• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آرمی چیف ہی مخاطب ہیں، صدر صاحب کہاں ہیں؟ ,,,,ایازا میر (دوسری و آخری قسط)

ہمیں زمینی حقائق سے آنکھیں چرانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیئے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ زرداری اس وقت جس پوزیشن پر متمکن ہیں، اس کیلئے انہیں بش انتظامیہ کا زیر بار ہونا پڑا ہے، اگر بش انتظامیہ ان سے تعاون نہ کرتی تو پھر آصف زرداری موجودہ مقام پر نہ ہوتے، وہ یقیننا امریکہ کے احسان مند ہیں۔ زرداری کا جیل سے نکلنا، پرویز مشرف کی طرف سے انہیں وطن سے باہر جانے کی اجازت دینا، بینظیر بھٹو کو پاکستان آنے کی دعوت دینا، مشرف کو یونیفارم اتارنے پر مجبور کرنا، سابق جوڑے کے خلاف کرپشن کیسوں کا خاتمہ (ہم اس بحث میں نہیں پڑتے کہ یہ کیس حقیقی تھے یا نہیں۔)، انتخابات کا انعقاد اور اس حوالے سے مشرف پر یہ دباؤ کہ وہ انتخابات میں دھاندلی کو ہر صورت روکنے کی کوشش کریں، یہ سبھی معاملات امریکہ کے ساتھ ڈیل کے اجزاء تھے۔
مشرف کے استعفیٰ اور زرداری کے بحیثیت صدر پاکستان انتخاب کے بعد پاکستان میں جمہوریت کی تکمیل ہو گئی ہے ، اب اس پر بحث میں نہیں پڑتے کہ کس قدر جمہوریت لیکن جس قدر بھی ہمیں میسر ہے، اسکی تکمیل ہو گئی ہے۔ لیکن ہمارے خیال میں اپنے ملکی معاملات و حالات کے حوالے سے ہمیں کوئی مغالطہ بھی نہیں۔ عوام کو جو مواقعے پیش کئے گئے تھے، اس حوالے سے انہوں نے بہترین کا انتخاب کرنے کی کوشش کی۔ لیکن یہاں اہم نکتہ یہ ہے کہ یہ مواقع مختلف عوامل کے زیر اثر تخلیق کئے گئے تھے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ وکلاء کی تحریک کے ذریعے مشرف کو کمزور کیا گیا، اور دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ امریکہ بہادر خود لٹھ لیکر مشرف کے پیچھے پڑ گیا تھا اور ان سے یہی فرمائش ہو تی رہی کہ وہ سیاسی قوتوں کے لئے میدان خالی کر دیں جبکہ قبل ازیں مشرف سیاسی قوتوں کو کسی خاطر میں ہی نہیں لاتے تھے۔
جہاں تک وکلاء تحریک کا معاملہ ہے تو زرداری خود کو اس حوالے سے قطعی طور پر بری الذمہ سمجھتے ہیں۔ وہ کلی طور پراپنے امریکی دوستوں اور سرپرستوں کے ممنون و مشکورنظر آتے ہیں۔ لیکن صاحبان کیا کریں، انہیں بھی احسان مندی کا بوجھ اتار لینے دیں، وہ ہوتے رہیں مشکور، ہم اور آپ کیا کر سکتے ہیں۔ لیکن صاحبان ایسا بھی نہیں کہ ہم اس وقت بھی چپ شاہ کا روزہ رکھ کر بیٹھ جائیں گے جب وہ پاکستانی قوم کے برتے پر اپنے احسان چکاتے پھریں گے، ایسا ہرگز نہیں ہے۔
زرداری کیلئے شاید کرزئی قابل تقلید نمونہ ہوں اور وہ انکی تعریف و توصیف کے حوالے سے رطب اللسان ہوں۔ لیکن پاکستانیوں کی اکثریت ایسا نہیں سوچتی ۔دوسری طرف اہم بات یہ بھی ہے کہ صدر بش کو اپنے امریکی سامعین و ناظرین سے ہاتھ دھونے پڑ رہے ہیں کیونکہ وہاں کی ایک بڑی اکثریت عراق کے حوالے سے انکا ساتھ دینے سے انکار کر رہی ہے۔ انکا فرمان کوئی کتاب مقدسہ کا حکم نہیں، جسے تسلیم کرنا ہم پر فرض ہو۔ آخر کوئی پاکستان کا مقابلہ عراق سے کیسے کر سکتا ہے اور دونوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کی کیسے سوچ سکتا ہے۔ لیکن اگر ایسا ہی ہے تو کیا جو عراق کے لئے بہتر ہے ، وہ پاکستان کے لئے بھی بہتر نہیں ہو گا؟
