• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
9/11 کے بعد دنیا میں پیدا ہونے والے حالات اور بالخصوص عالم اسلام کی صورتحال روز و شب بگڑتی چلی جارہی ہے۔ عالم اسلام کے اہم ترین ممالک میں اس وقت خانہ جنگی جاری ہے اور جو ممالک اس خانہ جنگی سے محفوظ رہ گئے ہیں ان کو غیر مستحکم کرنے کیلئے سازشیں کی جارہی ہیں۔ پاکستان ، سعودی عرب اور ترکی عالم اسلام میں مستحکم اور مضبوط ممالک کے طور پر موجود ہیں، پہلے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کی گئی لیکن پاکستان کے عوام ، حکومت اور فوج نے مل کر ان دہشت گرد عناصر کو ناکام کردیا اور آج 80000 ہزار پاکستانیوں کی جانوں کی قربانی کے بعد پاکستان ستر فیصد اس صورتحال سے باہر نکل آیا ہے، جو پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کیلئے شروع کی گئی تھی۔ پاکستان کے ساتھ ساتھ سعودی عرب اور ترکی میں بھی عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ، پہلے بحرین کے ذریعے سعودی عرب میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر مسلح جتھوں کو داخل کرنے کی کوشش کی گئی لیکن سعودی عرب کے مضبوط سلامتی کے اداروں کے بر وقت اقدامات سے یہ کوشش ناکام ہوئی تو اس کے بعد یمن کے حوثی باغیوں کو منظم اور مسلح کر کے سعودی عرب کی سرحد وں پر حملوں کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ اس صورتحال میں سعودی عرب اور عرب ممالک کی قیادت نے اس بات کا احساس اور ادراک کیا کہ اگر فوری طور پر حوثی باغیوں کی کارروائیوں کو نہ روکا گیا تو اس سے پورا خطہ عدم استحکام سے دو چار ہو جائے گا۔ سعودی عرب کے شاہ خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبد العزیز کی قیادت میں عرب ممالک نےحوثی باغیوں کو یمن میں ہی روکنے کا فیصلہ کیا اور یمن حکومت کی درخواست پر یمن میں پیدا ہونے والی اس بغاوت کے خاتمے کیلئے اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش شروع کی۔ یمن کے حوثی باغیوں کے پاس جس طرح کا اسلحہ تھا اس سے یہ بات واضح ہو رہی تھی کہ ان کاہدف یمن کی حکومت نہیں ہے بلکہ عرب ممالک اور بالخصوص سعودی عرب ان کا اصل ہدف ہے ۔ شاہ سلمان بن عبد العزیز اور دیگر عرب سربراہوں کے متفقہ فیصلے کے بعد شروع کئے جانے والے آپریشن عاصفۃ الحزم کو آج ایک سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے ۔ اس آپریشن کے دوران یمن کی حکومت کی رٹ بہت سے علاقوں میںبحال ہو چکی ہے لیکن حوثی باغیوں کا ہدف یمن کی حکومت کی بجائے سعودی عرب کے شہر بن چکے ہیں۔ روز یمن سے متصل سعودی عرب کے شہروں میں نہتے شہریوں پر میزائلوں سے حملہ کیا جاتا ہے جس میں بے گناہ شہری شہید ہو رہے ہیں ، ان بے گناہ انسانوں میں دو پاکستانی مزدور بھی شامل ہیںجو اپنی ورکشاپ پر کام کرتے ہوئے حوثی باغیوں کے حملوں کا نشانہ بنے ۔ حالات اور وقت کے ساتھ عالم اسلام اس ساری صورتحال کو دیکھ بھی رہا ہے اور عالم اسلام کے فہم اور ادراک رکھنے والے قائدین کو اس بات کا احساس بھی تھا کہ سعودی عرب ہدف صرف اس لئے ہے کہ وہاں پر مسلمانوں کے مراکز مکہ اور مدینہ ہیں۔ 