موسیقار ہیں، صحت، تعلیم اور جہازسازی کے شعبے سے وابستہ ہیں، دفاتر میں آفس سیکرٹریز ہیں، پادری ہیں، فلم ساز و اداکار ہیں ہیں، شاعر و مصور ہیں، تاجر ہیں۔یہ لوگ بہت مہذب، تعلیم یافتہ اور قانون پسند شہری ہیں، مرد ہوں، عورتیں کہ بچے۔ سرل اس کمیونٹی کا قابل فخر چشم و چراغ ہے۔ ویسے تو عام طور یہ کمیونٹی کراچی کے حالات کے علاوہ زیادہ سیاست پر بات نہیں کرتی لیکن آج کراچی صدر کی ان گلیوں میں سرل اور اس کے ساتھ ہونے والی اس بپتا کے قصے ہوں گے۔ کراچی صدر کا مطلب ہی تھا گوون، بوہرا اور پارسی لوگ۔ بعد میں کراچی نے لیاری اور ان لوگوں کو سوتیلی اولاد کی طرح برتا۔ یہ اور بادشاہی کا قصہ ہے۔ لیکن سرل نے بادشاہیوں کے قصے بیان کرنے کا پیشہ چنا کہ وہ بقول صوفی فارسی شاعر کہ جس بھی سر پر تاج ہوتا ہے وہ کٹ بھی سکتا ہے۔ ’’بقول شخصے سرل خوش قسمت ہے کہ وہ واحد بلوچ اور سلیم شہزاد نہیں۔
لیکن سرل جو اپنے ملک اور شہر سے کسی معشوق جیسا پیار کرتا ہے اس کے فرشتوں کو بھی پتہ نہیں تھا کہ اس ملک کے سولہ کروڑ انسانوں کی قسمت پر کنٹرول اور راج کرنے والے فرشتے اس سے ایسا سلوک کریں گے۔ اس ملک میں فرشتوں کے سوا سب گنہگار ہیں، مشکوک ہیں۔غدار ہیں۔
ملک سے دہشت گرد، اسمگلر، چور اُچکے، پتھاریدار، قاتل، بدعنوان، آئین توڑنے والے سب کے سب نکل جاتے ہیں لیکن سرل ایگزٹ کنٹرول لسٹ پر ڈالا جاتا ہے۔ مجھے ڈر یہ ہے کہ اگر سرل کسی دبنگ انگریزی اخبار سے وابستہ نہ ہوتا تو کچھ دنوں کے بعد خدانخواستہ سرل کسی مخالف ملک کی سرحد پر بھاگتے اور مقابلے میں مارا ہوا بتایا جائے۔
نثار میں تیری گلیوں پہ اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے
یہ شعر فیض صاحب نے ایوب خان کے زمانے میں انہی دنوں کے لئے لکھا تھا۔ سرل کا تعلق نہ تو کسی کالعدم تنظیم اور لشکر سے ہے نہ کہ وہ دہشت گرد ہے وہ اک قلمکار ہے ۔ بھائی لوگ نے لشکریوں کو پکڑنے کے بجائے سرل کا نام ای سی ایل پر ڈال دیا۔ حالانکہ اس ملک میں یہ بھی ہوا کہ ملا منصور جیسے لوگ بغیر کسی روک ٹوک کے آتے جاتے رہے تھے۔ میڈیا کا وہ حصہ کہ جو خوشامد کرتا اوربوٹ چمکاتا رہا ہے کاش یہ بھی سوچتا کہ کبھی کبھی پالش کرنے والے بھی عتاب کا نشانہ بن جاتےہیں۔
کہ چراغ سب کے بھجیں گے ہوا کسی کی نہیں
لیکن سرل یوں بھی خوش نصیب ہے کہ اسی ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں خیر بخش مری، مینگل، بزنجو، معراج محمد خان، جی ایم سید، بینظیر بھٹو اور نصرت بھٹو جیسے نام بھی آچکے ہیں۔ کبھی تو ای سی ایل شائع کرنا بھی جرم ہوا کرتا تھا۔ فوجی آمر ضیاءالحق کے دنوں میں اس اخبار کے سابق ایڈیٹر محمود شام بالمعروف شام جی کے خلاف ان کے جریدے میں ای سی ایل فہرست شائع کرنے پر ’’سرکاری راز افشا‘‘ کرنے کے الزام کے تحت مقدمہ قائم کیا گيا تھا۔
ہم امریش پوری اور برکھا دت کے تو بڑے مداح ہیں لیکن جب ہمارا اپنا صحافی اس کا پانچ فیصد بھی بمشکل بنتا ہے تو ہم اس پر زمین تانبہ کردیتے ہیں، اکیسویں صدی میں کسی شہری پر بغیر کسی عدالتی حکم کے اپنے ملک سے آنے جانے پر پابندی؟ نہ فقط ناقابل قبول ریاستی رویہ ہے بلکہ بنیادی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ لیکن انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی ریاست کو کیسی پروا۔ کہ ریاست ایک اور سندھی کہاوت کے مصداق شیر شاہ کے شکرے اپنے ہی گھر کے مرغے مارتے ہیں۔ نیز یہ بھی کہ پیارے پاکستان میں اب بھی پیغام رساں کو ہی شوٹ کیا جاتا ہے۔ قومی سلامتی کو خطرہ دہشت گردوں سے نہیں، کوئٹہ میں ستر وکیلوں اور چار ہزارہ عورتوں کے قاتلوں سے نہیں کراچی کے اس اچھے لڑکے سے ہے۔


.
تازہ ترین