ہمیں جنگ میں پھنسا دیا گیا تھا، اس حوالے سے کوئی دو رائے ہو ہی نہیں سکتی۔ القاعد ہ کوکس نے یہ اختیار دیا کہ وہ ہمارے قبائیلی علاقوں میں روپوش ہو ، لیکن چلیں تسلیم کئے لیتے ہیں کہ القاعدہ کے کچھ عناصر وہاں موجود بھی ہیں تو کیا پھر یہ ہماری ذمہ داری نہیں بنتی کہ ہم امریکہ کے لئے نہیں بلکہ خود اپنے ملک کو ان عناصر سے پاک کرنے کی کوشش کریں۔ لیکن ہمیں اپنے معاملات کو اپنی آنکھ سے دیکھنا ہے نہ کہ امریکہ کی آنکھ سے۔ ہمیں خارجہ پالیسی کے حوالے سے امریکہ بہادر کی صلاحیتوں کے بارے میں ڈیگال کا یہ قول ضرور پیش نظر رکھنا چاہیئے، ” آپ اس بات کا قطعی طور پر یقین فرما لیں کہ امریکی ہر وہ بیوقوفی کریں گے جسکا انہوں نے سوچ رکھا ہوتا ہے بلکہ آپ ان سے ایسی بیوقوفیوں کی توقع بھی رکھیں، جو شاید احاطہ خیال و تصور میں بھی نہیں آتیں۔“
ا س میں کوئی کلام نہیں کہ بش انتظامیہ امریکہ کے لئے خاصی بدشگونی کا باعث رہی ہے۔ اسامہ بن لادن نے تو شاید اتنا کمال نہیں دکھایا لیکن ہاں امریکی پالیسیوں نے دنیا کو جہنم زار بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ افغانستان پر القاعدہ کے واسطے حملہ کیا گیا۔ عراق پر حملے کے لئے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا شوشا چھوڑا گیا۔ او ر اب ان دونوں ممالک میں امریکہ کو منہ کی کھانی پڑ رہی ہے، ہاتھوں سے لگائی گئی گرہیں، دانتوں سے کھولنی پڑ رہی ہیں۔ القاعدہ اب پہلے سے ذیادہ بڑی عفریت میں تبدیل ہو چکی ہے۔ بش انتظامیہ نے اپنی نااہلی کے باعث جتنے محاذ کھولے، وہ سب پٹے پڑے ہیں ، جس قدر گند مچایا جا چکا ہے، اسکی صفائی کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی، اب اپنے اختتام کے قریب بش انتظامیہ اس امر کی خواہاں ہے کہ تباہی و بربادی کے دائرہ کار کو مزید وسعت دی جائے اور کوشش یہ کی جا رہی ہے کہ پاکستان کو بھی اس دائرے میں کھینچ لیا جائے۔
ہم پہلے ہی اس جنگ کے مضمرات جھیل رہے ہیں، ہماری فوج ، پیراملٹری یونٹس اور دیگر سیکیورٹی فورسسز کو شدید نقصانات اٹھانے پڑ رہے ہیں، لیکن پھر بھی امریکی جنگی جنوں ساز مطمئن نظر نہیں آتے۔”ہل من مزید“ کی صدائیں بلند سے بلند تر ہوتی چلی جا رہی ہیں، بھلے پاکستان خونم خون ہو، بھلے پاکستانی علاقے پاکستانی فوج کا قبرستان بن جائیں، امریکہ کو تسلی نہیں ہورہی۔
اس مقام پر زرداری کو تمام متعلقہ قوتوں کو ایک ساتھ لیکر چلنا ہو گا اور امریکی دباؤ کے حوالے سے مناسب ردعمل کا اظہار کرنا ہوگا۔ آصف زرداری کو پاکستانی مفادات کا نگہبان نظر آنا چاہیئے۔ لیکن بدقسمتی سے سردست انکے حوالے سے جو تاثرات ابھر کر سامنے آرہے ہیں، اسکے مطابق تو وہ پاکستان میں امریکی مفادات کا علم بلند کئے نظر آرہے ہیں، گرچہ یہ انکے ابتدائی شب و روز ہیں۔ لیکن جناب آصف زرداری کو یہ احساس ہونا چاہیئے کہ قوم کی توقعات اس کے برعکس ہیں۔
نوٹ: اس آرٹیکل کے جملہ حقوق بحق رائٹ ویژن سنڈیکٹ محفوظ ہیں۔ اسکی کسی بھی شکل میں ری پروڈکشن کی اجازت نہیں ہے۔
تازہ ترین