• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج کل کہیں بھی جائیں ، ہر شخص یہی سوال کر رہا ہوتا ہے کہ کیا ہونے والا ہے ؟ سیاسی جماعتوں خاص طور پر پیپلز پارٹی کا مستقبل کیا ہو گا ۔ پورے ملک میں غیر یقینی کی صورت حال ہے ۔ اس غیر یقینی کا سبب یہ حقیقت ہے کہ ملک کی سیاسی فضا میں ایک بہت بڑا سیاسی خلاء پیدا ہو چکا ہے ، جسے کوئی بھی سیاسی جماعت پر کرتی ہوئی نظر نہیں آتی ۔ قوموں کی تاریخ میں ایسے موڑ آتے ہیں ، جب مایوسی چھا جاتی ہے یا مایوس کن صورت حال سے نکالنے کیلئے کوئی جماعت ، گروہ یا رہنما نظر نہیں آتا لیکن ایسی صورت حال بہت کم پیدا ہوتی ہے ، جب قومیں سیاسی جماعتوں یا سیاسی قیادت کو آزمانے کے بعد مایوس ہوجاتی ہیں ۔ پاکستان ایسی ہی صورت حال سے دوچار ہے ۔ ہماری قومی سیاسی تاریخ میں دو سیاسی جماعتوں نے بھرپور عوامی مقبولیت حاصل کی ہے ۔ ان میں ایک بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ والی مسلم لیگ تھی ، جسے ایک منصوبہ بندی کے تحت ختم کر دیا گیا ۔ دوسری سیاسی جماعت ذوالفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی ہے ، جو اپنے قیام کے بعد پہلی مرتبہ ایک دوراہے پر کھڑی ہے ۔ پیپلز پارٹی کی قیادت نے اگر صحیح راستے کا انتخاب نہ کیا تو نہ صرف پیپلز پارٹی کو نقصان ہو گا بلکہ ان قوتوں کو بہت زیادہ فائدہ ہو گا جو پاکستانی معاشرے کو قطعی طور پر غیر سیاسی بنانے کا تہیہ کئے ہوئے ہیں ۔
1967 ء میں جب پاکستان پیپلز پارٹی قائم ہوئی تھی ، وہ سرد جنگ کے عروج کا زمانہ تھا ۔ دنیا دو بلاکس میں تقسیم تھی اور نظریاتی کشمکش پوری شدت کے ساتھ جاری تھی ۔ ایک طرف سوشلسٹ بلاک جبکہ دوسری طرف سرمایہ دار بلاک تھا۔ صف بندی بالکل واضح تھی ۔ ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کے ساتھ ساتھ علاقائی اور عالمی صورت حال کا گہرا ادراک کرتے ہوئے ایک پروگرام کے ساتھ لوگوں سے رابطہ کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے پیپلز پارٹی نہ صرف ایک ملک گیر سیاسی جماعت بن گئی بلکہ ساری دنیا کی نظریں اس پر مرکوز ہو گئیں ۔ وہ ایک لحاظ سے نظریاتی سیاسی جماعت تھی اور اس کے کارکن بھی نظریاتی تھے ۔ میں اسے ایک سوشلسٹ یا کمیونسٹ پارٹی نہیں کہتا لیکن وہ بائیں بازو کے نظریات کی حامل ایک ترقی پسند اور لبرل پارٹی تھی اور اس کا تعلق لوگوں اور زمین سے تھا ۔ وہ اپنے لئے اسٹیبلشمنٹ کی کسی چھتری کو تلاش نہیں کرتی تھی ۔ وہ ایک کثیر الطبقاتی سیاسی جماعت تھی ۔ اس میں بائیں بازو کے انتہائی معتبر لوگ شامل تھے ۔ جاگیر دار طبقے کے وہ افراد بھی پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے ، جو تبدیلی کے حامی تھے اور سماجی طور پر لوگوں میں ان کا احترام کیا جاتا تھا ۔ کسانوں ، مزدوروں ، طالب علموں ، وکلاء اور مظلوم طبقوں کے نمائندے ، ادیب ، شاعر اور دانشور اپنے قلم اور اپنے ضمیر کے ساتھ پیپلز پارٹی سے وابستہ ہو گئے تھے ۔ پیپلز پارٹی میں شامل تمام لوگوں کی مشترکہ صفت یہ تھی کہ وہ زمین سے محبت کرتے تھے اور پاکستان میں ایک روادار ، لبرل اور ترقی پسند معاشرہ قائم کرنا چاہتے تھے ۔ اس حوالے سے انہوں نے جدوجہد کی اورقربانیاں دیں ، جن کی وجہ سے ان کے نظریات اور نظریاتی وابستگی کو مزید پختگی ملی ۔ بھٹو نے پیپلز پارٹی کو ایک بڑی عوامی پارٹی بنا دیا ۔ 1979 ء میں جب ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت ہوئی تو وہ نہ صرف پاکستان کے مقبول ترین لیڈر تھے بلکہ ایک عالمی لیڈر کی حیثیت سے اپنے آپ کو منوا چکے تھے ۔ بھٹو کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو نے پارٹی کی قیادت سنبھالی تو انہوں نے بھٹو کے ورثے کو بھٹو کی عظیم روایات کے مطابق آگے چلایا اور مظلوم اور کچلے ہوئے طبقات کیلئے جدوجہد کو جاری رکھا ۔ نصرت بھٹو اور بے نظیر پارٹی کو گلی گلی ، کوچہ کوچہ اور شہر شہر لے گئیں ۔ انہوں نے لوگوں سے براہ راست رابطہ کیا ۔ ملک کے ہر علاقے کے لوگوں نے بھٹو اور بے نظیر کو اپنے سامنے دیکھا اور پاکستان کا ہر شخص آج بھی یہ بات کہتا ہے کہ بھٹو یا بے نظیر ان کے علاقے سے گزرے تھے ۔ پیپلز پارٹی کا طرہ امتیاز یہ تھا کہ وہ عوامی سیاسی جماعت تھی لیکن اس وقت صورت حال یہ ہے کہ پیپلز پارٹی ڈرائنگ رومز میں چلی گئی ہے اور مسلم لیگی طرز کی سیاست کرنے لگی ہے ۔ آج پیپلز پارٹی کی صف اول کی قیادت میں اکثریت ان لوگوں کی ہے ، جو بھٹو یا بے نظیر کے ساتھ جدوجہد اور قربانیوں میں شامل ہی نہیں تھے بلکہ عملی طور پر ان کی فکر، جدوجہد اور سیاست کے خلاف تھے اور آج انہی کی وجہ سے پیپلز پارٹی مسائل کا شکار ہے ۔
پیپلز پارٹی آج بھی ملک کی بڑی سیاسی جماعت ہے۔ اسکے پاس بہت بڑی تعداد میں نظریاتی کارکنوں کا اثاثہ ہے لیکن سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہ کارکن مایوس ہیں ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے جب پیپلز پارٹی کی سیاست سنبھالی تھی تو ان پر کوئی فالتو بوجھ ( Baggage )نہیں تھا ۔ اس وقت پیپلز پارٹی کے رہنماؤں اور کارکنوںپر کرپشن ، لوٹ مار اور اقرباء پروری کے الزامات نہیں تھے ۔پیپلز پارٹی کی حکومت پر خراب حکمرانی کا الزام بھی نہیں تھا لیکن آج کی پیپلز پارٹی کی قیادت کو یہ ’’ Baggage ‘‘ اٹھانا پڑ رہا ہے ۔ پارٹی سے باہر کے ایسے لوگ پارٹی پر مسلط ہیں ، جن کے بارے میں تاثر اچھا نہیں ہے اور جن پر کرپشن ، لوٹ مار اور اقرباء پروری کے الزامات ہیں ۔ قربانیاں دینے والے کارکنوں اور رہنماؤں کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کےساتھ ’’ بیڈ گورننس ‘‘ کا تاثر نتھی ہو گیا ہے۔
سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ عام لوگ بھی یہ سمجھنے لگے ہیں کہ پیپلز پارٹی نے بھٹو کا راستہ چھوڑ دیا ہے ۔ عالمی اور علاقائی سطح پر تیزی سے رونما ہونے والی تبدیلیوں اور پاکستان کے موجودہ سیاسی ، سماجی اور اقتصادی حالات کے تناظر میں یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ مشکل دور ختم ہونے والا ہے۔ پیپلز پارٹی کے دوبارہ بحالی کے وسیع تر امکانات موجود ہیں لیکن اس کیلئے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور شریک چیئرمین آصف علی زرداری کو بہت سخت فیصلے کرنا ہوں گے۔ یہ بات بہت حد تک درست ہے کہ Perception حقیقت سے زیادہ مضبوط ہوتا ہے ۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کو سب سے پہلے ان لوگوں کو اپنے آپ سے الگ کرنا ہو گا ، جن کے بارے میں لوگوں کا تاثر اچھا نہیں ہے ۔ میں یہ نہیں کہتا کہ یہ لوگ لازماً کرپٹ ہوں گے لیکن کسی کے بارے میں تاثر ایسے نہیں بنتا ہے ۔ دھواں وہیں سے نکلتا ہے جہاں آگ سلگتی ہے۔ پیپلز پارٹی کو اس بات کا انتظار نہیں کرنا چاہئے کہ ان لوگوں کے خلاف احتساب کے ادارے ایکشن لیں ، بلکہ اس سے پہلے ہی ان سے لاتعلقی کا اظہار کرنا ہو گا ۔ پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما سید علی نواز شاہ کو احتساب عدالت سے سزا ہو چکی ہے ، اس کے باوجود ان کے بارے میں غلط تاثر نہیں پایا جاتا ۔ میں بھی ذاتی طور پر یہ سمجھتا ہوں کہ سید علی نواز شاہ اور سید خادم علی شاہ کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے ۔ وہ شریف اور ایماندار آدمی ہیں ۔ انہوں نے جمہوری جدوجہد میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کی ہیں ۔ پارٹی کی قیادت ان کے ساتھ کھڑی ہو گئی ہے ۔ اس پر نہ صرف پیپلزپارٹی کے کارکن بلکہ عام لوگ بھی خوش ہیں کہ پیپلزپارٹی ایک اچھے آدمی کا ساتھ دے رہی ہے ۔ اگر پیپلز پارٹی ڈاکٹر عاصم حسین ، منظور کاکا اور شرجیل میمن جیسے لوگوں کا ساتھ دے گی تو پارٹی کارکن اور عوام پیپلز پارٹی سے دور ہو جائیں گے ۔ اب بھی ایسے کئی لوگ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کے ارد گرد موجود ہیں ،جن سے فوری لاتعلقی ضروری ہے ۔ ایسے تمام وزیروں اور مشیروں کو فوری طور پر سائڈ لائن کرنے کی ضرورت ہے جن پر کرپشن کا الزام ہے یا انکے بارے میں ایسا سمجھا جاتاہے ہمیں آئینہ نہیں شکل بدلنی ہوگی اس کے ساتھ ہی پارٹی کے سینئر ، نظریاتی اور قربانیاں دینے والے لوگوں کو قریب لانے اور انہیں پالیسی فیصلوں میں شامل کرنے کی فوری ضرورت ہے ۔ پارٹی میں ان لوگوں کو آگے لایا جائے ، جن پر کرپشن کے الزامات نہ ہوں ، جو کارکنوں کیلئے قابل قبول ہوں اور جو نظریاتی پختگی کے ساتھ ساتھ ملکی اور بین الاقوامی حالات کا ادراک رکھتے ہوں ۔
میرے خیال میں سندھ میں اچھی حکمرانی کے قیام اور پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کو رول ماڈل بنا کر ہی اب پی پی پی کا Revival ہو سکتا ہے ۔ جس کیلئے بہت سخت فیصلے کرنا ہوں گے ۔ بڑے پیمانے پر حکومت اور انتظامیہ میں تبدیلیاں لانا ہوں گی ۔پیپلز پارٹی کو پورے ملک سے اچھے لوگوں کی صلاحیتوں اور اپنے تمام تر تجربات کو سندھ میں استعمال کرنا ہو گا ۔ عالمی اور علاقائی صورت حال کا پاکستان کے حالات کے تناظر میں تجزیہ کرکے پارٹی کو ایک نیا اور انقلابی پروگرام دینا ہو گا ۔ اس پروگرام پر عمل درآمد کیلئے پارٹی کو بیورو کریٹس ، رشتہ داروں یا دوستوں کے ذریعہ چلانے کے بجائے کارکنوں کے ذریعہ چلانا ہو گا ۔ پارٹی قیادت کو غیر معمولی سرگرمی اور ڈرائنگ رومز میں پالیسیاں بنانے کے بجائےموثر عوامی رابطہ مہم شروع کرنی ہو گی۔ اس ضمن میں سارے فیصلے بلدیاتی انتخابات سے پہلے کرنے ہو نگے تاکہ بلدیاتی انتخابات میں پارٹی ایک نئی توانائی کے ساتھ لوگوں کے پاس جا سکے ۔ پیپلز پارٹی دوراہے پر کھڑی ہے ۔ ایسی صورت حال کا پارٹی کو پہلے کبھی سامنا نہیں کرنا پڑا ۔
تازہ ترین