• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
الحمدللہ ہماری پارلیمنٹ نے اپنے حالیہ مشترکہ اجلاس میں غیرت کے نام پر قتل اور انسداد عصمت دری کے دو بلوں کی متفقہ منظوری دے دی ہے۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے یہ دونوں بل پارلیمنٹ میں پیش کئے اس سے پہلے عرصہ دراز سے یہ بل قومی اسمبلی اور سینیٹ میں زیر التوا چلے آ رہے تھے۔ پاس کئے جانے سے قبل دونوں بلوں پر بھرپور بحث ہوئی لیکن بالآخر اتفاق رائے پیدا کر لیا گیا۔ وزیر قانون نے کہا کہ اس بل کے قانون بننے سے عصمت دری کے مقدمات میں ملزم کا ڈی این اے لازم ہوگا اور مقدمات کافیصلہ 3ماہ میں سنایا جائے گا۔
غیرت کے نام پر قتل اور جبری عصمت دری ہر دو صورتوں میں جرم ثابت ہونے پر مجرم کو 25سال قید کی لازمی سزا بھگتنا ہوگی۔ غیرت کے نام پر قتل کے خلاف بل میں قصاص کا حق برقرار رکھا گیا ہے تاہم اب مظلومہ یا مقتولہ کی وارث ریاست ہوگی اور صلح کی صورت میں بھی ریاست کی طرف سے قاتلوں کو 25سال کی سزا بھگتنا ہوگی۔ فطرت کے تقاضوں کی مناسبت سے قانون کی روح یہ ہوتی ہے کہ جو جتنا کمزور ہے ریاست اس کے لئے تحفظ کا اتناہی بہتر اہتمام کرے۔ اس اصول کے پیش نظر بچوں اور ذہنی و جسمانی طور پر معذور افراد کے ساتھ جنسی تشدد کے مجرم کو موت کی سزا ہوگی جبکہ جیل میں عصمت دری کے مجرم کو بھی پھانسی اور جسمانی تشدد پر عمر قید کی سزا ہوگی۔ زیادتی سے متاثرہ فرد کا طبی معائنہ اس کی رضا مندی سے اور ملزم کا طبی معائنہ لازم قرار پائے گا۔ فیصلے کے خلاف اپیل کا حق 6ماہ تک ہوگا تفتیش میں رکاوٹ یا خرابی کی سزا 3برس ہوگی۔ قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے اسپیکر نے بل کی یکے بعد دیگرے تمام شقوں کی ایوان سے منظوری حاصل کی۔
غیرت کے نام پر قتل اور خواتین کی عصمت دری روکنے کے لئے یقیناً یہ ایک مثبت کاوش ہے جس کی ستائش کی جانی چاہئے ہماری رائے میں سینیٹر فرحت اللہ بابر کی اس دلیل میں وزن ہے کہ غیرت کے نام پر قتل میں اگر موت کی سزا نہ رکھی گئی تو غیرت کے نام پر قتل ہوتے رہیں گے جبکہ نئے قانون میں ایک طرف قصاص کو قائم رکھتے ہوئے دوسری طرف 25سال قید پر اکتفا کیا گیا ہے حالانکہ مرنے والی کی زندگی بھی اتنی ہی قیمتی ہے جتنی مارنے والے کی تو پھر جو لوگ جان کے بدلے جان، آنکھ کے بدلے آنکھ اوردانت کے بدلے دانت کا داعیہ رکھتے ہیں ان کے لئے فطری انصاف تو یہی بنتا تھا کہ قاتلوں کو ان کے منطقی انجام تک پہنچایا جاتا تاکہ وہ آئندہ قتل جیسا گھنائونا فعل کرنے والوں کے لئے سامان عبرت بنتے۔ دوسرے اس قانون میں مزید بہتری لانے کے لئے ہماری تجویز یہ ہے کہ غیرت کے نام پر اقدام قتل کرنے والے کی سزا بھی کم از کم چودہ سال سے کم نہیں ہونی چاہئے۔
