• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عاصمہ جہانگیر!
وہ پاکستان کی ایک محترم ترین خاتون ہیں۔ ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ اعزاز یافتہ بھی، ملک غلام جیلانی، ان کے والد گرامی، اپنی زندگی میں پاکستان اورپاکستانی معاشرے کی ایک توانا علامت تھے۔ ان کی مجالس اورگفتگو پاکستانیوں کے لئے ہمیشہ حیات ِ نو کا پیغام بن کر ابھرتی، بہت اوپن مکالمہ کرتے، وژن حیران کن تھا، سیاسی خیالات کی بنیادوں میں انسانی حقوق کے احترام کا عہد موجزن رہا۔
حب الوطنی، آئینی بالادستی، بنیادی انسانی حقوق کی عملی علمبردار اور پاکستان بھر کی ’’مظلوم عورتوں‘‘ پر تہہ در تہہ مظالم سےآشنا ملک غلام جیلانی مرحوم کی یہ صاحبزادی جب کسی حوالے سے بات کریں وہ ملک کی فضائوں میں ارتعاش پیدا کرتی ہے۔ اس بات کا وزن ایک دھمک کی صورت محسوس ہوتا ہے۔ چند روز پہلے انہو ںنے ایسے ہی ایک تاریخی لمحے کی تاریخی سرشت کا چہرہ دکھاتے ہوئے سیاستدانوں سے کہا ’’پیارے اورعزیز سیاستدانو! جس درخت کی شاخ پہ بیٹھے ہو اسے مت کاٹو۔ منتخب حکومت کو کام سے روکاجائے تو برداشت ختم ہوجاتی ہے۔ ادارے نہیں ہیں تو عمران خان بھی گھر چلے جائیں۔ اب پاکٹ پارٹیوں کا وقت گزر چکا ہے۔ پاکٹ پارٹیوں کو عقل سے کام لینا چاہئے۔ ہمارےملک میں ادارے نہیں ہیں تو الیکشن بھی بند کردیں۔ ادارے نہیںہیں تو پھر یہاں سیاسی جماعتوں کا کیا کام ہے؟ اس درخت کی شاخ کاٹنے کا سب سے زیادہ نقصان سیاستدانوں کو ہی ہوگا۔ ہمارے ملک کے سیاسی سرمایہ دار پاکٹ پارٹیاں لے کر چلتے ہیں۔ پاکٹ پارٹیوں کا وقت گزر گیا ہے۔ یہ تبدیلی نہیں لائے ان کی وجہ سے تبدیلی آئے گی!‘‘
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی سابق صدر عاصمہ جہانگیر کی پکار نے پاکستان کےماضی کے درازوں پر دستک دی۔ اس دستک کے شدید جھکڑوں سےاس ماضی کی کھڑکیاں زور زور سے کھلنے اور بند ہونے لگی ہیں۔ 7اکتوبر 1958سے لے کر 12اکتوبر 1999 تک اور 12اکتوبر 1999 سے لے کر آج ان سطور کے رقم ہوتی یکم نومبر 2016 کی تاریخ تک کے کھلے اور پراسرار پردے عاصمہ جہانگیر کی صدا کی طوفانی جبلت نے سرکا دیئے ہیں! سیاستدانوں کو ہی نہیں ہم سب کو ان کے اس گجر کو پورے دھیان سے سننا چاہئے۔ جو ہو رہا ہے اس میں دونوں غلط ہیں، ہم دانشوروں یا تجزیہ کاروں کی اکثریت بھی غلط ہے۔ تقسیم شدہ عوام کی اکثریت بھی غلط ہے، ہم سب توازن اور حقائق سے ہٹ چکے ہیں۔ حکمرانوں کا فرض برداشت تھا مخالفوں کا فرض توازن تھا۔ دونوں اپنا اپنا فرض ادا کرنے میں ناکام رہے!
ایسا لگتا ہے محترمہ عاصمہ جہانگیر کی صدائے بازگشت پیپلزپارٹی کے جواں سال چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے وجود میں تجسم اختیار کرگئی ہے۔ بلاول کی آنکھیں آبدیدہ ہوئیں، بلاول کی گفتگو نے پاکستانی حکمرانی کے ایوانوں اور پاکستانی دانشوروں اور تجزیہ کاروں کے ذہنوں او ر قوم کے اجتماعی مزاج کی تاریخی ٹریجڈی مجسم کرکے رکھ دی!
