• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کسی کو یاد ہے کہ پشاورکے آرمی پبلک اسکول ، چارسدہ یونیورسٹی اور کوئٹہ میں پولیس ٹریننگ اسکول پرحملوں میں کتنے نوجوان شہید ہوئے اس کا جواب توشاید ہم سب کو یاد ہولیکن کیا کسی کو یاد ہے کہ سال 2004میں تحریک طالبان کے اس وقت کے امیرکمانڈرنیک محمد پرحملے کے بعد شروع ہونیوالی جنگ میں کتنے کمسن اورنوجوان مارے جاچکے ہیں جسکا جواب کسی کے پاس نہیں۔ اس ساری تمہید کامقصد یہ ہے کہ یاد دلایا جائے کہ جو جنگ افغانستان پرحملے کے بعد پاکستان میں شروع ہوئی اس کاایندھن بھی جوان بن رہے ہیں اورنشانہ بھی۔ بات بڑی آسان ہے پاکستان میں یہ جنگ شروع ہوئی توچاہے وہ فورسزکے اہلکار ہوں یا وہ جوریاست پاکستان سے لڑرہے ہیں دونوں ہی جوان یا نوجوان ہیں۔گزشتہ تین چارپے درپے واقعات میں جو چیز ابھرکرسامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ نوجوان دہشت گردوں نے پشاورکے اسکول، چارسدہ کی یونیورسٹی اورکوئٹہ کے پولیس ٹریننگ کالج میں نوجوانوں کو ہی نشانہ بنایا۔بڑوں سے بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ اپنی ہرقیمتی چیزاور خوشی کو حاسدین کی نظروں سے دوررکھوکیونکہ وہ حسد کرکے تمہیں ایسی تکالیف سے دوچارکردیں گے کہ جس کا کوئی علاج ممکن نہیں ہو گایہی پاکستان کے ساتھ بھی ہوا جودنیا میں گنتی کے ان دوتین ملکوں میں شامل ہے جس کی سب سے بڑی خوش قسمتی اورطاقت اس کے نوجوان ہیں ۔دنیا کے بہت سے ممالک میں نوجوانوں کی تعداد نہ ہونے کے برابرہوتی جارہی ہے لیکن پاکستان کی آبادی میں نوجوانوں کا تناسب ساٹھ فی صد کے قریب ہے جواگرمختلف میدانوں میں مثبت کاموں پرڈٹ جائیں توپاکستان کوایک عظیم ریاست بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ دنیا بھرمیں ترقی کرنے والے ممالک کے اعداد وشماریہی کہتے ہیں کہ پاکستان اپنی اس قوت کی بدولت خوش قسمت ترین ملک ہے لیکن اس خوش قسمت ملک کی بدقسمتی یہ ہے کہ حالات اس خوش قسمتی کو استعمال نہیں کرنے دے رہےاورنہ ہی ملک چلانے والوں میں سونے اورچاندی سے زیادہ قیمتی اثاثے کواستعمال کرنے کے لئے کوئی بصیرت ہے۔
ہمارے ملک کے سفارشی کلچر نے اس نوجوان کو پورے پاکستان میں مسائل سے دوچار کردیاہے جس سے نمٹنا کسی کے بس میں نہیںرہا ۔ کیا ہم میں سے کوئی اس بات کورد کرسکتا ہے کہ شہروں میں نوکریوں میں حق نہ ملنے اور نمودونمائش سے متاثرہونے کی وجہ سے یہ جرائم میںملوث ہوکرقانون نافذ کرنے والے اداروں کے لئے مسئلہ بنے ہوئے ہیں، گذشتہ دنوں پشاورکے سب سے پوش علاقے حیات آباد میں ڈکیتیوں میں ایسے نوجوان پکڑے گئے جو امیر گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ ان سے پہلے بھی کچھ ایسے ہی نوجون پکڑے گئے تھے جن کی کہانی سن کر رونگٹے کھڑے ہوگئے کہ دوستوں کے پاس خودسے اچھا موبائل سیٹ دیکھ کر دل للچایا اورڈکیتی ورہزنی کی راہ اختیار کرلی اوراس نمودونمائش کے ہاتھوں زندگی تباہ کربیٹھے یعنی جوانی کا باقی بڑا حصہ اب جیل کی سلاخوں کے پیچھے کٹے گا۔