ہمیں اس بات پر بہت مسرت ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف نے غیرت کے نام پر قتل کا قانون پاس کرنے پر نہ صرف پارلیمنٹ بلکہ پوری قوم کو مبارکباددی ہے۔پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین سابق صدر آصف زرداری نے 6اکتوبر 2016 کے دن کو پاکستانی تاریخ میں یادگار دن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر غیرت کے نام پر قتل اور انسداد زنا بالجبر قوانین منظور کرکے مجرموں کے آسانی سے چھوٹ جانے کی راہ بند کردی ہے۔ سابق صدر نے مزید کہا کہ اس قانون سازی سے یہ بیانیہ سامنے آیا ہے کہ قانون سازی پارلیمنٹ کا کام ہے۔
غیرت کے نا م پر قتل کے حوالے سے پاکستان کئی دہائیوں سے پوری دنیا میں بدنام ہو رہا تھا ہماری یہ خبریں عالمی ذرائع ابلاغ میں جگہ پاتے ہوئے دنیا میں انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے تمام اداروں کو دکھی و پریشان کئے ہوئے تھیں پچھلے دنوں جب قندیل بلوچ کو بے دردی سے اس کے اپنے بھائیوں نے موت کے گھاٹ اتارا تو اس کی رپورٹ بھی پوری دنیا میں چھپی، امریکی صدر اور برطانوی وزیر اعظم سے لے کر اقوام متحدہ اور دیگر ممالک کے رہنمائوں نے بھی اس افسوسناک واقعہ پر اپنے دکھ پریشانی اور حیرت کا اظہار کیا اور یہ سوال اٹھایا کہ پاکستان آخر ایسے واقعات کو کیوں نہیں روک پا رہا۔ حال ہی میں یہ بتایا گیا تھا کہ اس سال کے ابتدائی پانچ ماہ میں پاکستان کے اندر گیارہ سو خواتین موت کے گھاٹ اتاری گئیں، 833 خواتین کو اغوا کرنے کے مقدمات رپورٹ ہوئے۔ 939 خواتین کی جبری آبرو ریزی ہوئی۔ زیادہ تر واقعات بچیوں کے ساتھ پیش آئے۔ محبت کی شادی پر کئی حاملہ خواتین کو آگ لگا کر جلا دیا گیا۔ سوال یہ ہےکہ خواتین کے حوالے سے آخر ہماری سوسائٹی اتنی بے حس کیوں رہی ہے، سگے بھائیوں کے لئے بہنوں کو مارنا جیسے شغل ہو،اور ماں یا باپ بالعموم مدعی ہوتے ہیں جو چند ماہ بعد صلح کرتے ہوئے ہر چیز معاف کردیتے ہیں۔ ہماری سوسائٹی اس حوالے سے اتنی سنگ دل واقع ہوئی ہے کہ یہاں عورتوں پر ہلکے تشدد کا جواز فراہم کرنے کے لئے اخبارات میں باقاعدہ دلیل بازی یا کٹ حجتی ہوتی رہی۔انسانی رشتوں کا تو تقدس ہی باہمی احترام کے ساتھ وابستہ ہے۔ عوام کی اصل آواز یا نمائندہ ان کی منتخب کردہ پارلیمنٹ ہے جس نے اتفاق رائے سے اتنا اہم عوامی مسئلہ حل کردیا ہے۔ ہمارے مفکر پاکستان علامہ اقبال نے بھی عصر جدید میں اجماع کا حق پارلیمنٹ کے لئے تجویز کیا تھا۔ جب عوام کا معیار بہتر ہوتا جائے گا تو ادارے کا بھی ہوتا چلا جائے گا۔
ہماری قابل صد احترام پارلیمنٹ نے جو زبردست فیصلہ قومی اجماع سے کیا ہے پوری دنیا میں اس کی ستائش ہو رہی ہے اقوام متحدہ اور امریکہ سے لے کر انسانی حقوق اور حقوق نسواں کے لئے جدوجہد کرنے والے ہر ادارے اور فرد نے پاکستان کی پارلیمان کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ اب اللہ تعالیٰ ہمیں اس صائب فیصلے پر عملدرآمد کی توفیق عنایت فرمائے تاکہ ہماری مائیں، بہنیں اور بیٹیاں اپنے آپ کو برابر کا انسان سمجھ سکیں۔


.
تازہ ترین