• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ملک کی موجودہ سیاسی فضا ہر باشعور پاکستانی کیلئے بجا طور پر سخت تشویش اور اضطراب کا باعث ہے۔ تحریک انصاف دو نومبر کو اسلام آباد بند کردینے پر تلی ہوئی ہے جبکہ وفاقی حکومت کا کہنا ہے کہ ایسی ہر کوشش بہرصورت ناکام بنادی جائے گی۔ اس صورت حال کے مضمرات جتنے خطرناک ہوسکتے ہیں کسی بھی ہوش مند شخص کیلئے اسے سمجھنا مشکل نہیں۔ گزشتہ روز بھی تحریک انصاف کے قائد عمران خان نے کہا ہے کہ ’’دو نومبر کو فیصلہ کن مرحلہ ہے، حکومت نے مطالبات نہ مانے تو کچھ بھی ہوسکتا ہے، زمین پھٹے یا آسمان گرے دھرنا ضرور ہوگا‘‘۔جبکہ وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار نے ایوان صنعت و تجارت اسلام آباد کے اجلاس سے خطاب میں کہا ہے کہ اسلام آباد کے لوگوں کو یرغمال نہیں بننے دیا جائے گا۔دونوں طرف کے کئی دیگر رہنماؤں نے بھی اپنے اپنے جماعتی موقف کے مطابق ایسی ہی باتیں کی ہیں۔اس کے نتیجے میں سیاسی کشیدگی بڑھ رہی ہے اور یہی رویے برقرار رہے تو حالات کا تمام سیاسی و جمہوری قوتوں کے قابو سے باہر ہوجانا عین ممکن ہے۔ اپریل کے اوائل میں منظر عام پر آنے والے پاناما لیکس کے معاملے کے تحقیقاتی کمیشن کی تشکیل اور شرائط کار پر حکومت اور اپوزیشن میں اتفاق ہوگیا ہوتا تو آج صورت حال یقینا مختلف ہوتی۔ لیکن قوم سے خطابات میں وزیر اعظم کے اس اعلان کے باوجود کہ وہ سب سے پہلے اپنے اور اپنے اہل خانہ کے احتساب کیلئے تیار ہیں، حکمراں جماعت انہیں احتساب سے مستثنیٰ رکھنے پر اصرار کرتی رہی جسے اپوزیشن جماعتوں نے مسترد کردیا جبکہ تحریک انصاف اور اس کے قائد عمران خان نے سڑکوں پر احتجاج کا راستہ اختیار کیا اور وزیر اعظم کے استعفے یاپاناما لیکس کے ضمن میں کیے گئے سوالات کے تسلی بخش جوابات دیے جانے تک اسلام آباد کو بند کرنے کا پروگرام بنایا۔ تاہم اس عرصے میں تحریک انصاف، جماعت اسلامی، شیخ رشید اور طارق اسد ایڈووکیٹ نے سپریم کورٹ سے رجوع کیااور ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ نے ان کی درخواستوں کو منظور کرتے ہوئے ماہ رواں کی بیس تاریخ کو وزیر اعظم اور ان کے اہل خانہ سمیت معاملے کے تمام فریقوں کونوٹس جاری کردیے ہیں اور اس مقدمے کی پہلی سماعت کیلئے یکم نومبر کی تاریخ مقرر کی گئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس معاملے کے منصفانہ اور پرامن تصفیے کا یہی واحد درست راستہ ہے۔ الحمد للہ ہماری اعلیٰ عدلیہ آٹھ سال پہلے قوم کی متفقہ اور بے مثال جدوجہد کے نتیجے میں نظریہ ضرورت کے آسیب سے نجات پاچکی ہے اور اس کی غیرجانبداری اور بے لاگ انصاف ہر شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ لہٰذا پاناما لیکس کے حوالے سے وزیر اعظم کے احتساب کیلئے دارالحکومت کو بند کرنے جیسی کسی پرتشدد تحریک کا کوئی جواز نظر نہیں آتا۔ دوسری جانب حکومت کی طرف سے بھی دھمکی آمیز لب و لہجے کااختیار کیا جانا حکمت و تدبر کے منافی ہے۔اس کے بجائے دوسری اپوزیشن جماعتوں کے تعاون سے تحریک انصاف کی قیادت کو یہ باور کرانے کی ہرممکن کوشش کی جانی چاہیے کہ عدالتی عمل شروع ہونے کے بعد بھی وفاقی دارالحکومت کو بند کرنے پراس کا اصرار نہ صرف پورے آئینی نظام کیلئے تباہ کن ثابت ہوسکتا ہے بلکہ خود اس کی بصیرت اور دانشمندی کے حوالے سے منفی تاثر کو فروغ دینے کا سبب بن سکتا ہے۔ تاہم چونکہ معاملات کو بگڑنے سے بچانے کی زیادہ ذمہ داری ہمیشہ برسراقتدار قیادت ہی پر عائد ہوتی ہے، صاحب بصیرت قیادتیں ملکی وقومی مفادات کے تحفظ کیلئے اپوزیشن جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنے کی ہرممکن کوشش کرتی ہیں اور معاملات کی بہتری میں اپنی اَنا کو حائل نہیں ہونے دیتیں،لہٰذا وزیر اعظم کو اس سلسلے میں خود پہل کرنی چاہیے۔ ملک کو پہلے ہی بھارت کی پاکستان مخالف پالیسیوں، جارحانہ عزائم اور پاکستان دشمن طاقتوں کی خفیہ ایجنسیوں کی ریشہ دوانیوں کی شکل میں سنگین اندرونی اور بیرونی چیلنجوں کو سامنا ہے، اس لیے ملک کی تمام سیاسی قوتوں کا فرض ہے کہ وہ ہوش مندی سے کام لیںا ورقومی سطح پر تفریق اور انتشار کے بجائے اتفاق اور یکجہتی کو یقینی بنائیں ۔

.
تازہ ترین