• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اگرچہ قائداعظمؒ کی ایک رہائش گاہ ہی قومی اثاثہ نہیں، پھر بھی یہ امر قابلِ قدر جانئے کہ قائداعظمؒ سے منسوب ان کی اولین اور ابتدائی رہائش گاہ ’’وزیر مینشن‘‘ کراچی کی دگرگوں حالت دیکھ کر اس کی مرمت اور تزئین و آرائش کرانے کی پیش کش کی گئی ہے۔دوسرے ملکوں اور قوموں کے اپنے فاؤنڈنگ فادرز سےعقیدت و احترام کے مظاہر ہمارے لئے واقعی مشعل ِ راہ ہیں۔ مثلاً:امریکی حکومتوں نے اپنے بابائے قوم جارج واشنگٹن کی تقریباً ہر شے محفوظ کر رکھی ہے۔ گاندھی اور نہرو کا ذکر ہی کیا، اگر قائداعظمؒ اور جارج واشنگٹن کا بھی تقابلی جائزہ لیا جائے تو قائداعظمؒان سے کہیں بڑے آدمی دکھائی دیں گے۔ بہرحال، جارج واشنگٹن کا تعلق ریاست ورجینیا سے تھا۔ ان کا کئی ایکڑ پر محیط گھر ہی نہیں گھر کی ہر شے محفوظ کر دی گئی ہے۔ جس کمرے میں ان کے غلام رہتے تھے وہ بھی مِن و عَن ہے۔ ان کے ہاتھ کا لگا ہوا دو سو سال سے زائد پرانا درخت بھی محفوظ کر لیا گیا ہے۔ اور اسے آسمانی بجلی سے محفوظ رکھنے کا انتظام بھی کیا گیا ہے۔ ایک رضا کار تنظیم اس گھر کی دیکھ بھال کرتی ہے۔ جارج واشنگٹن کی کھانے کی میز اور پلیٹیں تک محفوظ ہیںاور ان میں کھانا چُنا رہتا ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ وہ ابھی آکے کھانا کھائیں گے۔
نئی دہلی،’’مہاتما گاندھی میوزیم‘‘میں گاندھی کے زیرِاستعمال رہنے والی تقریباً ہر شے محفوظ ہے۔ ایک پلیٹ جس میں وہ کھانا کھاتے تھے۔ ایک کانٹا، ایک چھری، ایک چمچہ، لاٹھی، کھڑاویں، چادر جو وہ لپیٹتے تھے، عینک، عینک کیس، قلم وغیرہ سیاحوں کیلئے وہاں قرینے سے رکھی ہیں۔ اسی طرح دہلی میںجواہر لال نہرو کا ’’تین مُورتی ہاؤس‘‘ حکومت ہند نے تاریخی یادگار کے طور پر محفوظ کر رکھا ہے۔ اس میں نہرو کا بیڈ بھی رکھا ہے۔ وہ میز جس پر وہ بطور وزیراعظم کام کرتے رہے۔ قلم، ٹیلی فون غرضکہ ہر چیز محفوظ ہے۔ یہاں تک کہ صفدر جنگ روڈ پر اندرا گاندھی کا گھر بھی محفوظ کر لیا گیا ہے۔ وہ ساڑی بھی وہاں رکھی ہے جو قتل کے وقت پہن رکھی تھی۔ یہاں یہ عالم کہ تحریکِ پاکستان اور پھر تعمیر پاکستان میں قائد اعظمؒ کے دستِ راست خان لیاقت علی خاںؒ نے 16 اکتوبر 1951ء کو شہادت کے وقت جو کپڑے پہن رکھے تھے پولیس نے ان کی بیگم کو دینے سے انکار کر دیا۔ بڑی تگ و دو کے بعد صرف ان کی ٹوپی انہیں دی، جوکراچی کے نیشنل میوزیم میںمحفوظ ہے۔ترکی کے دارالحکومت استنبول کے پیرا پلاس ہوٹل میں، جو1892ء میں تعمیر ہوا تھا، جدید ترکی کے بانی کمال اتاترک قیام کرتے رہے۔ ان کا وہ کمرہ حکومتِ ترکی نے جوں کا توں محفوظ کر رکھا ہے۔ اور اسے ایک چھوٹے سے میوزیم کی صورت دے رکھی ہے۔ وہ بستر جس پر وہ آرام کرتے تھے اسی طرح پڑا ہے۔ ان کے بعض یونیفارم، ٹوپیاں، فلمیں، ان کے ہاتھ کی بعض تحریریں، ان کی تصاویر کے مختلف پوز، جنگی تمغے اور استعمال میں رہنے والی بعض دیگر اشیا بڑے قرینے سے وہاں سجائی گئی ہیں۔وہاں رکھی گئی گھڑی کی سوئیاں کمال اتاترک کی وفات کے وقت پر فکس کر دی گئی ہیں۔ حکومت نے کراچی کا فلیگ اسٹاف ہاؤس قومی اثاثہ قرار دے دیا۔ وہ قائداعظمؒ نے خریدا ضرور تھا، لیکن اس میں ایک روز بھی قیام نہ کیا ۔ پاکستان بھر میں بیشمار عمارتوں، ہالوں، مقامات اور جلسہ گاہوں کو قائداعظمؒ سے گہری نسبت رہی۔ کئی ڈھے گئیں، جو رہ گئیں وہ نوحہ کناں ہیں، کہ حکومتیں اورحکومتی ادارے حسبِ معمول بے حس ہی رہیں گے، کوئی ملک ریاض حسین اٹھے اور ہر اس مقام کو اس کی اصل حالت میں برقرار رکھنے کا بیڑا اٹھائے۔
