• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان پیپلزپارٹی کے نوجوان چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے لاہور میںپارٹی کارکنوںسے خطاب کے حوالےسےاگلےروزایک بیان شائع ہوا کہ پیپلزپارٹی اب مفاہمت کی نہیںبلکہ مزاحمت کی سیاست کرے گی ۔ پھر اسی روز بلاول ہاؤس کے ترجمان کی طرف سے اس بیان کی تردید آ گئی ، جس میں بتایا گیا کہ بلاول بھٹو زرداری نے ایسی کوئی بات نہیں کہی ہے ۔ اس بات کے قطع نظر کہ حقیقت کیا ہے ، پاکستان کے عوام اور پیپلزپارٹی کے کارکن بلاول بھٹو زرداری کے اس بیان پر خوش ہوئےتھے کہ پیپلزپارٹی دوبارہ مزاحمت کی سیاست کے اس راستے پر گامزن ہو رہی ہے ، جس راستے کوپاکستان کے عوام نے کبھی نہیں چھوڑا ہے ۔پاکستان جیسے ملکوں میں سیاست پر امن مزاحمت کے سوا کچھ اور نہیں ہوتی ہے کیونکہ طاقتور ادارے اور طبقات کی نظر میں کمزور طبقات اور گروہوں کی مفاہمت کی پیشکش کی کوئی وقعت نہیں ہوتی ہے اور نہ ہی وہ عوام پر مسلط کردہ جنگ سے دستبردار ہوتے ہیں ۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ بلاول بھٹو زرداری کے بیانات کے پیچھے بلاول ہاؤس کیوں لگا ہوا ہے ؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ بلاول بھٹو زرداری کی جارحانہ اور مزاحمتی سیاست کی پالیسی پر بھی سیاست کی جا رہی ہو ۔ بلاول بھٹو زرداری کے بیانات سے اصل مقتدر حلقوں کو یہ پیغام دیا جاتا ہو کہ پیپلز پارٹی کے لوگوں کے خلاف مزید کارروائیاں کی گئیں تو پارٹی تصادم کاراستہ اختیار کر سکتی ہے۔ پھرجب معاملات کسی حد تک طے ہو جاتے ہوں یا کم از کم بات چیت کا راستہ نکل آتا ہو تو بلاول بھٹو زرداری کے بیان کی تردید کر دی جاتی ہو ۔ اگر مزاحمت اور مفاہمت کا یہ کھیل ڈاکٹر عاصم حسین اور منظور کاکا جیسے لوگوں کو بچانے کےلیےہے تو نہ صرف مزاحمت اور مفاہمت دونوں مذاق بن جائیں گی بلکہ بلاول بھٹو زرداری کی مستقبل کی سیاست پر بھی منفی اثرات مرتب ہوں گے ۔ اگر یہ کھیل اس مقصد کےلیے نہیں ہے تو اب وقت آ گیا ہے کہ پیپلز پارٹی کو یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ وہ مفاہمت کی سیاست کو آگےلے کرچلے گی یا عوام کے ساتھ کھڑے ہو کر مزاحمت کرے گی ۔ مفاہمت کا فلسفہ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے دیا تھا ۔ ان کا یہ فلسفہ وقت کی آزمائش پر پورااترا یا نہیں، اس کا فیصلہ محترمہ بے نظیر بھٹو اگر حیات ہوتیں تووہ خود بہتر طورپر کر سکتی تھیں لیکن پیپلزپارٹی کی موجودہ قیادت نے مفاہمت کی پالیسی کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کر دیے ہیں ۔ بلاول بھٹو زرداری سیاست میں قدم رکھتے ہی ایسی جارحانہ پالیسی پر عمل پیرا ہیں ، جس کا مفاہمت کی پالیسی سے کوئی تال میل نہیں ہے ۔ آصف علی زرداری بھی کئی مرتبہ ایسے بیانات دےچکے ہیں ، جن کو سامنے رکھتے ہوئے لوگ یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے مفاہمت کی پالیسی ترک کر دی ہے ۔ آصف علی زرداری کو بابائے مفاہمت کہا جاتاہے مگر انہوںنے کئی مرتبہ یہ باور کرا دیاہے کہ ملک کو درپیش بحرانوں کی وجہ سے انہوں نے مفاہمت کا راستہ اختیار کیا ہے ۔ انہوں نے اپنے بیانات سے یہ پیغام دیا ہے کہ مفاہمت کو ان کی کمزوری نہ تصور کیا جائے ۔ تقریباً 8 سال کی مفاہمت کے بعد پیپلزپارٹی کی طرف سے مزاحمت کی بات کی جا رہی ہے اور یہ ایسے مرحلےپر کی جا رہی ہے ، جب پیپلزپارٹی کے لوگوں پر کرپشن اور لوٹ مار کے الزامات عائد کیے جا رہے ہیں ۔ پیپلزپارٹی کی قیادت کو اس صورت حال میں اپنی حکمت عملی واضح کرنا ہو گی اور عوام کے ساتھ اس طرح بات کرنا ہو گی ، جس طرح والٹیئر (Voltaire) نے کہا تھا کہ ’’ جب تم میرے ساتھ بات کرو تو مجھے یہ بھی بتاؤ کہ تمہارے الفاظ اور تمہاری اصطلاحات کا حقیقی مطلب کیا ہے ۔ ‘‘
18 اکتوبر 2007ء کو 8 سالہ جلاوطنی کے بعد جب محترمہ بے نظیر بھٹو وطن واپس آئی تھیں تو ملک بھر سے لاکھوں افراد ان کا استقبال کرنےکےلیے کراچی ائرپورٹ اس لیےپہنچےتھے کہ وہ ’’ مزاحمت ‘‘ کا راستہ اختیار کرناچاہتےتھے لیکن محترمہ بے نظیر بھٹو جہاز سے اتریں تو ان کے پاس ایک چھوٹا سا بیگ بھی تھا ، جس میں ان کی کتاب کا غیر شائع شدہ مسودہ تھا ۔ اس کتاب کا نام ’’ مفاہمت ‘‘ تھا ۔ عوام کا جم غفیر کسی اور موڈ میں تھا اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی پالیسی کچھ اور تھی ۔ استقبالی جلوس نے8 گھنٹے میں صرف4 کلو میٹر کا فاصلہ طے کیا تھا کہ اچانک دو دھماکے ہوئے ۔’’ مفاہمت ‘‘ کے مسودہ کے اوراق بکھر گئے اور خون میں بھیگ گئے ۔ اس کے باوجود بھی محترمہ بے نظیر بھٹو اپنی زندگی کے باقی 70 دن بھی اسی مفاہمت کی پالیسی پر زور دیتی رہیں اور بالآخر 27 دسمبر 2007ء کو ان قوتوں کی دہشت گردی کا شکار ہو گئیں ، جنہوں نے18 اکتوبر کو ہی مفاہمت کی کتاب کے اوراق کو خون آلود کر دیا تھا ۔ پیپلزپارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو نے موت کی کال کوٹھڑی سے لیبیا کے حکمراں کرنل قذافی کے نام اپنے ایک خط میں لکھا کہ ’’ پاکستان میں ایک مرحلہ ایسا آیاتھا ، جب عوام انقلاب کےلیے تیارتھے اور پاکستان میں کایا پلٹ ہو جاتی لیکن میں نے عوام کو پرامن جمہوری راستے پر ڈالا۔ میں نے تباہ شدہ اداروں کو دوبارہ بنایا ۔ ‘‘ بھٹو بین السطور یہ بتانا چاہتے تھے کہ جو اسٹیبلشمنٹ ان کی جان کی دشمن ہے ، اس کو ممکنہ تباہی سے انہوں نے بچایا لیکن بھٹو کی جان نہ بچ سکی ۔ پاکستان کے بائیں بازو کے لوگ ذوالفقار علی بھٹو پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ انہوں نے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مفاہمت کا راستہ اختیار کیا ، جو بعد ازاں پاکستان کے عوام پر قہر بن گئی ۔یہ اور بات ہے کہ بھٹو پر الزام لگانے والے بائیں بازو کے لوگ خود عالمی اسٹیبلشمنٹ کے کاسہ لیس بن گئے ۔انہوں نے این جی اوز کے ذریعے اربوں روپے کمائے اور پاکستان میں بائیں بازو کی سیاست ختم کر دی ۔ اسی طرح پاکستان کے جو قوم پرست حلقے مزاحمت کی بات کرتے تھے ، وہ آج تحریک انصاف کی ’’ بی ‘‘ ٹیم بننے کےلیے منت سماجت کر رہے ہیں ۔ کس نے کتنی مفاہمت کی اور عوام کی مزاحمت کو سبوتاژ کیا ، اس پر ایک الگ بحث ہو سکتی ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس وقت عوام کی بات کرنے والا کوئی نہیں ہے ۔ دائیں بازو کی سیاسی جماعتیں پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے ایجنڈے سے باہر نہیں نکل سکی ہیں ۔ ایجنڈا یہ ہے کہ اہل وطن کو محب وطن بنایا جائے اور انہیں دوبارہ اس طرح مسلمان کیا جائے کہ وہ اپنی تاریخی اور تہذیبی شناخت سے لاتعلق ہو جائیںاور اپنے مزاحمتی جوہر سے محروم ہو جائیں ۔ اس ایجنڈے کے مطابق بالآخرمذکورہ بالا سوچ میںڈھلی ہوئی اپنے ماضی سے لاتعلق پاکستانی برانڈ ایک مڈل کلاس تیار کر لی گئی ہے ، جسے اب ’’پاکستان کی آواز ‘‘کہا جا رہا ہے ۔ گذشتہ تین عشروں سے دہشت گردوں کے ذریعے عوام کی مزاحمتی سیاست کو کچلا جا رہا ہے ۔ اب دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر ایک نیا ’’ پولٹیکل آرڈر ‘‘ تشکیل دیا جا رہا ہے ، جس میں عوام کی بات کرنے والا اگر کوئی بچا ہے تو وہ بات نہ کر سکے ۔ بائیں بازو کی سیاست کی دعویدار اور لبرل پارٹیوں نے کرپشن کے علاوہ کچھ نہیں کیا ہے ۔اس لیے ان میں مزاحمت کی صلاحیت ختم ہو چکی ہے ۔ پاکستان کے عوام کےلیے صرف ایک راستہ چھوڑ دیا گیا ہے کہ وہ مہنگائی ، افلاس اور ذلت کو قبول کر لیں اور طاقتور اداروں اور طبقات کی بالادستی کو ہمیشہ کےلیے تسلیم کر لیں لیکن پاکستان کے عوام کو اگر یہ معلوم ہو جائے کہ پیپلزپارٹی کی مزاحمت کی سیاست ڈاکٹر عاصم اور منظور کاکا جیسے لوگوں کو بچانے کےلیے نہیں ہے تو وہ آج بھی پیپلزپارٹی کی مزاحمت کی سیاست کو خوش آمدید کہیں گے کیونکہ دنیا بھر کے غریب اور مظلوم عوام کی طرح پاکستان کے عوام پر بھی تاریخ کی بدترین جنگ مسلط ہے اور1960 ء کے عشرے سے زیادہ ’’ تنگ آمد بجنگ آمد ‘‘ کا ماحول ہے ۔ دنیا بھر کے عوام کی طرح پاکستان کے عوام بھی نئی سیاسی صف بندیوں کےلیے تیارہیں ۔ پیپلزپارٹی کو فیصلہ کرنا ہو گا کہ وہ کیا حکمت عملی اختیار کرناچاہتی ہے ۔ مزاحمت یا مفاہمت ؟ دو کشتیوں پر ایک ساتھ سوار نہیں ہوا جا سکتا۔
تازہ ترین