• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اکتوبر کا مہینہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بہت اہمیت رکھتا ہے کیونکہ27 اکتوبر 1947ء بھارتی فوج نے لارڈ مائونٹ بیٹن کی اشیر باد کے ساتھ کشمیر پر حملہ کیا اور آدھے سے زیادہ کشمیر پر قبضہ کرلیا تھا، ہندوستان کی تقسیم کے فارمولے کے لحاظ سے جس ریاست میں،مسلمان اکثریت میں ہوں وہ پاکستان سے الحاق کرسکتی ہے اور جہاں ہندو اکثریت میں ہوں وہ ریاست بھارت کے ساتھ الحاق کرسکتی ہے، تاہم اس وقت برطانوی قیادت نے اپنی ہندو نواز پالیسی کے تحت کئی ریاستوں میں ناانصافی کرکے انہیں بھارت کے ساتھ الحاق کرنے پر مجبور کردیا تھا مسلمان کمزور ہونے اور ریاستی طاقت نہ ہونے کے سبب کچھ بھی نہ کرسکے، تاہم کشمیر میں مسلمانوں کی نوے فیصد اکثریت تھی لیکن وہاں حکومت ہندو راجہ ہری سنگھ کی تھی، جس نے کانگریس کے ہندو لیڈروں اور برطانوی قیادت کی مدد سے کشمیری عوام کی مرضی کے خلاف فیصلہ کرنے کے لئے ہتھکنڈے استعمال کرنا شروع کردئیے کشمیری عوام نے مہاراجہ ہری سنگھ کے محل کے باہر مظاہرے کئے، اسی دوران جب مہاراجہ ہری سنگھ کے محل میں بھارتی بیورو کریٹ وی پی مینن کی موجودگی اور ہری سنگھ کی جانب سے کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے کی اطلاع ملی تو کشمیریوں کے احتجاج میں تیزی آگئی اس موقع پر مہاراجہ کی ڈوگرا فوج نے کشمیری مظاہرین پر فائر کھول دیا جس سے کئی کشمیری مظاہرین نہ صرف زخمی ہوئے بلکہ چند ایک شہید بھی ہوئے اس اطلاع کے ملتے ہی پورے سری نگر میں ہنگامے پھوٹ پڑے،اس موقع پر بھارتی بیوروکریٹ وی پی مینن نے جب دیکھا کہ حالات کنٹرول سے باہر ہورہے ہیں تو اس نے راجہ ہری سنگھ کو جموں کی جانب منتقل ہونے کو کہا،بھارتی بیوروکریٹ کے اس حکم سے کشمیریوں کو ایسا محسوس ہوا کہ مہاراجہ ہری سنگھ بھارتی تحویل میں ہے اور ان کے احکامات پر عمل کررہا ہے، اسی دوران مہاراجہ کی جانب سے لارڈ مائونٹ بیٹن کو ایک خط تحریر کیا گیا جس میں کشمیر کے بھارت سے الحاق کا اعلان کیا گیاتھا اور کشمیر میں حالات کو کنٹرول کرنے کے لئے بھارتی فوج کی مداخلت کی درخواست کی گئی،تاہم مورخین کے مطابق مہاراجہ ہری سنگھ کی جانب سے ایسا کوئی خط لارڈ مائونٹ بیٹن کو لکھا ہی نہیں گیا تھا بلکہ بھارتی بیوروکریٹ وی پی مینن نے مہاراجہ ہری سنگھ کو حراست میں لیکر زبردستی خط تحریر کرکے مہاراجہ کی ریاستی اسٹمپ لگا کر لارڈ مائونٹ بیٹن کو خط بھجوایا جس کے بعد پورے کشمیر کی تاریخ تبدیل ہوکر رہ گئی اور آج تک کشمیر میں آگ و خون کا بازار گر م ہے، ماضی کے بھارتی بیوروکریٹ وی پی مینن جس نے کشمیر کے ساتھ ظلم و زیادتی کی ابتدا کی ان کے صاحبزادے بھی آگے چل کر بھارت کے سیکرٹری خارجہ بنے جی ہاںمن موہن سنگھ کے دورحکومت میں شیوشنکر مینن ہی سابق بھارتی بیوروکریٹ وی پی مینن کے صاحبزادے تھے۔
کشمیر اور کشمیریوں کو اپنے ساتھ رکھنے کے لئے بھارت نے بہت جتن کیے ہیں، زیادہ سے زیادہ بجٹ بھی ہے، ملازمتیں بھی ہیں، خصوصی مراعاتیں بھی ہیں لیکن پھر بھی کشمیری قوم بھارت کے ساتھ خوش نہیں ہے،کیونکہ کشمیری بھارت سے آزادی چاہتے ہیں،نوئے کی دہائی میں شروع ہونے والی جدوجہد آزادی کشمیر نے پوری دنیا کو اپنی جانب متوجہ کیا لیکن بھارت نے عالمی برادری کے سامنے بہت چالاکی سے جدوجہد آزادی اور دہشت گردی کو ایک ہی سکے کے دو رخ ثابت کرکے کشمیری عوام کی اس جدوجہد آزادی کو دبانے میں کامیابی حاصل کر لی جس سے کشمیری عوام کو شدید مایوسی کا سامنا کرنا پڑا، جبکہ گیارہ ستمبر کے واقعہ نے بھی ہر طرح کی مسلح جدوجہد کو دہشت گردی بنا کر رکھ دیا اور کشمیر پر بھارتی کیس مزید مضبوط ہوگیا، دوسری جانب بھارت نے اپنی معاشی ترقی اور عالمی برادری میں سفارتی سطح پر اہم مقام حاصل کرکے کشمیر پر پاکستان کے کیس کو کمزور کرنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن کیونکہ کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھارت کی جانب سے ہی لے جایا گیا تھا لہذا ہمیشہ ہی بھارت کو کشمیر کے مسئلے پر سبکی کا سامنا کرنا پڑا ہے، جبکہ پاکستان نے بھی کسی بھی عالمی فورم پر کشمیر کے مسئلے کو اٹھانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ہے کشمیر کی حریت پسند قیادت جس میں سید علی گیلانی، میر واعظ عمر فاروق اور یسین ملک شامل ہیں، نے کشمیر کے مسئلے کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کے لئے تن من دھن سے کوششیں کیں اور بے انتہا قربانیوں کے سبب کشمیر آج عالمی سطح پر اہم ترین مسئلے کی شکل میں موجود ہے۔ مسئلہ کشمیر نے بھارت کو کئی اہم عالمی فورمز کا ممبر بننے سے محروم کررکھا ہے جس میں سب سے اہم اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی مستقل نشست ہے کیونکہ مسئلہ کشمیر بھارت کی جانب سے ہی سلامتی کونسل میں لے جایا گیا تھا لہذا کوئی بھی ملک جو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا رکن بننے کی خواہش رکھتا ہو اور اس کا اپنا ہی کوئی مسئلہ سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر موجود ہو تواس وقت تک وہ ملک سلامتی کونسل کی مستقل نشست کے لئے اہل نہیں ہوسکتا، گزشتہ دنوں میری حریت کونسل کے بزرگ لیکن باہمت اور حوصلہ مند رہنما سید علی گیلانی سے ٹیلیفونک بات چیت ہوئی جس طرح انہو ںنے کشمیر پر اصولی موقف اپنایا ہوا ہے وہ قابل تعریف ہے،وہ آج تک کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق سے کم کسی بھی حل پر بات چیت کے قائل نہیں ہیں وہ ہمیشہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ذریعے مسئلہ کشمیر کے حل کے خواہاں ہیں،وہ بھارت کی جانب سے فراہم کی جانے والی تمام مراعات پر لعنت بھیجتے ہیں، وہ کشمیر کی جوان ہونے والی نئی نسل پر فخر کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ کشمیر کی نئی نسل پہلے سے بھی زیادہ بھارتی بربریت کے خلاف آواز بلند کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور کبھی بھی بھارت کی غلامی قبول کرنے پر تیار نہیں ہوگی،کشمیر کے مسئلے پر دنیا بھر میں مقیم پاکستانی آواز بلند کرتے رہتے ہیں جبکہ اکتوبر کا مہینہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے انتہائی اہمیت رکھتا ہے، اس حوالے سے پوری دنیا میں کشمیر کی آزادی اور کشمیر میں بھارتی مظالم کے خلاف پر امن مظاہرے کیے جارہے ہیں،ٹوکیو میں بھی اٹھائیس اکتوبر کو پاکستانی کمیونٹی کی جانب سے اقوام متحدہ کے دفترکے سامنے کشمیر میں بھارتی مظالم کے خلاف پر امن مظاہرہ ہوگااور اقوام متحدہ کو ایک یادگاری خط بھی پیش کیا جائے گا جس میں بھارتی فوج کی جانب سے معصوم اورنہتے کشمیریوں پر خطرناک پیلٹ گن کے استعمال اور ان کی بینائی ضائع کرنے کی بھارتی فوج کی کوششوں کو اجاگر کیاگیا ہے، تمام پاکستانیوں کو چاہئے کہ وہ دنیا کے کسی بھی ملک میں ہوں،کشمیرمیں ہونے والےمظالم کو عالمی سطح پراجاگر کرنے کے لئے پر امن طور پر آواز بلند کریں امید ہے جاپان اور امریکہ سمیت عالمی طاقتیں مظلوم کشمیریوں کی آواز سننے پر مجبور ہوجائیں گی۔




.
تازہ ترین