قائداعظمؒ کے استعمال میں رہنے والی اشیا بھی، جو ان کے حسنِ ذوق کا پتا دیتی تھیں، ہماری بے حسی کی بھینٹ چڑھ گئیں۔ قالین قائداعظمؒ کو شوق تھا ۔ ان کے پاس ایسے ایسے قالین تھے کہ شاید یہ کسی راجے، مہاراجے یا وائسرائے کی ملکیت میں رہے ہوں۔ بیش قیمت اور نفیس۔ قائداعظمؒ کے جمالیاتی ذوق کے آئینہ دار۔ مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح وفات کے بعد ملازموں کی بھینٹ چڑھتے رہے۔ اور اسی زمانے میں نیویارک یا واشنگٹن کے حوالے سے اخبارات میں ایک خبر چھپی کہ ڈاکو ایک بڑے شوروم سے قالین لوٹ کر لے گئے ہیں۔ وہ قالین قصرِ فاطمہ سے سچ کا سفر طے کرتے ہوئے وہاں پہنچے تھے۔ قائداعظمؒ کے استعمال میں رہنے والی کراکری کا بھی یہی حال ہوا۔ حتّٰی کہ ان کی قمیضیں تک کراچی صدر کے فٹ پاتھوں پر بکیں۔ میں دل جلا دہائی دیتا رہ گیا، کسی نے میری ایک نہ سنی۔یہ تو منقولہ اشیا تھیں۔ غیر منقولہ ٹھوس اور جامد اشیا، مقامات ، عمارتوں اور جلسہ گاہوںکے تحفظ کیلئے ہم نے کیا کیا؟ ہماری بے حسی اور حاکمانہ کروفر کا تازہ ترین ہدف لاہور کا یونیورسٹی گراؤنڈ ہے۔ تخلیق ِ پاکستان کے جرم میں مسلمانوں پرظلم و ستم کی انتہا کر دی گئی۔ ماؤں کی گود سے بچے چھین چھین کر نیزوں پر اچھالے گئے۔ عورتوں کی عصمتیں لوٹی گئیں۔ کسی کے بیٹے اس کے سامنے تہہ تیغ کئے گئے۔ اور کسی کے والدین اور بہن بھائی۔ کسی کی ٹانگ کاٹ دی گئی اور کوئی بازوؤں سے محروم کر دیا گیا۔ ایک قیامتِ صغریٰ تھی۔ دوسری طرف ماؤنٹ بیٹن، گاندھی، نہرو اور پٹیل اور اپنے ہی بعض غدار مسلمان ’’لیڈروں‘‘ کی پیش گوئیاں کہ پاکستان چھ ماہ سے زیادہ قائم نہیں رہے گا۔ یہ پیش گوئیاں پوری کرنے کیلئے پاکستان کے حصے کے اثاثے، سونا اور نقد روپیہ وغیرہ روک لیا گیا۔ ہر پہلو مایوسی کی خوفناک گھٹائیں۔ اس ماحول میں لاہور کے اسی یونیورسٹی گراؤنڈ میں قائداعظمؒ نے 30 اکتوبر 1947ء کو خطاب کیا۔ مایوسی، بے بسی اور پریشانی کو قائداعظمؒ نے یہ کہہ کر عزم و ہمت میں بدل دیا:’’مسلمان مصیبت میں گھبرایا نہیں کرتا‘‘۔ ساتھ ہی قوم کو امید آشنا کیا اور دشمن پر واضح کہ:’’کرۂ ارض پر کوئی قوت ایسی نہیں جو پاکستان کو ختم کر سکے۔ یہ قائم رہنے کے لیے بنا ہے‘‘۔ جلسہ گاہ اللہ اکبر، پاکستان اور قائداعظمؒ زندہ باد کے نعروں سے گونجتی رہی۔ لاہور نے آج تک اتنا بڑا اجتماع نہیں دیکھا۔ تاحدِنگاہ انسان ہی انسان۔ لاؤڈ اسپیکر ایک طرف چوک پرانی انارکلی اور دوسری طرف چوک مزنگ چورنگی پر نصب تھے۔اگرچہ یونیورسٹی گراؤنڈ ا سپورٹس کے حوالے سے بھی تاریخی ہے لیکن قائداعظمؒ کی نسبت سے تو یہ ایک تاریخی اثاثہ ہے۔ حاکمانہ شوکت کے آگے جس کی کوئی حیثیت نہ رہی۔ لیک روڈ کو چوڑا کرنا چاہا تو کوٹھیوں کے بجائے اس کی زمین پر قبضہ کر لیا گیا۔ لوئر مال کی توسیع کیلئے بھی نزلہ اسی پر گرا۔ میٹرو بس منصوبے کی تکمیل میں بھی اسی پر یلغار ہوئی۔ اب یہ اورنج لائن ٹرین پروجیکٹ کی زد میں ہے۔ ہم نے بادشاہوں کی یادگاروں کو تو قومی اثاثہ قرار دے دیا، مگر جن مقامات اور عمارتوں کا ہماری قومی شناخت سے گہرا تعلق ہے ا نہیں ہم قومی اثاثہ کہنے اور قرار دینے کیلئے تیار نہیں۔ اور نہ ہمیں ان کے تحفظ کی فکر ہے۔ اور نہ ہی ان کی بربادی پر ہمارا ضمیر جاگتا ہے۔

.
تازہ ترین