27 اکتوبر کو حوثی باغیوں نے مکہ مکرمہ کو اپنا ہدف بنانے کی کوشش کی اور ایک میزائل مکہ مکرمہ کی طرف داغ دیا گیا جسے سعودی عرب کے دفاعی سسٹم نے فضا میں ہی ناکام بنا دیا۔عالم اسلام کیلئے یہ صورتحال نہ صرف تشویشناک بلکہ ناقابل قبول ہے اس سے قبل مدینہ منورہ میں رمضان المبارک میں خود کش حملہ کیا گیا جس کا ہدف مسجد نبوی ؐ اور روضۃ الرسول ؐ تھا لیکن سعودی عرب کے سلامتی کے اداروں کے جوانوں نے اپنی جانیں قربان کر کے اس خود کش کو روک کر مسلمانوں کے مقدس ترین مقام کو محفوظ بنایا بلکہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ پر حملوں کی کوششوں نے پوری ملت اسلامیہ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ ہر کلمہ گو مسلمان اس صورتحال سے پریشان اور غم کی کیفیت میں مبتلا ہے ۔ مقامات مقدسہ پر حملہ کرنے والوں کا تعلق کسی مسلمان گروہ یا جماعت سے نہیں ہو سکتا بلکہ ایسا کرنے والے صرف اور صرف مسلمانوں کے اور عالمی امن کے دشمن ہی ہو سکتے ہیں۔ اس صورتحال میں سعودی عرب کی حکومت پر جہاں بہت ساری ذمہ داری عائد ہو تی ہے وہاںپر عالم اسلام کے مضبوط ترین ممالک پاکستان ، ترکی اور قطر پر بھی یہ ذمہ داری آتی ہے کہ وہ ارض حرمین الشریفین کی سلامتی اور دفاع کیلئے سعودی حکومت کے ساتھ ہر سطح پر تعاون کا اعلان کریں ۔ یہ بات درست اور روز روشن کی طرح واضح ہے کہ ارض حرمین الشریفین کے خلاف ہونے والی سازشوں کا مقابلہ سعودی عرب کے سلامتی کے ادارے بھرپور انداز سے کر رہے ہیں اور سعودی عرب کے سلامتی کے اداروں نے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ ارض حرمین الشریفین کے دفاع اور سلامتی کے لیے ہر طرح سے اہل ہیں لیکن بطور مسلمان کے جو ذمہ داری عالم اسلام پر عائد ہوتی ہے اس کو ادا کرنے کیلئے پاکستان سمیت تمام اسلامی ممالک کو کسی بھی تاخیر سے کام نہیں لینا چاہیے ۔ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی سلامتی اور استحکام تمام مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکن ہے ، یہ کوئی فرقہ وارانہ معاملہ نہیں بلکہ اسلام اور مسلمانوں کی بقاء کا معاملہ ہے اور اس میں کسی قسم کی کوتاہی مسلمانوں کیلئے نا قابل قبول ہو گی ۔ فور ی طور پر اسلامی سربراہی کانفرنس کا اجلاس بلایا جانا وقت کا تقاضہ ہے اور یہ اجلاس مکہ مکرمہ میں ہونا چاہیے اور اس میں واضح فیصلہ کیا جانا چاہیے کہ ارض حرمین الشریفین کی سلامتی ، استحکام اور بقاء کیلئے حکومت سعودی عرب کے ساتھ کس طرح تعاون کیا جانا چاہیے ۔سعودی عرب کی قیادت عالم اسلام کے مسلمانوں کو جس مقصد کیلئے اور جس طرف بھی دعوت دے گی مسلمان بغیر کسی کوتاہی کے اس کیلئے ہر لمحہ تیار ہیں۔ آخر میں یہ بات بھی عالم اسلام کیلئے اطمینان بخش ہے کہ حوثی باغیوں کی طرف سے مکہ مکرمہ پر داغے جانے والے میزائل کے بعد حوثی قبائل کے نوجوانوں نے ان سے علیحدگی کرنا شروع کر دی ہے اور ان نوجوانوں کو روکنے کیلئے حوثی باغیوں کے سر براہ عبد المالک حوثی نے ہر قسم کے ظلم و ستم کا سلسلہ شروع کر دیا ہے ۔ اس صورتحال کو بھی بہر صورت ملت اسلامیہ کو دیکھنا ہو گا۔

.
تازہ ترین