• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’ہم پہلے مسلمان ہیں پھر پاکستانی ہیں۔ یہ جنگ ہماری تھی اور ہے۔ مظلوم مسلمان کی مدد کرنا لازم ہے، خواہ وہ دنیا کے کسی بھی خطے سے تعلق رکھتا ہو۔‘‘ قارئین! پس منظر کے طور پر یاد رکھیں!ریاست ایک جامد اور ساکن چیز کو کہا جاتا ہے، اور ریاست کو اسٹیبلشمنٹ کے ذریعے متحرک کیا جاتا ہے۔ ریاست پر جو حاکم ہے وہ ہی ریاست کے تحفظ اور مفادات کا ضامن ہے۔ اگر اسٹیبلشمنٹ مسلمانوں کی اکثریت پر مشتمل ہے تو وہ اسلامی ریاست ہے۔ مسلمان اس بات کے مکلف ہیں کہ وہ اسلام اور قرآن و سنت کے ترجمان بنیں۔ ریاست کے اسلامی ہونے کے یہی معنی ہیں۔ علامہ اقبالؒ اور قائد اعظم ؒنے کہا تھا کہ ہندو مسلم بھائی بھائی نہیں ہوسکتے بلکہ مسلمان بھائی بھائی ہیں۔ ہندو اور مسلمان دو الگ الگ قومیں ہیں مگر ہندو اپنی سیاسی مصلحت سے کہتے تھے کہ ہندوستان میں جتنی قومیں رہتی ہیں یہ سب ایک قوم ہے۔ بانیانِ پاکستان نے کہا کہ نہیں یہ دو قومیں نہیں، دو ملتیں ہیں۔ یہی قرآن کا اصول ہے۔
قرآن نے دنیا میںانسانوں کی دو ملتیں بتائی ہیں دنیا بھر کے مسلمان ایک ملت ہیں اور کافر دوسری ملت ہے۔ قرآن کی سورۃ التغابن کی دوسری آیت ہے: ’’وہی ہے جس نے تمہیں پیدا کیا، پھر تم میں سے کوئی کافر ہے اور کوئی مومن۔‘‘ دیکھیں! قرآن نے اس جگہ انسان کو دو گروہوں کافر اور مؤمن میں تقسیم کیا ہے ۔ رنگ اور زبان، نسب وخاندان، وطن اور ملک میں سے کوئی چیز ایسی نہیں جو انسانی برادری کو مختلف گروہوں میں بانٹ دے۔ ایک باپ کی اولاد اگر مختلف شہروں میں بسنے لگے یا مختلف زبانیں بولنے لگے یا ان کے رنگ میں تفاوت ہو تو وہ الگ الگ گروہ نہیں ہوجاتے۔ اختلافِ رنگ وزبان اور وطن وملک کے باوجود یہ سب آپس میں بھائی ہی ہوتے ہیں۔ فقہائے اسلام اور علماء کا متفقہ فیصلہ ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان ایک ملت اور ایک قوم ہیں اور دنیا بھر کے کافر الگ ملک اور قوم ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عملاً یہی تعلیم دی تھی۔ قریش کے ابوجہل سے جنگ کی اور بلال حبشیؓ کو سینے سے لگالیا، جو افریقہ سے آئے تھے۔ صہیبِ رومی ؓاور سلمان فارسی ؓجو ایران سے آئے تھے ان کو اپنے دامن محبت میں جگہ دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نسل او ر وطن کے لوگوں سے اسلام کی بنیاد پر جنگ کرکے بتادیا کہ قومیت اور ملت دین کے نام پر قائم ہوتی ہے۔ پاکستان نظریاتی ملک ہے۔ اسلامی نظریہ کی بنیاد پر یہ وجود میں آیا تھا۔ یہ ایک نظریاتی، مذہبی، دینی ریاست ہوتی ہے جہاں برتر قانون قرآن وحدیث ہوتے ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودِ مدینہ سے میثاق ِمدینہ کیا تو اس میثاق میں بھی آپ کو نہ صرف فیصلوں کے معاملے میں سپریم اتھارٹی مانا گیا، بلکہ تمام تنازعات، اختلافات میں آپ کا فیصلہ اٹل تسلیم کیا گیا تھا۔ دو قومی نظریے سے اقوامِ عالم کو کسی غلط فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ دو قومی نظریہ کا یہ ہرگز مطلب نہیں ہے کہ مسلمان دوسری قوموں سے الگ تھلگ رہ کر زندگی گزاریں بلکہ ہمیں تو قرآن وسنت نے یہ تعلیم دی ہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ بھی ہمیشہ خیر خواہی اور حسنِ سلوک کا معاملہ کرو۔ تجارتی و سیاسی معاملات میں جائز اور معقول حد تک باہمی تعاون سے اور صلح جوئی سے کام لو۔ معاہدات اور عدل وانصاف کی پابندی کرو بلکہ جو غیر مسلم ہمارے ملک کے باشندے ہیں یا جو باہر سے عارضی طور پر قانونی طریقے سے یہاں آکر رہیں، ان کی تو جان ومال اورآبرو کی حفاظت یہاں کی حکومت اور مسلم معاشرے کی قانونی ذمہ داری ہے۔ ان کو اپنی عبادات پر عمل کرنے کی مکمل آزادی ہے۔ ان کی عبادت گاہوں کو کسی قسم کا نقصان نہ پہنچانا بھی ہمارا دینی فریضہ ہے۔ ان کا پرسنل لا بھی قانونی طور پر آزاد ہے۔ اس میں کسی مسلمان کو کسی قسم کے ردو بدل کی ہرگز اجازت نہیں اور ان تمام امور کی ضمانت خود ہمارے 1973ء کے آئین نے بھی دے رکھی ہے۔ اسلام کے بہت سے قوانین غیرمسلموں پر لاگو نہیں ہوتے۔ اگر کسی نے اسلام قبول نہیں کیا ہے تو اس پر کوئی زور زبردستی نہیں اور اسلامی حکومتوں میں انہیں مکمل تحفظ بھی حاصل رہا ہے،لیکن جس نے اسلام قبول کیا، اس کے لیے ضرور اسلام کچھ ضابطے مقرر کرتا ہے۔ یہ اس کی بقا کے لیے ہوتے ہیں، ظلم کے زمرے میں نہیں آتے۔
ہمارے سیکولر دانشوروں کا المیہ یہ ہے کہ انہوں نے نہ تو اسلامی تعلیمات کا بغور مطالعہ کیا ہے اور نہ ہی اپنے سیاسی مفکرین کا۔ اسی صدی کے سب سے بڑے امریکی سیاسی فلسفی ’’جان رالز‘‘ اپنی آخری کتاب میں خلافتِ عثمانیہ کے دور اور معاشرے کو دنیا کے بہترین معاشرے کے طور پر پیش کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ اندلس سے بھاگنے والے ہزاروں یہودیوں کو خلافتِ عثمانیہ نے ہی پناہ دی اور آج بھی استنبول میں ان یہودیوں کے گھر موجود ہیں۔ اسلامی معاشرے کے نقاد و ذرا انصاف سے بتائو! اس سے بڑھ کر اور کیا رواداری ہوسکتی ہے؟ اسی طرح ایک دوسرے مغربی فلسفی ’’مائیکل مین‘‘ نے اپنی ایک کتاب میں مذاہب کا تقابلی مطالعہ کرکے بتایا ہے کہ مسلمانوں کی خلافت کا معاشرہ غیرمسلموں کے لیے بہترین اور مثالی معاشرہ تھا۔ مسلمانوں کے معاشرے میں غیرمسلموں کے ساتھ بہترین رواداری کا مظاہرہ کیا گیا۔ یہی بات نیویارک ٹائمز کے ایڈیٹر اور سابق صدر بش کی 5 رکنی کیبنٹ کے ممبر فرید زکریا نے اپنی کتاب ’’فیوچر آف فریڈم‘‘ میں تفصیل سے لکھی ہے۔ ایک اہم نکتہ یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ عیسائی، یہودی اور دیگر مذاہب والے اگر اپنی ریاستوں سے مذہب کو دیس نکالا دیتے ہیں، اس میں وہ حق بجانب کہلائے جاسکتے ہیں کیونکہ ان کے پاس ان کی شریعت کا کوئی باوثوق مذہبی قانون نہیں ہے۔ ایک ریاست کو کس طرح چلایا جاتا ہے؟ ریاست کے خدوخال کیا ہوں؟ موسیٰ یا عیسیٰ علیہ السلام کی ایسی کوئی تعلیمات اس دنیا میں موجود نہیں جن کی بنیاد پر یہودی یا عیسائی دعویٰ کرسکیں، جبکہ اس کے مقابلے میں اسلام کے پاس پورا فلسفہ حیات ہے۔ ایک کامیاب ریاست کو چلانے کے لیے سینکڑوں اور ہزاروں کتابیں موجود ہیں۔ پھر یہ صرف ایک نظری بات نہیں، بلکہ مسلمانوں کی ایک طویل تاریخ اس پر گواہ ہے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ، حضرت عمر فاروقؓ، حضرت عثمان غنیؓ اور حضرت علیؓ اورعمر بن عبد العزیز ؒکے ادوارِ حکومت سے بڑھ کر اس کی دلیل کیا ہوسکتی ہے؟ کیونکہ اسلامی ریاست کا تصور ہمارے سیکولر دانشوروں کے سامنے نہیں ہے، اسلامی مسلح عسکری جماعتوں نے اسلامی ریاست کا جو تصور ان لوگوں کے دل و دماغ میں بٹھایاہے اس کی وجہ سے پریشان ہیں۔ یہ تمام خرابیاں شاید ہماری موجودہ حکومتوں اور ہم مسلمانوں کی نااہلی کے سبب پیش آرہی ہیں۔ اس میں پاکستان اور اسلام کا کوئی قصور نہیں۔ تیسری بات یہ ہے کہ ہر ملک اور ریاست نے اپنے دفاع کے لئے مختلف النوع اقدامات کیے ہوئے ہوتے ہیںاور کئی کئی پالیسیا ں اپنائی ہوئی ہوتی ہیں۔ پاکستان نے بھی اپنے دفاع کے لئے جو کچھ کیا ہوا ہے ان میں سے ایک عالمی جنگ میں شرکت بھی ہے۔
پاکستان نے اگر امریکہ اور دنیا بھر کے مجاہدین کے ساتھ مل کر روس کو تباہ کیا تھا تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ روس چونکہ امریکا، پاکستان اور مسلمانوں کا مشترکہ دشمن تھا، لہٰذا انہوںنے باہمی مل کر مار بھگایا۔ اس کی نظیر قرونِ اولیٰ سے بھی ملتی ہے۔ غزوۂ خندق میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنوقریظہ سے معاہدہ کیا تھا کہ وہ مسلمانوں کے مخالف سے تعاون نہ کریں گے۔ اسی طرح غزوہ حنین میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کے کفار سے جنگی سامان لے کر گئے تھے بلکہ بعض کفار بھی اس جنگ میں مسلمانوں کے ساتھ تھے۔ اس وقت جو بھی مسلمان اس جنگ میں شریک ہوا وہ جہاد سمجھ کر ہی ہوا، وہ وطن اور دین کی خاطر ہی لڑا۔ یاد رکھیں! ہم پہلے مسلمان ہیں پھر پاکستانی ہیں۔ یہ جنگ ہماری تھی اور ہے۔ مظلوم مسلمانوں کی مدد کرنا ہم پر لازم ہے۔ برادرم پیرزادہ صاحب! آپ جو بھی بیانیہ اختیار کریں، اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی نظریاتی، فکری، جغرافیائی، تہذیبی، اخلاقی، ثقافتی، عسکری اور تاریخی پس منظر سے ہم آہنگ ضرور ہو۔
تازہ ترین