ابھی ابھی یہ کالم زیر تحریر تھا کہ جنرل اشفاق کیانی کا بیان آگیا، جس میں موصوف فرماتے ہیں کہ امریکہ کے ساتھ پاکستان کا اس طرح کا کوئی معاہدہ نہیں ہوا جس کے تحت امریکہ کو یہ آذادی اور اجازت حاصل ہو کہ وہ پاکستان کی علاقائی حدود کا تقدس پامال کرے یا پھر پاکستانی علاقوں پر حملہ آور ہو ۔ ہمارے خیال میں یہ بیان ہمارے نو منتخب صدر آصف علی زرداری کی طرف سے آنا چاہیئے تھا۔ لیکن جب ملک کے آرمی چیف اس حوالے سے بیان دیں تو یہ امر ہمیں کچھ سوچنے بلکہ بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے ، ہم یہ سوچنے پر خود کو مجبور پاتے ہیں کہ ہماری فوج اور ہماری سویلین قیادت کس طرح سے امریکی مفادات بلکہ امریکی ضروریات کے تحت مسلط کردہ جنگ کے آگے بے بس و لاچار ہے اور ہم اس قدر کمزور اور ناتواں ہو گئے ہیں کہ خود اپنے بارے میں سوچنے سمجھنے کی بجائے بس ہم جنگ کا ایندھن بنے چلے جا رہے ہیں۔
لیکن قارئین کرام یہ وہ آرمی چیف تو نہیں ہیں جنہیں خار زار سیاسیات میں رخنہ اندازیوں کا شوق رہا ہو۔ اس حوالے سے ہمارے خیال میں ہمیں قطعی طور پر واضح موقف اختیار کرنا ہو گا۔ تاہم موجودہ آرمی کمان سویلین قیادت کا سقم دور کرنے کی کوشش میں ہے۔ بس آپ سکور کارڈ پر نظر رکھیں، معاملات خود بخود واضح ہو جائیں گے۔
صدر بش کی جرات رندانہ ملاحظہ ہو کہ وہ پاکستان کو عراق اور افغانستان کے ساتھ ایک کٹہرے میں کھڑا کر رہے ہیں۔ انکی نظر میں جنگی تنازعہ تو ایک ہے ، ہاں اسکے تھیٹرز مختلف ہیں جو عراق ، افغانستان اور پاکستان میں واقع ہیں۔ یقیننا یہی وجہ ہے کہ وہ پاکستان سے بار باریہ مطالبہ کرتے ہیں کہ پاکستان ”دہشت گردی کے خلاف جنگ“ میں اپنی ”ذمہ داریوں“ کا بار اٹھائے۔ لیکن امریکی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف ایڈمرل مائیک مولن تو اپنے صدر گرامی بش سے بھی دو ہاتھ آگے نکل گئے، موصوف حال ہی میں کانگریس کے سامنے یہ کہتے نظر آئے کہ افغانستان اور پاکستان دونوں کو باہمی طور پر ایک ”مشترکہ بغاوت“کا سامنا ہے۔ انکے کہنے کا سادہ سا مطلب یہ تھا کہ پاکستان میں ”شدت پسندوں کے محفوظ ٹھکانوں “ کے حوالے سے حکمت عملی کو نظر ثانی کی ضرورت ہے۔
لیکن جناب من حقیقت یہ ہے کہ بش اور مولن کوئی انوکھی بات نہیں کر رہے بلکہ وہ تو صرف اس پالیسی کا برملا اظہار کر رہے ہیں جس پر وہ پہلے سے عمل پیرا ہیں۔ حالیہ دنوں میں امریکی جاسوس طیاروں نے جانتے بوجھتے پاکستان کے قبائیلی علاقوں کے اندر اہداف کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں کئی معصوم شہریوں کی جانیں تلف ہو گئیں اور پورے قبائیلی علاقے میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے جبکہ یہ حقیقت بھی ہم سب کے علم میں ہے کہ انتقام لینا اس خطے کی روایات کا اٹوٹ حصہ ہے۔ سپیشل امریکی فورسسز کی طرف سے پاک افغان سرحد پر واقع ایک گاؤں پر حملہ کر کے بیگناہ بچوں اور خواتین کو قتل کردینا اسی امریکی منصوبہ بندی کا حصہ ہے ، جس کے تحت اس نے عراق میں عوام کے” دل اور دماغ “جیتنے کی کوشش کی تھی۔
سو قارئین کرام یہ ہے وہ بیک گراؤنڈ یا وہ پس منظر جس کے تناظر میں جنرل کیانی نے بیان دیا تھا۔ امریکہ کی پوری کوشش ہے کہ وہ جنگ کو وفاق کے زیر انتظام قبائیلی علاقوں یعنی فاٹا تک کھینچ کر لے آئے اور ساتھ ہی امریکہ کی یہ بھی کوشش ہے کہ وہ آنے والے دنوں میں ذیادہ سے ذیادہ جارحیت پسندی کا مظاہرہ کرے۔ عراق اور افغانستان میں موت و تباہی کے ننگے رقص سے امریکہ کا دل نہیں بھرا، اس لئے وہ یہی کھیل پاکستان میں بھی دہرانا چاہتا ہے لیکن عراق اور پاکستان میں ایک اہم فرق ہے اور وہ یہ ہے کہ عراق کو اسکی مرضی کے بغیر جارحیت کا نشانہ بنایا گیا لیکن پاکستان اور اسکی فوج نتائج کی پرواہ کئے بغیر امریکی منصوبوں پر آمنا صدقنا کا ورد کئے چلی جا رہی ہے۔
ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ صدر آصف زرداری قصر صدارت میں قدم رکھنے سے قبل ہی اس تاثر کو زائل کرنے کی کوشش کرتے کہ پاکستان کے قبائیلی علاقے سپیشل امریکی فورسسز کی شکارگاہ نہیں ہیں۔ لیکن ملاحظہ ہو، موصوف نے الٹی گنگا بہاتے ہوئے افغان صدر حامد کرزئی کو تقریب حلف برداری کے موقع پر بطور مہمان خصوصی مدعو کر ڈالاجبکہ کرزئی کو خود اپنے ملک افغانستان میں امریکی پٹھو کا درجہ دیاجاتا ہے اور ہمیں دیکھیں کہ ہم امریکی پٹھو کو مہمان خصوصی کے طور پر مدعو کر کے باچھیں کھلائے جا رہے ہیں۔ تقریب کے اختتام پر دونوں صاحبان نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس (ہمیں سمجھ نہیں آتی کہ آخر پریس کانفرنس کی ضرورت ہی کیا تھی )میں ”دہشت گردی“ کے حوالے سے ایک ہی لے اور سر تال میں سمع خراشی کی۔تو کیا یہ سمجھا جائے کہ کرزئی ، زرداری کے لئے رول ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں؟ اللہ ہی ہمارا حامی و ناصر ہو۔
پریس کانفرنس کے موقع پر زرداری نے کشمیر کے حوالے سے لب کشائی کرتے ہوئے کہا کہ ایک ماہ کے اندر اندر اس حوالے سے آپ کو ”اچھی خبر“ سننے کو ملے گی۔ ہم یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ موصوف کس دنیا میں رہتے ہیں؟ کیا آپ یہ گمان کئے بیٹھے ہیں کہ بھارت کوئی حیرت انگیز پیش قدمی کرتے ہوئے کوئی اچھوتی تجویز پیش کرے گا؟ وادی کشمیر کے عوام خود بھارتی حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، انکے غم و غصے اور غیض و غضب کا عالم دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے، 1989کے بعد ہمیں پہلی مرتبہ اس قسم کی صورتحال دیکھنے کو مل رہی ہے لیکن بھلا ہو پاکستانی قیادت کا، جس سے کشمیریوں کی حمایت میں دو لفظ بھی نہیں کہے جا رہے اور نہ ہی بھارتی استحصال پر اسکے ماتھے پر ایک شکن نمودار ہوتی ہے۔ اور اللہ بھلا کرے کہ زرداری یہ آس لگائے بیٹھے ہیں کہ ایک ماہ کے قلیل عرصے میں ہمیں کشمیر سے متعلق کوئی اچھی خبر سننے کو ملے گی، اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا۔
ایسا نہیں ہے کہ زرداری کے معترفین اور معشوقین کی کمی ہے، انکے چاہنے والوں کی فہرست خاصی طویل ہے بلکہ اگر ناگوار نہ گذرے تو کہتے چلیں کہ پوری فوج ظفر موج انکی تعریفوں کے پل باندھ کر انہیں بین الاقوامی سطح کا سیاستدان ثابت کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوئے ہے۔ لیکن جناب ہماری گذارش تو بس اتنی سی ہے کہ آصف زرداری خود کو اور پاکستان کو انتہائی متانت کے ساتھ دو خفتوں بہ الفاظ دگرشرمندگیوں سے بچا سکتے تھے۔ پہلی شرم کشا حقیقت تو یہ ہے کہ انہوں نے کزرئی کو بلانے کی زحمت کیوں فرمائی کیونکہ نہ وہ بلاتے اور نہ ہی کرزئی کو اتنا حوصلہ ملتا کہ وہ پاکستان کی نو زائیدہ جمہوریت کی سرپرستی و اعانت کے اعلانات فرماتے اور دوسری شرم فرسا حقیقت یہ ہے کہ کشمیر کے حوالے سے بیچ چوراہے بانڈے پھوڑنے کی اس موقع اور مقام پر کیا ضرورت تھی۔ کیا انہوں نے امریکی سفیر زلمے خلیل ذاد سے سفارتکاری کے یہی اسباق، آداب اور ادائیں سیکھی ہیں؟اگر زلمے خلیل ذاد جیسے کٹر افغانی اور پُور پُور نوقدامت پسندی میں گندھے ہوئے معاملہ ساز نے پاکستان کا دوست ہونے کا دعویٰ کر لیا، تو پھر ہمیں بھلا دشمنوں کی کیا ضرورت ہے، ہوئے تم دوست جس کے دشمن اسکا آسمان کیوں ہو؟
صدر زرداری، وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے چہرے دیکھنے لائق تھے۔ گیلانی خاصے پرسکون نظر آئے جبکہ قریشی کچھ ذیادہ بہتر محسوس نہیں کر رہے تھے اور صدر کی حالت تو خاصی بیقرار سی تھی، صاف لگ رہا تھا کہ وہ شدید ترین بے اطمینانی کی کیفیت میں ہیں۔ کیا بریفنگ برمحل اور توقعات کے مطابق نہ تھی یا پھر صدر کو کوئی اور ہی اڑچھن پیش آگئی۔ اس حوالے سے کہیں سے کوئی وضاحت ہو جائے، تو مناسب رہے گا۔”جمہوریت بہترین انتقام ہے“یہ وہ نعرہ ہے جو اس وقت زرداری کی قیادت میں پی پی پی نے جنگی نعرے کے طور پر اپنایا ہوا ہے۔ اگر جمہوریت کے ثمر کے طور پر قوم کو پی پی پی کی موجودہ قیادت کو جھیلنا ہے تو پھر قوم کو یہ بھی حق حاصل ہے کہ وہ قربان گاہ جمہوریت کے آگے دو زانو ں ہو کر یہ دعا کرے کہ کاش جمہوریت کا ثمر اور اسکا انتقام اپنی شکل تبدیل کر لے۔(جاری ہے)