بلاول بھٹو زرداری! آیئے تھوڑی د یر کے لئے اپنی یادداشت کو آواز دے لیں! 4اپریل 1979کی شب ذوالفقار علی بھٹو کے تختہ دار کو سرفراز کئے جانے کے ’’سینتیس برسوں‘‘ میں ایک اور نسل پروان چڑھ چکی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے سانحہ کا آسیب تپش، حسرت اور بے بسی کی شکلوں میں آج بھی پاکستانیوں کو ان کی بے وقعتی پر کسی پل چین نہیں لینے دیتا۔
ضیاالحق کائناتی زندگی میں انسانی ارتقا کی جاری وساری روح نہیں تھی لفظ ’’مذمت‘‘ بھی اس کا استحقاق نہیں بنتا۔ اس نے انسانیت کے سفر میں علم اور ارتقائی راہوں پر کھلنے والے شگوفوں اور پھولوں کے لئے خود کو آکاس بیل کے طور پر منتخب کیا۔ کسی وقت عرض کیا گیا تھا کہ ’’بھٹو تاریخ کا استعارہ اور ضیا تاریخ کا سیاہ باب کہلائے گا۔ وقت کے پاس مہر تصدیق دیکھی جاسکتی ہے!‘‘
بلاول اسی ذوالفقارعلی بھٹو کا نواسہ ہے!
چار بار پاکستان پر حکمرانی کرنے والی جماعت نے پاکستان کے عوام کوکیا دیا؟ خدا کے بندو! اقتدار کے آکاش پر پہلا قدم رکھتے ہی اس نے پاکستان کو ناقابل تسخیر بنا دیا۔ اب جو ہر ایک کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر للکارے مارنے کے عادی ہو، کیا یہ اسی کی قومی خدمت و عظمت نہیں جسے انہوں نے تمہارے ممد وحین کے بل بوتے پربالآخر عبرت کا نشان بنا دیا؟ اور یاد رکھو پاکستان کے عوام کو زندگی کے ہر شعبے میں آئین و قانون کے راستوں پر چلتے ہوئے جو کچھ فراہم ہوسکا۔ وہ اسی جماعت کی طویل ترین آئینی جدوجہد کا شیریں ثمر ہے۔
کیوں بھول جاتے ہو جس طرح پیپلزپارٹی کے بانی نے پاکستان کو ناقابل تسخیر بنایا تو اس طرح اس کے داماد آصف علی زرداری نے پاکستان کے قریب قریب 68 برسوں کے سیاسی سفر میں پہلی بار ملک و قوم کو آئینی تبدیلی کی جنت سے فیض یاب کیا۔ جس جنت کی خاطراس آصف علی زرداری نے اس سطح کی طعنہ زنی اور دشنام طرازی کوبھی برداشت کیا جس سے شرافت و حیا کی ہر سطح اپنا چہرہ چھپاتی پھرے۔ اور پھر وقت نے اعتراف کیا جب منفرد ترین اسلوب کے کالم نگار حسن نثار نے کہا ’’آصف زرداری للووئوں کا بال نہیں وہ پوری آن اور وقار کے ساتھ ایوان صدر سےرخصت ہوا‘‘
اور یاد کرو ذوالفقار علی بھٹو کی صاحبزادی بی بی شہید کو جس کے قومی کارنامے زمانے کی لوح پہ ثبت ہیں جو پاکستان میں سیاسی تہذیب، سیاسی شائستگی اور سیاسی فکر کے اداراتی علم و عمل کا تاریخ ساز وجود تھا بلاول بھٹو انہی آصف علی زرداری اور بی بی شہید کا فرزند ِارجمند ہے۔
چنانچہ جب کوئٹہ میں دہشت گردی کےشکار اہل وطن کی عیادت کے موقع پر اس نے میڈیا سے بات کی دوران مکالمہ ماں کی یاد میں اشک بار ہوئے۔ باربار پاکستان کھپے ، پاکستان کھپے پاکستان کھپے کے نعرے لگاتے تب سے لوگوں کے ذہنوں میں دو باتوں کی ہوائیں چل رہی ہیں۔ خانوادہ بھٹو اور خانوادہ شہیداں کے سیاسی وارث بلاول بھٹو زرداری شاید قومی سطح پر ’’لیڈرشپ‘‘ کا خلا پر کرنے والے وقت کا فیصلہ ہے اور یہ کہ کوئٹہ اور پھر کراچی میں ہندوئوں کے تہوار دیوالی میں میڈیا سے گفتگو کے دوران جس بلاول نے اپنے اسلوب بیان کے طاقتور ابلاغ سے میڈیا کو حیران کردیا لگا جیسے وہ ون پلس تھری ڈکلیئر کیا جاچکا ہے معلوم نہیں محترمہ عاصمہ جہانگیر کی پکار اوربلاول کے آنسو ہمارے قومی جمہوری سفر کے بارے میں وارننگ کا سبب بنتے ہیں یا نہیں؟ ہاں ایک کی پکار اور دوسرے کے آنسوئوں نےسینٹ کے چیئرمین رضا ربانی کا وہ بیان یاد دلا دیا جب کچھ عرصہ قبل انہوں نے کہا تھا ’’پارلیمنٹ آج بھی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے!‘‘
آخری گزارش! خاکسار نے گزشتہ کالم میں عمران خان کے ’’سیاسی واٹرلو‘‘ کے امکان کا عرض کیا تھا، خاکسار بدقسمتی سے ابھی تک اس خیال سے آزاد نہیں ہوسکا!





.
تازہ ترین