• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میرے’’تلفذ‘‘ کو لقوہ ہوگیا اے(پلیز! تلفظ کو تلفذ ہی رہنے دیں)کیونکہ مجھے’’خاجہ‘‘آصف ہوگیا اے(اے کوہے نہ کریں)مجھے سمجھ نئیں آتی اےیہ مران خان کس مٹی سے بنا اے(مران کو عمران نہ کریں)یہ ناں ڈرتا اے ناں تھکتا اےناں بکتا اے ناں جھکتا اےقارئین!تازہ ترین اور دلچسپ ترین خبر یہ اے کہ خاجہ آصف نے مران خان کو مذاکرات کی پیشکش کردی اے********یہ کیسی کاغذی حکومت ہے جس کے لئے قومی کرکٹروں کے بے ضرر سے’’پش اپس‘‘ بھی درد سر بن گئے لیکن سردرد کے لئے تو سر اور سر کے اندر دماغ کا ہونا ضروری ہے۔ عرصہ پہلے احمد ندیم قاسمی فرماگئے۔آپ دستار اتاریں تو کوئی فیصلہ ہولوگ کہتے ہیں کہ سر ہوتے ہیں دستاروں میںکیسے اور کتنے ’’سنجیدہ مسخرے‘‘ ہیں جو پہلے قومی کرکٹ ٹیم کو جیت کے بعد پش اپس لگانے سے صرف اس لئے روکتے ہیں کہ فتح کا کریڈٹ فوجیوں کو نہ جائے جنہوں نے کھلاڑیوں کی جسمانی تربیت کی تھی اور پھر خود ہی گھبرا کر یہ حکم واپس بھی لے لیتے ہیں۔ ذہن ہی نہیں ظرف سے بھی یہ محرومی افسوسناک ہے لیکن شاید ابھی کچھ اور دیر ہمارے مقدر میں یہی کچھ لکھا ہے۔********اللہ پاک کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ سپریم کورٹ نے تحریری فیصلہ جاری کردیا ۔ پلی بارگین کرنے والے افسروں کے خلاف کارروائی کا یہ حکم کرپشن کینسر میں مبتلا اس بے قصور مجبور قوم کے مؤثر علاج کی طرف پہلا قدم ہے۔پلی بارگین سے شروع ہو کر پاناما تک پہنچنے والی اس جمہوریت پر صدقے واری جانے کے لئے ضروری ہے کہ آدمی سادہ لوح ہو یا اس کی کم از کم تین نسلوں کی رگوں میں ن لیگ کا نمک موجود ہو۔ فرمایا’’رضاکارانہ واپسی کا اختیار بدعنوان عناصر کو کلین چٹ دینے کے مترادف ہے اور یہ رقوم نیب افسران کو نوازنے کے لئے رکھی جاتی ہیں‘‘۔ شاید قدرت ہم جیسوں کی شنوائی پر اتر آئی ہے کہ وہ باتیں ہائی لائٹ ہورہی ہیں جن پر ہم جیسے لوگ مدتوں کوئلوں پر ماتم کرتے رہے۔’’اب وہ حکایت عام ہوئی ہے سنتا جا شرماتا جا‘‘میں کہیں اور کچھ اس طرح پھنسا ہوا تھا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب المعروف خادم اعلیٰ کی پریس کانفرنس ٹی وی پر دیکھ سکتا تھا، سن نہیں سکتا تھا سو یہ’’شہنشاہ جذبات‘‘ قسم کی پریس کانفرنس آج اخباروں میں پڑھی تو یہ جان کر خوشی ہوئی کہ’’پنجاب سپیڈ‘‘ نے اربوں روپے کی مبینہ سپیڈی کرپشن کے’’ثبوت‘‘ طلب کرتے ہوئے عدالت جانے کا فیصلہ کیا جو بہت مستحسن ہے۔ اس سلسلہ میں دو معروضات پر اکتفا کروں گا کہ حضور! ثابت تو آپ کے فیورٹ حضرت آصف زرداری کے خلاف بھی کچھ نہ ہوسکا جن کی گردن میں رسہ ڈال کر سڑکوں پر گھسیٹنے کی آپ خوشخبریاں سنایا کرتے تھے۔ الزام تراشی کے اس کلچر کی پیوند کاری میں سب نے حصہ ڈالا ہے اور وہ کون تھے جو بغیر کسی ’’ثبوت‘‘ کے حضرت آصف زرداری کو مسٹر ٹین پرسنٹ کہا کرتے تھے؟ دوسری عرض اتنی ہے کہ بھائی جان کو بھی ریمنڈ ڈبلیو بیکرRaymond W. Bakerکے خلاف عدالت جانے کا مشورہ دیں جس نے بھائی جان وزیر اعظم پاکستان پر کتابی شکل میں اربوں روپیہ ہڑپنے کے الزامات لگائے۔ اس شہرۂ آفاق کتاب کا عنوان ہے"Capitalismʼs Achilles Heel"ہے جو انگریزی زبان میں لکھی گئی کتابوں کی ہر اچھی دکان پر دستیاب ہے۔ بھائی جان کی داستان دیانت و امانت اس کتاب کے صفحہ نمبر82سے شروع ہو کر اس آدمی کے رونگٹے بھی کھڑے کرسکتی ہے،جس کے رونگٹے ہی نہ ہوں۔ یہ کتاب نہ ملنے کی صورت میں خاکسار حسن نثار سے بذریعہ ڈی جی پی آر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔’’پنجاب سپیڈ‘‘ کے ساتھ فوراً ہدیہ کردوں گا اور اس کے عوض مال منصب بالخصوص کسی راشی و عیاشی منصب کا مطالبہ بھی نہیں کروں گا۔********خوامخواہ یہ فضول سا محاورہ یاد آرہا ہے کہ’’جب بندریا کے پائوں جلنے لگتے ہیں تو وہ اپنے بچے پائوں کے نیچے رکھ لیتی ہے‘‘ دیر آید درست آید۔ الیکشن کمیشن نے بالآخر پارلیمنٹ کے اثاثوں کی چھان بین کا فیصلہ کرہی لیا ہے تو کسی کو یہ نہیں کہنا چاہئے کہ’’بڑی دیر کی مہربان آتے آتے‘‘ ۔کاگا سب تن کھائیوچن چن کھائیو ماسدو نیناں مت کھائیو موہے پیا ملن کی آس70سال بعد ہی سہی بلکہ170سال بعد بھی جینوئن جمہوریت نصیب ہوجائے تو بڑی بات ہے اور اس سے بھی بڑی بات یہ کہ جمہوریت کی دایہ الیکشن کمیشن کو یہ خیال بھی آیا ہے کہ........’’انتخابی اخراجات کم کرکے ’’جمہوریت‘‘ کو عام آدمی کی دسترس میں لانا چاہتے ہیں‘‘۔ اپنا یہ ماتم بھی پرانا ہے کہ اس بے غیرت جمہوریت میں تو99فیصد سے زیادہ آبادی قانون سازی کے عمل سے اتنی ہی دور ہے جتنی دوری برہمنوں اور شودروں کے درمیان پائی جاتی ہے۔******** خورشید شاہ اکیلے نہیں اور بہت سے راتب خور بھی اس سیاپے میں مصروف ہیں کہ موجودہ صورتحال سے’’سسٹم‘‘ کو خطرہ ہے تو سائیں یہی تو اس صورتحال کی خوبصورتی ہے کیونکہ اس سسٹم نے ہی تو عوام کا سانس لینا تقریباً ناممکن بنادیا ہے، اسی نحوست سے تو نجات حاصل کرنا ضروری ہے جو’’مائنس جمہور‘‘ کو جمہوریت بنا کر پیش کرتا ہے۔********عوام کے لئے دو خوشخبریاں اور حرام کے لئے دو بدخبریاں۔ اول یہ کہ عمران نے پرویز خٹک کو ارکان اسمبلی سے استعفیٰ لینے کی ہدایت کردی ہے اور دوسری یہ کہ سانحہ ماڈل ٹائون کے حوالہ سے رپورٹ سامنے لانے کی درخواست پر فل بنچ تشکیل دیا جارہا ہے۔کیا چودہ لاشیں نگل جانے والا ’’یہ سسٹم‘‘ اس لائق نہیں کہ اسے گٹر برد کردیا جائے لیکن ظاہر ہے اس’’سسٹم‘‘ کے ’’بینی فشریز‘‘ کو یہ خالص خوراک ہضم نہیں ہوگی اور وہ’’فوڈ پوائزننگ‘‘ کا شکار ہوجائیں گے۔


.
تازہ ترین