لیکن کہانی یہی ختم نہیں ہورہی کوئٹہ میں پولیس ٹریننگ کالج میں ہونے والے دہشت گرد حملے سے لے کر ہرچھوٹی بڑی کارروائی خصوصا خودکش حملوں کے لئے نوجوانوں کے استعمال نے پوری ریاست کو ایک ایسی مشکل سے دوچارکردیا ہے کہ کوئی بھی اب ان نوجوانوں کو اثاثہ کہنے کی بات کرتے ہوئے سوبارسوچتا ہے ۔ چند سال پہلے جب طالبان رہنما ملا منصورداداللہ کی پانچ سو کم عمرخودکش حملہ آوروں کے ساتھ ایک ویڈیوسامنے آئی تھی توہم خود بھی اسے حقیقت پرمبنی ماننے کو تیار نہ تھے لیکن پھر جب پے درپے واقعات میں کم عمرنوجوان استعمال ہونے لگے توحیرت ہوئی کہ یہ توحقیقت ہے۔اس دوران پشاوریونیورسٹی سے لے کربڑے اچھے اداروں کے نوجوانوں کو ا ن حملوں کے لئے تیارہوتے دیکھ کرلگا کہ شاید یہ کوئی فلمی کہانی ہے۔ ہرکسی کی زبان پرایک ہی سوال ہوا کرتا تھا کہ آخریہ سب ہوکیوں رہا ہے اورہمارے نوجوانوں کو اتنی آسانی سے کیسے اس مشکل کام کے لئے تیارکرلیا جاتا ہے،لیکن پھرگذشتہ دنوں خیبرایجنسی کی افغانستان سے متصل ایک بڑی وادی راجگل جانے کا اتفاق ہوا اوروہیں پر کچھ عمائدین کی بات چیت نے بہت سے سوالوں کے جواب دے دیئے، راجگل کی وادی میں قبائلی عمائدین نے اپنی ٹوٹی پھوٹی اردومیں گورنراورفوجی افسران سے سب سے زیادہ اپنے بچوں کے لئے مڈل ا سکول کا قیام مانگاکیونکہ پاکستان کے قیام کے بعد سے اب تک اس علاقے میں پانچویں سے اوپرکے درجے کا کوئی ا سکول نہیں ہے۔اس پوری وادی میں جس کا رقبہ شاید چارسومربع کلومیٹربنتا ہے میں ان کے کہنے کے مطابق پرائمری سے اوپرکے درجے کا اسکول ہی نہیں جس کی وجہ سے نوجوان اکثرپانچویں کے بعد اسکول چھوڑجاتے ہیں اوریہی وہ وقت ہوتا ہے جب اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لئے ان کے اردگرد منڈلانے والے گدھ انہیں کہیں ظلم کے نام پر، کہیں رقم کا لالچ دے کر اورکہیں مذہب کے نام پر استعمال کرنے کیلئے ان پر جھپٹ پڑتے ہیں۔
وہ قبائلی باتیں کررہے تھے اورمیں دل ہی دل میں اپنے آپ کوایک ایسا قومی مجرم سمجھ رہا تھا جس نے ان قبائل کو ان کے نام پرآنے والے فنڈزسے بھی محروم رکھا۔ کسے نہیں پتہ کہ گورنراوران جیسے عمائدین کے ایک دورے پرجتنے پیسے خرچ ہوتے ہیں اس میں ایک پرائمری ا سکول کومڈل بنایاجاسکتا ہے لیکن بات صرف اتنی ہی نہیں افسوس اس بات کا بھی ہے کہ ان علاقوں میں اساتذہ تعینات توہیں لیکن وہ ا سکولوں میں آتے ہی نہیں۔ ایسے میں کسے مجرم سمجھا جائے اورکس کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا جائے یہ ایسے سوالات ہیں جن کے جواب جاننے ضروری ہیں۔
راجگل کی وادی کلیئرتوہوگئی لیکن ہم میں سے کسے نہیں پتہ کہ اس وقت ہماری بہت سی وادیاں ایسے نوجوانوں کو جنم دے رہی ہیں جہاںپانچویں کے بعد اسکول کی سہولت ختم ہوجاتی ہے اورپھریہی لڑکے گلیوں اورکھیتوں میں آسان شکارکی صورت دشمن کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں اور جب ہمیں جہاں کوئٹہ کے پولیس ٹریننگ کالج سے نوجوانوں کی لاشوں کے بیچ ایک خودکش کی لاش بھی ملتی ہے تووہ بھی نوجوان ہی ہوتا ہے۔




.
تازہ ترین